فٹے منہ!!

پاکستانی عوام دنیا کی وہ بد بخت عوام ہے جس نے ایک قوم بننے کیلئے اور اپنی شناخت کیلئے ایک ملک تو حاصل کر لیا مگر کبھی قوم بن نہیں سکی۔ہم نے بتدریج زوال سے عروج اور پھر زوال کی جانب سفر کیا ہے۔ یہاں کے لوگوں نے عملی طور پر ثابت کیا ہے کہ یہ لوگ ایک قوم کہلانا تو کجا انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں رہے۔ حسد، بغض، کینہ، موقع پرستی، مفاد پرستی، شخصیت پرستی، اقرباء پروری، جھوٹ، دھوکہ جیسی خصوصیات ان غلامانہ ذہنوں کا خاصہ ہیں۔ اس وجہ سے میرا دل کرتا ہے کہ میں انہیں کہوں ۔فٹے منہ! اب اس فٹے منہ والے لفظ کو جب میں تفصیل سے بیان کروں گا تو مجھے یقین ہے کہ ہر ذی شعور انسان میرے اس فٹے منہ کہنے سے اتفاق کرے گا۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے ایک جگہ فسادات بپا تھے، وبائیں پھیل رہیں تھی، تختے الٹے جا رہے تھے اور بڑی بڑی طاقتوں کو شکست ہو رہی تھی تو دوسری جانب ایک کمزور، ناتواں اور غلام لوگوں میں جذبہ ایمانی مضبوط ہو رہا تھا۔ انہیں اپنی خو اور خودی کا ادراک ہو رہا تھا، کہ یوں ہم نے کلمہ حق کی بنیاد پر، اﷲ کے نام پر دنیا بھر کی بڑی طاقتوں کو شکست دے دی۔ اور ایک سرزمین حاصل کر لی۔ شروع میں وہ نسل زندہ رہی تو سرزمین پاکستان بھی خوب پھلی پھولی۔ ترقی و استحکام کے در وا ہو رہے تھے، دشمنان اسلام کو اس بات کا ادراک ہو چکا تھا کہ اگر یہ ریاست ترکوں کی طرح مستحکم ہو گئی تو ترکوں کا تختہ پلٹنے کے بعد یہ ریاست ان کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن جائے گی۔ ایک مکمل سازش کے تحت پاکستان پر جنگیں مسلط کی گئیں۔ لیکن جذبہ ایمانی اور جنون کی فراوانی نے ہمیں سرخرو کیا اور کافر گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے۔ پھر معاملہ شروع ہوا جس میں ملوث سبھی کو میں فٹے منہ کہنا چاہتا ہوں۔ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے، لیکن اس پر بھی تاویلیں دی جاتی ہیں، مجھے ایسے تاویلیں گھڑنے والے لوگ بتائیں کہ اگر ہم اپنے گھر سے ہی محبت نہ کریں تو کیا شیطان صفت لوگ کبھی بھی ہمیں اس گھر میں رہنے دیں گے؟ لیکن قبائلی،برادری،وڈیرہ شاہی اور فتنہ پردازی کی انا، حسد کی وبا نے ملک کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کر دیا تھا۔ ملک کی یہ جڑیں وہ دو قومی نظریہ، جو اسلامیت کے امین، وہ آئین ہیں جو انسانیت کے پاسدار ہیں ۔ آج ان جڑوں کو دیکھو! کیا کھوکھلی نہیں ہو چکیں؟ ان تمام دیمکوں اور ان کے دست راسوں کا فٹے منہ!۔ جب کبھی کسی ملک کی باگ ڈور ایسے کاروباری کے ہاتھ میں جاتی ہے جو حوس و لالچ، اور دولت و ثروت کے حصول کیلئے مکاری سے کام لیتا ہو تو اس ملک میں خیر باقی رہ جائے کوئی معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی ممالک پر ایسا غلیظ ٹھیکیدار طبقہ مسلط ہے وہاں کوئی خیر باقی نہیں رہی۔ایسے تمام کاروباریوں کا فٹے منہ! جنہوں نے حاکمیت کو اﷲ کی امانت جان کر نبھانے کی بجائے ناخداؤں کی مرضی یا کاروباری اہداف کے حصول کیلئے حاکمیت کی۔ جذبات و احساسات جیسے پھولوں کا چمن ان دلوں میں پھوٹتا ہے جن کی سرزمین قلب ایمان اور ایمان کی محبت سے زرخیزو سیراب ہوتے ہیں۔ آج لوگوں کے دل مردہ ہو چکے ہیں اور سروں میں بند دماغ، دماغ نہیں بلکہ پکے ہوئے خوشے ہیں جن کا وزن ان کا جسم اٹھانے سے قاصر نظر آتا ہے۔ ان لوگوں کا ایمان صرف و صرف کمزور و ناتواں اور غریبوں پر دھونس جما کر انہیں اپنا غلام بنائے رکھنا ہے۔ جانے کس زعم کا شکار ہیں کہ ان کی ثروت و مرتبت محض اﷲ تعالیٰ کی عطا ہے۔ موقع و مفاد پرست طبقہ ہر بار لوگوں کی بنیادی ضروریات کو ذخیرہ اندوزی کے ذریعے ان پر قبضہ کر لیتا ہے، اور پھر منہ مانگے دام وصول کر کے ناجائز منافع کماتا ہے۔ ہر بار جب بھی کبھی عوام الناس کی زندگی و موت کا سوال آیا یہ گروہ متحرک نظر آیا جن کی وجہ سے کئی معصوم جانوں کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ جان بچانے والی ادویہ سے لے کر اشیائے خوردونوش تک ہر ایک چیز پر یہ لوگ ہاتھ صاف کرتے ہیں اور لوگوں کو عذاب کا متحمل کرتے ہیں۔ ایسے تمام مفاد پرستوں اور ان کے آلہ ء کاروں کا! فٹے منہ! ملک پر حکمرانی کرنے والے سیاستدان جو عوام کو امید کی کرنیں دکھاتے ہیں اور بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، لیکن نا تو وہ عہد نبھاتے ہیں اور نہ ہی ملک و ملت کی خوشحالی کیلئے کچھ کرتے ہیں، ایسے تمام حکمرانوں اور ان حکمرانوں کیلئے راستے ہموار کرنے والوں کا۔ فٹے منہ! وطن عزیز اس وقت بے انتہا اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہے، تختے پلٹنے اور اپنے مرضی کے حکمران لا کر جلد از جلد اپنے مذموم عزائم کو پایہ ء تکمیل تک پہنچانے کیلئے جی توڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔ جال بنے جا رہے ہیں، سازشیں کھیلی جا رہی ہیں، زندگیاں داؤ پر لگائی جا چکی ہیں، ایسے میں کاش یہ عوام زندہ ہوتی، آنکھیں، کان کھلے رکھتی، ظالم و جابر کے سامنے کلمہ ء حق کہنے کی جسارت رکھتی تو آج اس ٹھیکیداری نظام کے تسلط میں نہ ہوتی۔ ایسا نظام عدل جس میں طاقت وروں کیلئے قانون اور ہو، اور کمزوروں کیلئے اور۔ ایسا نظام تعلیم جو معاشرت میں اعتدال کی بجائے تعصب کا باعث بنے، ایسا نظام معیشت جس میں سود کی لعنت اور غریبوں پر وصولیوں کا بوجھ ہو۔ ایسا نظام خوراک جو رعایا کو بھوکا سونے پر مجبور کرے، ایسا نظام نفاذ قوانین جس میں بے گناہوں کو سزا دی جاتی ہو، طاقتوروں کی جے جے کار ہو۔ ایسا نظام حکومت جس میں آئے دن کوئی بے گناہ معصوم مر رہا ہو۔بے سر و پا مہنگائی اور عوام قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہو، کا فٹے منہ! اور ایسے بد فہم و لادانش لوگ جو حق اور جھوٹ میں فرق نہ جان سکیں، ایسے حکمرانوں کو مسلط کریں جو متکبر و شیطان کے ظلمت والے راستے کے مسافر ہوں، سب کا فٹے منہ! ایسے ملا جو دین کے ٹھیکیدار بن جائیں اور معصوم لوگوں کو اپنی من گھڑت تاویلوں سے، بادام کے تخم سے بھی چھوٹے دماغ سے نکلی ہوئی خرافات سے تعصب کی آگ میں جھونک دیتے ہوں ان سب کا فٹے منہ! علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 168106 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More