اسامہ بن لادن ،زندگی تھی تیری خورشید سے تابندہ تر

2مئی 2011ء کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن جسے (Geronimo) جیرونیمو کا نام دیا گیا ، اس وقت عالمی دنیا کی توجہ حاصل کیے ہوئے ہے ،کیونکہ اس آپریشن میں ایک ایسے شخص کو شہید کیا گیا جو عالمی استعمار کے لیے نہ صرف یہ کہ ایک خطرے کی علامت بن چکا تھا بلکہ با رہا انہیں ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچا چکا تھا ، جس کے لگائے گئے گہرے گھاﺅ ملت کفر بڑی دیر تک محسوس کرتی رہے گی۔ لیکن دنیا بھر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ سوال انگڑائی لے رہا ہے کہ کیا اس آپریشن میں شہید ہونے والا شخص واقعی القاعدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن تھا یا کوئی اور تھا ؟پاکستان اور عالم اسلام کی اکثریت اس واقعے کو امریکی ڈرامہ قرار دے رہی ہے اور اسامہ کی شہادت کے واقعے کو مبالغہ آرائی قرار دیا جا رہا ہے ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ امریکہ پہلے بھی دو تین مرتبہ اسامہ بن لادن کی شہادت کے دعوے کر چکا ہے جو بعد میں جھوٹ ثابت ہوئے ، عوام کی ایک بڑی تعداد دوبارہ اب اس مخمصے کا شکار ہو کر اسامہ کی شہادت کو ماننے پر تیار نہیں ہے، مگر کڑوا سچ تو یہی ہے کہ جوں جوں اس آپریشن کے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھ رہا ہے تو دنیا بھر کے کا پردازان صحافت، عسکری ماہرین اور دیگر تجزیہ نگار ، قلم کار اس بات پر متفق ہوتے دکھائی دیتے ہیں کہ مورخہ 2 مئی کی علی الصبح امریکی آپریشن میں واقعی اسلامک دنیا کے عظیم ہیرو اسامہ بن لادن کو شہید کر دیا گیا ، ماہرین اس ضمن میں کئی طرح کی باتوں کو مد نظر رکھ کر با لآخر اس نتیجہ پر جا پہنچے ہیں کہ اسامہ بن لادن اب دنیا میں نہیں رہے ، اسامہ کی شہادت کے حوالے سے کئی طرح کے ثبوت منظر عام پر آرہے ہیں ، پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آپریشن کو انتہائی خفیہ رکھا گیا اور اس کی سب سے پہلے اطلاع امریکی صدر باراک اوبامہ نے صدر آصف علی زرداری کو فون پر دی اور انہیں مبارکباد بھی پیش کی ، امریکی صدر کا براہ راست پاکستانی صد ر کو مطلع کرنا اس واقعہ کا غیر معمولی ہونے کی جانب اشارہ کر تا ہے ، دوسری بات یہ کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے بھی باقاعدہ طو ر پر صحافیوں کو دی گئی بریفنگ میں اس بات پر مہر تصدیق ثبت کی ہے کہ اسامہ بن لادن مار دیے گئے ہیں ، آئی ایس آئی حکام کا کہنا ہے کہ آپریشن کے بعد ہمیں اس گھر سے اسامہ بن لادن کی تین بیویاں ، گیارہ بیٹے اور دو بیٹیاں ملی ہیں اور انہوں نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ہم اسامہ بن لادن کی بیویاں اور بچے ہیں ، ہم لوگ اسامہ کے ساتھ یہاں پر گزشتہ پانچ سالوں سے مقیم تھے ، اسامہ کی بیٹی کا بیان بھی میڈیا پر کچھ انداز سے آیا ہے کہ امریکی کمانڈوز نے میرے سامنے میرے والد کو گولی ماری اور ان کی نعش کو گھسیٹتے ہوئے نیچے لائے اور ہیلی کاپٹر میں ڈال کر لے گئے ،آج ہی القاعدہ اور دیگر عالمی اسلامک تنظیموں کی پریس ریلیز اخبارات میں شائع ہوئی جس میں انہوں نے اپنے سر براہ کی ایبٹ آباد آپریشن میں شہادت کی تصدیق کر دی ہے ۔ اگر بنظر غائر ان مندرجہ بالا حالات اور واقعات کو پرکھا اور جانچا جائے تو یقیناً واضح ہوتا ہے کہ واقعی اسامہ بن لادن اب اس دنیا میں نہیں رہے اور آخر کا ر امت مسلمہ کو ان کی شہادت کا یہ کڑوا گھونٹ ضرور حلق سے اتارنا ہوگا اوراب امت مسلمہ کو بجائے یاس اور ناامیدی کا مظاہر ہ کرنے کے اور طاغوتی قوتوں کے آگے سر تسلیم خم کر کے زیست بسر کر نے کے اسامہ بن لادن کے حق اور سچ کے مشن کو آگے بڑھانا ہوگا ، بجائے رونے دھونے کے اس عظیم شخص کے مشن کو طول دینا ہوگا کہ جس نے گزشتہ کئی دہائیوں تک عالمی کفریہ طاقتوں کی نیندیں حرام کیے رکھیں اور مظلوم مسلم دنیا کو درسِ حریت فکر دیا ، بلاشبہ آج دنیا کے کونے کونے میں جہاں بھی ان ظالمانہ کفریہ طاقتوں کے خلاف اسلام پسند سر گرم عمل ہیں یہ سارا کریڈٹ اسی مردِ مجاہد کو جاتا ہے کہ جس کا لگایا گیا پودا آ ج ایک تند رست ، توانا اور تناور درخت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔ اسامہ بن لادن ۔۔۔۔کون تھا ؟ کہاں سے آیا ۔۔۔۔؟ آخر اس کے دل و دماغ میں کونسی ایسی تڑپ ، بے قراری اور بے چینی تھی جو اسے عرب دنیا کے آرادم دہ اور لگژری ماحول سے اٹھا کر افغان حریت پسندوں کے قریب لے آئی۔۔۔ ؟ امیر المومنین ملا محمد عمر کی اک نگاہ ِ فیض نے اس پر کیسا جادو جگا یا کہ معاشی لحا ظ سے دنیا کی طاقتور ترین شخصیات کی فہرست میں شامل اسامہ بن لادن دنیا کی تمام تر سہولیات اور عیش و عشرت کو پائے حقارت سے ٹھکرا کر افغانستان کے تورا بورا جیسے سخت ترین علاقے کا مکین ہو کر رہ گیا اور اس نے گھنے جنگلا ت اور اندھیرے غاروں کو اپنا مسکن بنا ڈالا ، بے شک اسلام کے اس جری ، بہادر اور دلیر فرزند نے اس عالم ہست و بود میں جتنے دن بھی گزارے اللہ کے شیروں کی طرح گزارے اور اس فانی دنیا میں جب تک بھی جیا کفر و ضلالت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ صرف یہ کہ بات کرنے کا حوصلہ رکھا بلکہ وقت آنے پر اپنے جانثار ساتھیوں اور اللہ کے شیروں کی قیادت سنبھال کر میدان جنگ و جدل میں بھی اترا ، اور پھر دیکھیے کہ اسے گر ساتھ بھی میسر آیا تو ملا محمد عمر جیسے مرد ِ درویش اور مردِ مجاہد کا جس کی قیادت میں افغان طالبان کی حکومت نے یہ اٹل فیصلہ کیا کہ اسامہ بن لادن کو کبھی بھی امریکہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ، سبحان اللہ آج کے اس گئے گزرے دو ر میں بھی کیسے کیسے اللہ کے برگزید بندے موجود ہیں جو بہر صورت اسلام کا پرچم جو کہ اس وقت عالم کفر کی تندو تیز آندھیوں کی زد میں ہے بڑی مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں ، بے شک ان اللہ شیروں کے لگن ، خلوص اور اسلام سے محبت کو شک اور شبے کے ترازو میں تولنے والے نام نہاد دانش ور احمقوں کی جنت میں بستے ہیں ۔اسامہ بن لادن تو شہید کر دیے گئے مگر یہاں ایک سوال تو پاکستان کی داخلی خود مختاری کا بھی پیدا ہو رہا ہے کہ امریکی فورسز کے ہیلی کاپٹر بلا خوف و خطر کس طرح افغانستا ن سے اڑان بھر کے ایبٹ آباد تک آئے اور اتنے لمبے سفر میں انہیں پاکستانی ایر فورس کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت یا مشکل کا سامنا نہیں کر نا پڑا ،یہ و ہ سوال ہے جس کے آگے پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کی زبانیں گنگ ہو چکی ہیں ، پی اے ایف کے سر براہ ایر چیف مارشل راﺅ قمر سلیمان نے ایک سنیئر صحافی سے گفتگو میں کہا کہ میں قوم سے معافی مانگتا ہوں کہ 2مئی کی رات مغربی سرحدوں پر ہمارے ریڈار آف تھے جس کی بناء پر امریکی فورسز کی نقل و حرکت کا جائزہ نہیں لیا جا سکا تاہم انہوں نے کچھ ٹیکنیکل وجوہات کی جانب بھی اشارہ کیا جس سے موجودہ حکمرانوں کی نااہلی عیاں ہوتی ہے ، تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد اب پاکستان پر عالمی طاقتوں کا دباﺅ مزید بڑھے گا ، کیونکہ اس واقعے پر جونہی شور بلند ہوا اگلے ہی دن امریکی ڈرونز نے حملے کر کے 12قبائلی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتا ر دیا ، موجودہ حالات کے تناظر میں اس بات کی جانب واضح اشارہ ملتا ہے کہ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا اور اس کی گردن پر پھندا کسنے کی تیاریوں میں تیزی آچکی ہے اور ملت کفر اب متحد ہو کر اس مملکت ِ خداداد کو مٹانے کے در پے ہے ، اسامہ کی شہادت کے بعد پاکستان عالمی سطح پر الزامات کی زد میں آچکا ہے ، آج ہی سی آئی اے سر براہ لیون پینٹا نے ایک امریکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکام کو اسامہ کی موجودگی کا پہلے سے علم تھا اور انہیں ملا عمر کے ٹھکانے ، طالبان کے سنیئر حکام ، حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوریٰ کا بھی بخوبی علم ہے اور پاکستان کے سینئر حکام انہیں بھرپور تحفظ فراہم کر رہے ہیں ، افغانستان میں امریکی سفیر نے بھی زہر اگلتے ہوئے افغان عوام سے کہا کہ طالبان قیادت آ پ کے پڑوسی ملک میں روپوش ہے اور پاکستان ہی در اصل افغان حریت پسندوں کا پشتی بان ہے ،پاکستان کے حکمران اور دیگر سیاسی و عسکری قیادت ہے کہ سارا منظر نامہ اس قدر واضح ہونے کے باوجود بھی انہیں حالات کی نزاکت کا احساس تک نہیں ہو پا رہا ، وہ مسلسل بے حسی کی عباء زیب تن کر کے اب بھی امریکہ کو اپنا دوست قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں ، اگر پاکستان کے صاحبان ِ اقتدار ایران کے حکمران رضا شاہ پہلوی اور اس کی بیوی کی یہ بات مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں گے تو انشاءاللہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس دھرتی کے حالات نہ سدھر پائیں ، انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ سے دشمنی مول لے کر پھر بھی دنیا میں عزت و توقیر کے ساتھ زندگی بسر کی جا سکتی ہے جبکہ امریکی دوستی انسان کو بالآخر لے ڈوبتی ہے اور ہم نے یہ تلخ تجربہ کیا ہے کہ امریکہ کے قریب رہنا کبھی بھی سود مند ثابت نہیں ہوسکتا، آخر میں ایک شعر مردِ مجاہد، شہید اسلام اسامہ بن لادن کے نام
زندگی تھی تیری خورشید سے تابندہ تر
صبح کے تارے سے بھی تھا خوب تر تیرا سفر
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 33243 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.