سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے

اسامہ بن لادن ایک ہوّا، ایک نام جسے امریکہ نے سالہا سال تک پوری طرح کیش کیا اسی نام کی آڑ لے کر پوری مسلم دنیا کو خاک و خون میں نہلاتا رہا۔ اسی کا پیچھا کرتے کر تے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، پاکستان کے امن کو تباہ کر دیا گیا۔ اب بقول امریکہ اسامہ سچ مچ مارا گیا ہے، اگر چہ یہ دعوے پہلے بھی کئے گئے لیکن اب کی بار تو فی الحال القائدہ نے بھی اس بات کو تسلیم کر لیا ہے ۔عام لوگ اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اسامہ اس ایکشن میں مارا گیا ہے کچھ کہتے ہیں اسامہ تورا بورا میں مارا گیا تھا کچھ کہتے ہیں وہ زندہ ہے اور مارا جانے والا کوئی اور تھا۔ بعض کا خیال ہے کہ اُسے کہیں اور سے لاکر اس گھر میں مارا گیا چاہے جو بھی ہوا، اسامہ زندہ ہے یا نہیں، کب مارا گیا میرا آج کا موضوع یہ بالکل نہیں میں تو یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہوں کہ پاکستان ایک آزاد، خود مختار اور ایک ایٹمی ملک ہے اسکی ایک انتہائی پیشہ ور اور بہادر فوج اور خفیہ ادارے ہیں تو ان سب کی موجودگی میں یہ سب کیسے ہوا کہ غیر ملکی فوج بھی آئی، ہیلی کاپٹر بھی آئے اور چالیس منٹ کاروائی کرتے رہے ۔بقول انکے وہ افغانستان سے آئے تو ظاہر ہے گھنٹہ ڈیڑھ آنے جانے میں لگا تو ہم اُس وقت کہاں تھے اگر راڈار جیم بھی کردیئے گئے تو جب شہری اِن ہیلی کاپٹرز کا شور سن رہے تھے ایک گر کر تباہ بھی ہوا گولیوں کی بوچھاڑ کی آواز بھی آئی تو آخر کسی کی آنکھ کیوں نہ کھلی اگر کھلی تو کیوں ایکشن نہیں کیا گیا یا کرنے نہیں دیا گیا۔ حکومت نے آخر کسی ایکشن کا حکم کیوں نہیں دیا ۔یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ ہمارے حکمران امریکی مفادات کا بہت اچھا اور بڑی ایمانداری سے تحفظ کرتے ہیں کیونکہ اسی میں اُن کی بقا ہوتی ہے لیکن قوم اس قدر کھلم کھلا طریقے سے اپنے ملک کی زمین پر انکے اس آپریشن پر جس نفسیاتی الجھن کا شکار ہے حسب معمول اُس پر ہمارے کرتا دھرتاؤں کو کوئی پریشانی نہیں۔ ابھی تک قوم کو انکے سوالوں کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا قصور ہمارے عوام کا بھی ہے کہ جب کوئی واقعہ ہوتا ہے تو شروع شروع میں احتجاج کرتے ہیں ،شور مچاتے ہیں،سوالات اٹھاتے ہیں اور پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں اور حکمران پھر ریلیکس ہوکر کسی اور الجھن کی تلاش اور بندوبست میں مصروف ہو جاتے ہیں یہی حال اس معاملے کا ہوگا لیکن یہاں سوچنے ، پوچھنے اور جواب لینے کو بہت کچھ ہے اگر چہ ہر بحث کی تان ادھر ہی آکر ٹوٹتی ہے کہ آخر امریکہ ہمارے ملک کے اندر آکر پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پڑوس میں ایک بڑی فوجی چھاؤنی میں جہا ں فرنٹیئر فورس اور بلوچ رجمنٹل سنٹرز بھی ہیں میں مسلح کاروائی کیسے کر لی خود بقول سی آئی اے کے ایبٹ آباد میں ان کا ایک سٹیشن کام کر رہا تھا جو اب بند کر دیا گیا ہے آخر کسی کو پتہ کیسے نہ چلا، مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم امریکہ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں عوام ہمیشہ سے چیخ رہے ہیں کہ امریکہ ہمارا دوست نہیں ہے اُس نے کبھی مصیبت میں ہمارا ساتھ نہیں دیا بلکہ سچ یہ ہے کہ اُس نے ہمیں ہمیشہ مصیبت میں ڈالا ہے موجودہ جنگ کو پاکستان پر جس طریقے سے مسلط کیا ہے اُس نے ہماری معیشت، تجارت، صنعت حتٰی کہ تعلیم تک کو بُری طرح متا ثر کیا ہے، جہاں امریکی بچے بے خوف و خطر سکولوں میں جاتے ہیں وہیں ہمارے بچے اور والدین اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں ان کا سکول دہشت گردوں کا اگلا نشانہ نہ ہو، اور تو اور ہماری مساجد دہشت گردوں کا پسندیدہ نشانہ ہیں غرض یہ کہ ملک کا کوئی گوشہ کو ئی شعبہ محفوظ نہیں۔ ہزاروں جانیں جن کا کوئی بدل نہیں اور نہ جن کے واپس آنے کا کوئی امکان ہے اس جنگ پر قربان ہو چکیں ۔ ہر نیا واقعہ اس قوم کو ہلاکر رکھ دیتا ہے ﴿حکمرانوں کو نہیں﴾ لیکن اس آپریشن جسے Geronimo کا نام دیا گیا ہے نے پوری قوم کو دہلا کر رکھ دیا ہے یعنی اب ہمارے گھر بھی محفوظ نہیں کہ ہم ان میں پناہ لے سکیں کیونکہ چاہے، امریکی میڈیا اور انکے دیکھا دیکھی ہمارے کچھ اپنے چینلز بھی اس گھر کو جتنا بھی خاص طرز تعمیر اور پر اسرار یت کا حامل قرار دیں وہ ایک عام گھر تھا اور اس طرح کے گھر آپ کو پورے خیبر پختون خواہ میں کہیں بھی نظر آجائیں گے آخر اس کو مشکوک کیوں سمجھا گیا؟ کیا یہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت تھا؟ تھا تو ایسا ہی ورنہ صرف چالیس منٹ میں بغیر کسی مزاحمت کے آپریشن مکمل بھی ہو گیا لیکن کیا ہماری اس کوتاہی نے پوری دنیا کو شہ نہیں دے دی کہ پاکستان ایک کھلا بغیر حکمران بغیر نگران میدان ہے جس کا جو جی چاہے کر لے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ قوم ایسا سوچنے میں اس لیے حق بجانب ہے کہ وہ جس سخت رد عمل کی توقع کر رہی تھی وہ کسی ذمہ دار کی طرف سے نہیں آیا بلکہ اس بات کا اقرار کیا گیا کہ کسی کو بھی اس کاروائی یا منصوبے کا علم نہیں تھا کچھ نے تو یہ بھی کہا کہ ہمارے پاس اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ ہم جان سکتے، تو کیا ہم خود کو ایٹمی اور عسکری قوت سمجھنا ترک کردیں؟ ماضی میں یہی فوج اور آئی ایس آئی اگر عالمی قوتوں کی سازشوں کا کامیاب جواب دیتی رہی ہے تو اب کیوں ایسا ممکن نہ ہوا۔ کیا اس کی کوئی خاص وجہ تھی ۔ قوم کو اگر اب بھی وہ وجہ بتا دی جائے تو بہتر ہوگا اور یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ ہم امریکہ کو کئی بار آزماچکے بلکہ پچھلے ساٹھ باسٹھ سال سے مسلسل آزما رہے ہیں اور مایوس ہو رہے ہیں بلکہ نقصان اٹھا رہے ہیں جبکہ خود ہم مسلسل اُسکی خدمت پر معمور ہیں تو اب ہمیں سوچ لینا چاہیے کہ اگر مومن ایک سوراخ سے دو بار بھی نہیں ڈسا جاتا تو ہم کیوں مسلسل ڈسے جا رہے ہیں۔ اب ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں ذرا تبدیلی بھی کر کے دیکھ لینا چاہیے امریکہ جو ہم سب کے حواسوں پر مسلط ہے اسے ذرا چھوڑ کر دیکھ لینا چاہیے وہ جو کہتے ہیں کہ اسکی مدد کے بغیر ہم کچھ دن بھی نہ چل سکیں گے تو وہ تسلی رکھیں کہ جو قوم امریکی دوستی کے برے ترین دن برداشت کر سکتی ہے تو وہ کوئی بھی مشکل برداشت کرلے گی۔

ہماری فوج اور آئی ایس آئی اگر چہ ہماری جمہوری حکومت کے تابع ہے لیکن کسی بھی طرح امریکی تعاون سے ذرا ہاتھ کھینچ لے تو بہتر ہوگا تا کہ امریکہ کو اور خاص کر سی آئی اے کو اپنی اوقات معلوم ہوجائے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس آپریشن کو اُس نے بغیر آئی ایس آئی کی مدد کے کیسے مکمل کرلیا۔ تاہم یہ بات سب ہی کہتے ہیں آئی ایس آئی کو اپنی مہارت اور صلاحیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سی آئی اے کی مدد سے ہاتھ کھینچ لینا چاہئے تاکہ اُسے معلوم ہوسکے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ غرض اس آپریشن کے بعد قوم جس نفسیاتی دباؤ اور تناؤ کا شکار ہے اور عدم تحفظ کی جو کیفیت ہے حکمرانوں اور فوج کو بھی سنجیدگی سے اس کا ازالہ کرنا چاہئے امریکہ ایک اسامہ کو مارنے کے لیے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہا چکا ہے اور اب پاکستان میں اس کو تلاش کر لینے کے بعد یا اُسے مارنے کا ڈرامہ یا حقیقت جو بھی ہے دنیا کو دکھا رہا ہے اسکے سینیٹرز جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں اور پاکستان پر جو الزامات دھر رہے ہیں جو الفاظ اور زبان استعمال کر رہے ہیں پاکستان کو بھی جواب اسی ’’ٹون‘‘ میں دینا ہوگا ورنہ ہم مزید حادثوں سے دوچار ہوتے رہیں گے اور یہ سوچ بھی ذہن سے نکالنی ہوگی کہ ہم صلاحیت نہیں رکھتے ۔ ہم صلاحیت رکھتے ہیں آ ج بھی فضائیہ کے سربراہ نے اپنی اِن صلا حیتوں کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ کسی غیر ملکی جنگی طیارے اور ہیلی کا پٹر کو ملکی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے پر مار گرا یا جا ئے گا اور انہوں نے قوم کو ایک بار پھر یہ یقین دلایا کہ اگر انہیں حکم دیا جائے تو وہ ڈرون گرا سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی تینوں مسلح افواج کی صلاحیتوں پر بھروسا بھی ہے اور فخر بھی ۔ان کی حب الوطنی اور جانثاری بھی کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے لیکن ہمیں دوسری مخصوص وجوہات دور کرنے کے لیے سنجیدگی اپنانی ہوگی اور امریکی مفادات اور حکمرانی کی خواہش سے زیادہ پاکستان کے بارے میں سوچنا ہوگا اور مان لینا ہوگا کہ
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 508658 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.