کورونا اور سخی دیہاڑی دار

کہنے لگا کہ میں نے نماز پڑھ کر گھر داخل ہونے کے لیے دروازہ کھولا ہی تھا اتنے میں آواز آئی سر، سر السلام علیکم، بات سننا۔ کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن تھا۔ کئی دن سے گھر میں محصور تھا، مسجد میں نماز پڑھنے کو بڑا دل چاہا رہا تھا اور دل ہی دل میں رویا کرتا کہ کیسا امتحان کیسی آزمائش کہ رب کریم نے مسجد جانے سے بھی روک دیا،

کہنے لگا کہ میں نے نماز پڑھ کر گھر داخل ہونے کے لیے دروازہ کھولا ہی تھا اتنے میں آواز آئی سر، سر السلام علیکم، بات سننا۔ کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن تھا۔ کئی دن سے گھر میں محصور تھا، مسجد میں نماز پڑھنے کو بڑا دل چاہ رہا تھا اور دل ہی دل میں رویا کرتا کہ کیسا امتحان کیسی آزمائش کہ رب کریم نے مسجد جانے سے بھی روک دیا، کتنی بڑی غلطی سر زد ہوئی ہے۔ رب کریم ہمیں اس وبا سے نجات فرمائے آمین۔حوصلہ کرکے میں نماز عصر مسجد میں ادا کرنے گیا، پیر جی کے بیٹے قاری خلیل الرحمن صاحب کی وفات ایک روز پہلے ہوئی تھی اس سلسلے میں بھی تعزیت کرنا تھی۔ نماز پڑھ کر رک گیا اور کچھ دیر کے لیے ساتھیوں سمیت پیرجی کے پاس بیٹھ گئے۔ وہاں سے باری باری دوست اٹھتے گئے میں نے بھی اجازت چاہی اور گھر کی طرف چل پڑا۔ گیٹ کھول کر اندر داخل ہونے لگا تو آواز آہی سر، سر السلام علیکم! میں نے اخلاقی طو ر پر گیٹ سے باہر دیکھنے کے لیے مڑا۔ دیکھتا ہو ں دو جوان لڑکے وضع قطع سے مزدور لگ رہے تھے۔ میں نے جواب میں و علیکم السلام کہا اور پوچھا جی، خیریت ہو!، کہنے لگے سر ہم دونوں مزدور ہیں اور آج صبح سے مزدوری اڈے پر کھڑے رہے ہمیں آج مزدوری نہیں ملی بلکہ کئی دن سے یہی صورت حال ہے۔ میں چونک گیا، کیا کیا جائے۔ ایک نے کہا کہ میرے بچے رات سے بھوکے بیٹھے ہیں اور گھر میں بالکل کھانے کے لیے کچھ نہیں، دوسرا بولا سر میں بھی اس کے ساتھ ہی صبح کا وہاں بیٹھا ہوں لیکن مزدوری نہیں ملی۔ اس نے بھی اپنا دکھڑاسنایا۔میں سوچ میں پڑ گیا کہ کتنا راشن تقسیم ہو رہا ہے۔ کچھ نقدی بھی دے رہے ہیں لیکن یہ بچارے پھر دروازے پر آ ن کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک لمحہ کے لیے تو میں نے نظر انداز کرنا چاہا لیکن خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا۔ میں بھی کوئی اتنا مالی طور پر مستحکم نہیں تھا۔خیال آیا کہ ان کو کوئی دس بیس دے کر فارغ کر دوں۔ لیکن ان کی فریاد کچھ اور تھی۔ مگر میں!! کیونکہ کچھ کرنا بھی چاہا تو چند دن پہلے میں ایک اور ساتھ نے مل کر جتنا ہو سکا اپنا اخلاقی فرض حقوق العباد کو اداکرتے ہوئے چند گھروں تک پیکج بنا کر بھجوا دیا تھا۔ میں پریشان سوچ رہا تھا۔ جب اس نے پھر دہرایا کہ صاحب جی میرے بچے گھر میں بھوکے ہیں! تو مجھے پسینہ آگیا۔ میں نے پوچھا آپ دونوں بھائی ہو کیا کہنے لگے نہیں، ہم روزانہ ایک ہی جگہ پر مزدوری کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ ہم دونوں مختلف گاؤں میں رہتے ہیں۔ پوچھنا مقصد تھا کہ شاید مجھے غلط بتا کر جذباتی کر رہے ہوں۔ مگرمیں سوچ میں پڑ گیا کیا کروں۔ دس بیس والا معاملہ نہیں۔ خیر میں نے اپنے پرس کو ٹٹولا اس میں سے کچھ رقم مل گئی۔ میں نے اس رقم کو کانپتے ہاتھوں سے آدھ آدھ کر کے دونوں کو دے دی۔ چلو میں جو کر سکتا ہوں کروں۔ اللہ سے ڈر کر رونے لگا مولا یہ کیسا امتحان ہے۔ دروازہ بندکیا تو ذہین میں شیطانی خیال آیا کہ دیکھتا ہوں میرے ساتھ جھوٹ تو نہیں بولا، دروازے والی کھڑکی کے ساتھ ہی کھڑا ہو گیا۔ کیا دیکھتا ہوں۔ کمال منظر تھا۔ اس منظر نے مجھے اپنی نظروں میں پھر گرا دیا، کہ یار یہ فیصلہ کرنے میں تیرے سے بھی زیادہ ثابت قدم اور حوصلہ مند ثابت ہوئے۔ جو کہہ رہا تھا کہ میرے بچے رات سے بھوکے ہیں، میں دیکھتا ہوں کہ دوسرامزدور فوراً اس کے قریب آیا اس نے اپنے حصے کی رقم اسے دے دی، اسے کہا آپ تو جاؤ میں کسی اور سے درخواست کرتا ہوں۔ وہ سائیکل لے کر وہاں سے چلا جاتا ہے دوسرا مزدور ابھی گلی میں تھا اللہ بہتر جانتا ہے کہ اسے کسی سے پیسے ملے یا نہ ملے لیکن میں گھر بیٹھ کر کافی دیر تک سوچتا رہا ہے کیا کمال سخی جذبہ تھا دیہاڑی دار مزدور کا۔ کیسا ایثا ر تھا، کیسا مواخات کا سبق تھا، مجھے وہ وقت یاد آگیا جب ایک زخمی کو پانی کا پیالہ پیش کیا جاتا تو وہ کہتا کہ دوسرے کو پلاؤ، تیسرے کو پلاؤ یہ سلسلہ چلتا رہا اور قربانی امر ہو گئی۔ ان دونوں مزدوروں کی طرف دیکھ کر احساس ہوا کہ بے شک یہ غریب مزدو ر تھے، ضرورت مند بھی تھے، گھر گھر دروازے پر پیشہ ور گداگر کی طرح دستک دے کر اپنا سوال بتا رہے تھے، اپنا دکھ سنا کر اپنے بچوں کے لیے مدد کا سوال کر رہے تھے۔ لیکن کچھ ضرورت پوری ہونے پر کس طرح ایک دوسرے کو ترجیحی دی یہی میرا دین اسلام سبق دیتا ہے۔ یہی مواخات کا سبق ہے۔ آخر میں دوستوں سے درخواست ہے جو راشن تقسیم کر رہے ہیں ایسے لوگوں کا بھی خیال رکھیں اللہ تعالیٰ ان سب کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ کرے اور اللہ کریم صاحب حیثیت کو ان کے دروازے تک خود ہی پہنچا دے تاکہ ان کا بھر م بھی رہ جائے اور سفید پوشی بھی۔ وہ کہنے لگا کہ اس کا مطلب تھا کہ ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے گلی محلہ میں ضرورت مند کا سوچیں اس طرح اگر پڑوسی اپنے پڑوسی کے لیے اچھا سوچیں تو عین ممکن ہے کہ یہ مزدور اتنی دور سے ہمارے دروازے پر نہ آتے۔ لیکن اللہ کا کرم بھی ہے رب العالمین نے دینے والوں میں شمار کیا کیونکہ اسی کے دیئے ہوئے سے دینا ہے۔ ذرا سوچیں ہم اپنے طور پر کوئی ایسا کیا یا نہیں۔ اگر نہیں کیا تو ضرور کرو۔ شکریہ۔
 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 157592 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More