جمہوریت کی سفاک سیاست

اسامہ کی ہلاکت نے ۱۱ ستمبر کی شہرت کو مات دے دی ۔ انٹر نیٹ پر اس خبر کو اس طرح اچھالا گیا کہ اس سے متعلق چوبیس گھنٹوں میں۱۵کروڑ سے زائد مضامین ، اور تبصرے آن لائن ہو گئے جس میں۷۰ہزار سے زائد نیوز اسٹوریاں تھیں۔انٹر نیٹ پر موجود مواد میں پندرہ کروڑ دس لاکھ سے زائد مضامین اور خبریں اسامہ بن لادن کے متعلق ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے اس غبار نے ساری دنیا کی عوام کا دماغ ماؤف کر دیا ۔وقتی طور پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوگئی لیکن اس غبارے کو سوئی لگانے کا کام بھی اس میں ہوا بھرنے والوں نے خود کردیا اور شکوک و شبہات کے دباؤ میں یہ اپنے آپ سکڑنے لگا ۔مطلع صاف ہورہا ہے۔

مثل مشہور ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اس لئے وہ زیادہ دیر چل نہیں پاتا ۔جب دھکا لگنا بند ہوتا ہے تو ٹھہر جاتا ہے اور اپنے تضاد کے باعث پکڑا جاتا ہے ۔اس نازک ترین معاملے میں قصر ابیض یعنی وہائٹ ہاؤس کی تضاد بیانی ملاحظہ فرمائیں۔ سب سے پہلا اختلاف تو اس بات پر رونما ہوگیا کہ یہ حملہ آور ہیلی کاپٹر اڑے کہاں سے تھے ؟اس کے بعد جو ہیلی کاپٹر تباہ ہوا اس کے بارے میں اول تو یہ خبر آئی کہ اسے مار گرایا گیا پھر پتہ چلا کیا وہ میکانکی خرابی کے باعث گر گیا اس کے بعد یہ بتلایا گیا کہ حویلی کا درجہ حرارت برداشت نہ کر سکا اور پھٹ پڑا چونکہ یہ سارے بیانات ایک ہی انتظامیہ کے مختلف تر جمان دے رہے ہیں اس لئے کس کو تسلیم کریں اور کسے مسترد کر دیں یہ پیچیدہ سوال پیدا ہوجاتا ہے۔حویلی میں داخلے کے بعد کیا ہوا اسکے متعلق بھی تضاد بیانی دلچسپ ہے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ نام نہاد اسامہ نہتا تھا تو دوسرے صاحب ٹیلی ویژن پر فرماتے ہیں اس نے گولیا ں چلائیں،کوئی نہتا تو اسی صورت گولی چلا سکتا ہے جبکہ وہ جادو گر ہو لیکن اس کی گولی سے کوئی نہیں مرتا ۔ایک صاحب کہتے ہیں کہ گرفتاری کا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا بلکہ صرف قتل کے ا حکامات دئیے گئے تھےاس لئے دیکھتے ہی گولی چلا دی گئی دوسرے کے مطابق زندہ گرفتار کیا گیا پھر ہلاک کیا گیا۔عربیہ چینل پر حویلی سے گرفتار ہونے والی لڑکی کا یہی بیان نشر ہوا ہے۔اب اگر کوئی مجرم گرفتار ہوگیا تو اس پر مقدمہ چلا کر کیوں نہ اس پر الزام ثابت کیا جائے۔انصاف اس کو نہیں کہتے کہ کسی نہتے آدمی کو اسکی بیوی بچوں کے سامنے گولیوں سے بحھن دیا جائےلیکن یہ سب مہذب دنیا کی باتیں ہیں جن کا اطلاق امریکی انتظامیہ پر نہیں ہوتا اورپھر جہاں نہ ملزم ہی حقیقی اور نہ الزام ہی سچا توانصاف کا سوال ہی کیونکر پیدا ہوتا ہے ؟

ایک ترجمان نے ٹی وی پر بتلایا کہ اسامہ نے اپنی بیوی کو ڈھال بنایا اور اس لئے وہ ہلاک ہوگئی دوسرے نے کہا ایسا نہیں ہوا اس کی بیوی دوسرے کمرے میں سو رہی تھی ۔جو عورت ہلاک ہوئی وہ بیوی نہیں تھی اور کسی کو ڈھال نہیں بنایا گیا تھا۔ ہلاک ہونے والے بیٹے کا نام اول تو خالد بتلایا گیا پھر اس میں اصلاح ہوئی اور وہ حمزہ بن گیا ۔اس پر دعویٰ کہ اوبامہ خود ٹیلی ویژن پر براہ راست ہر پل کے مناظر دیکھ رہے تھے لیکن ان کے پاس بیٹھے ہوئے پنٹا گون کے سربراہ نے کہا اندر جانے کے ۲۰ تا ۲۵ منٹ تک اندھیرا چھایا رہا اور ہمیں کچھ بھی پتہ نہ چلا۔کیمرہ سنا ہے فوجی کی ٹوپی میں لگا ہوا تھا لیکن تصویروں کو براہ راست نشر کرنے کیلئے کون سی تکنیک استعمال کی گئی اسکی تفصیل کوئی بھی بتلا نہ سکا ۔اب جو تصویریں ظاہر کی گئی ہیں اسکو گارجین نے پرانا کہا ہے ان متضاد باتوں کو پڑھ کر عام قاری اگر کنفیوز ہوجائے تو کیا حیرت کہ وہائٹ ہاؤس کے ترجمان جئے کارنی نے بھی اپنے کنفیوز ہونے کا برملا اعتراف کر لیا ۔ اس خلط مبحث کا سبب یہ ہے کہ جب کئی لوگ بیک وقت جھوٹ بولتے ہیں تو انہیں پتہ نہیں چلتا کہ کون کیا کہہ رہا ہے بلکہ فرد واحد بھی یاد نہیں رکھ پاتا کہ اس نے پہلے کیا کذب بیانی کی تھی اسی طرح جھوٹ کا پول کھل جاتا ہے اور اس کا تضاد باہر آجاتا ہے-

اس معاملے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت خبروں کی اس سونامی نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ایک ویب سائٹ ایسی بھی تھی جس کو بزور قوت بند کروا دیا گیا (گویا ہیک کر لیا گیا) اس سائٹ کا نام ہے" اصل میں کیا ہوا" (یعنی واٹ ریلی ہیپنڈ)۔یہ وقتی پابندی تھی جو دو دن بعد اٹھ گئی اور اب اس کی زیارت کر کے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اسے معتوب کیوں کیا گیا۔ اس سائٹ پر برسوں سے ایسا مواد جمع کر کے رکھا گیا جن کے مطابق شیخ اسامہ بن لادن کے فطری موت کی تصدیق ہوتی ہے ۔ان خبروں میں امریکی فوجی افسران ،نامور اخبارات مثلاً گارجین اور معروف ٹیلی ویژن چینل جیسے فوکس او ر بی بی سی پر نشر ہونے والی خبریں اور انٹرویو موجود ہیں۔ قابل ذکر لوگوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو ،حامد کرزئی اور پرویز مشرف کے بیانات بھی ہیں۔ مصر سے شائع ہونے والےاخبار کا عربی اقتباس بھی نقل کیا گیا ہے۔ اگر مغرب کو لااعتبار اور سیاستدانوں کے بیانات کو ناقابلِ یقین قرار دے دیا جائے تب بھی پاکستان کے معتبر اور بے باک صحافی چودھری ذبیح اللہ بلگن کی بات کو کیسے مسترد کریں گے جنھیں ایک ٹی وی انٹرویو میں کرنل امام نے تین سال قبل بتلایا کہ وہ خود شیخ اسامہ بن لادن کے جنازے اور تدفین میں شریک ہو چکے ہیں ۔ اسامہ کو گردے کا عارضہ تھا وہ تمامتر علاج کے باوجود اس مرض سے صحت یاب نہ ہو سکے اور ان کا انتقال ہوگیا ۔ ان کے جسد خاکی کو افغانستان کے ایک گاؤں میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔اگر یہ بات سچ ہے تو پھر ایبٹ آباد میں مارا جانے والا شخص کون تھا ؟اور اوبامہ نے یہ ڈرامہ کیوں کیا ؟ یہ دو سوالات اہمیت کے حامل ہیں۔

جہاں تک پہلے سوال کی بات ہے جس سرعت کے ساتھ امریکیوں نے اس لاش کو سمندر برد کر دیا اس سے اسامہ بن لادن کے اس ہم شکل کی اصل شناخت تو ناممکن ہو گئی ہے ۔ امریکی انتظامیہ جس طرح اسامہ بن لادن پر مقدمہ چلا کر کوئی الزام عدالت میں ثابت نہ کر سکا اسی طرح اس لاش کو بھی کسی غیر جانبدار لیب میں بھجوا کر اس امر کی تصدیق نہیں کرواسکا کہ آخر وہ شخص تھا کون؟ نیز آئندہ کیلئے بھی تحقیق و تفتیش کے سارے امکانات کو ختم کر دیا گیا ۔چند گھنٹوں کے اندر لاش کے خلیات پاکستان سے امریکہ پہنچ گئے وہاں اسامہ بن لادن کی بہن کے خلیات سے ان کا موازنہ بھی ہو گیا اور پلک جھپکتے اوبامہ نے ٹیلی ویژن پر تصدیق کردی اور ساری قوم خوشی سے جھوم اٹھی ۔ اس طرح کا چمتکار مسلم دنیا کے کسی پسماندہ ملک میں ہو تو مغرب کی جانب سے ہزار سوال اٹھائے جاتے ہیں لیکن اگر امریکہ میں ہو تو ساری دنیا آنکھ موند کر اسکی تائید و حمایت میں جٹ جاتی ہے اس لئے کہ بقول اوبامہ ہم جو بھی چاہیں جہاں بھی چاہیں کر سکتے ہیں ۔لیکن اوبامہ کے اس جہان میں افغانستا ن شامل نہیں ہے اسی لئے ایبٹ آباد آنا پڑا ۔ اوبامہ نے جو یہ شعبدہ بازی دکھلائی ہے ایسا امریکی انتظامیہ نے پہلی بار نہیں کیا بلکہ یہ ان کی قدیم روایتوں میں سے ایک ہے ۔ اس سے پہلے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے وقت بھی بلا کسی تحقیق و تفتیش کے جارج بش پر ایک گھنٹے کے اندر انکشاف ہو گیا کہ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن ہے جو افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا ساری دنیا کے ممالک بے چوں چرا اسکی ہمنوائی کرنے لگے کسی نے نہیں پوچھا کہ آخر آپ کے پاس اس بے بنیاد دعویٰ کی دلیل کیا ہے ؟اس لئے وہ ہم شکل کون تھا جسے مار گرایا گیا اس پر وقت صرف کرنے کے بجائے یہ ڈرامہ کیوں رچایا گیا اس سوال پر توجہ ہونی چاہئے۔

اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی اور مقبولیت میں اضافہ اس مشکل سوال کا آسان جواب ہے ۔ جارج بش نے بھی اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی اور افغانستان پر چڑھائی کر دی لیکن جب دو سال تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تو اس کے امکانات بھی معدوم دکھلائی دئیے تو اس نے ایک نرم چارہ عراق کو نشانہ بنایا اور صدام پر عمومی تباہی کے اسلحہ رکھنے کا الزام لگا کر حملہ کر دیا یہ الزام آگے چل کر غلط ثابت ہوا لیکن تب تک وہ اپنا دوسری میقات کا انتخاب جیت چکا تھا ۔ امریکی عوام کے گلے سے سربراہ کی ناکامی نہیں اترتی ۔وہ ناکام رہنما کو انتخاب میں نامراد کر دیتے ہیں انہیں بے وقوف بنانے کا سب سے آسان نسخہ ‘‘مہم سر ہوگئی’’(مشن اکمپلشڈ)کا نعرہ ہے جسے سننے کے بعد امریکی عوام اپنے سارے دکھ درد بھول جاتے ہیں ۔ یہ دراصل رائے دہندگان کا جذباتی استحصال ہے جو ہر انتخاب کے وقت مختلف انداز میں کیا جاتا ہے ۔ حقیقی نہ سہی تو مجازی مہم چھیڑ دی جاتی ہے اور پھر اسے سر کر لیا جاتا ہے ۔ جارج بش نے صدام کو اقتدار سے دستبردار کرنے کے بعد یہی نعرہ لگایا تھا اور بڑے آرام سے انتخاب جیت گیا اوبامہ نے بھی اسی آزمودہ نسخے کو آزمایا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دوسال قبل جس صدر کی مقبولیت ۶۵ فیصد سے زیادہ تھی اور ناراضگی کا تناسب ۲۰ فی صد سے کم تھا اب وہ معاملہ الٹ پلٹ گیا ہے ۔ اقتصادی میدان میں اپنی زبردست ناکامی کے باعث حالیہ ضمنی انتخاب میں ڈیموکریٹس کانگریس میں اپنی اکثریت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ماہ اپریل میں اوبامہ کی مقبولیت گھٹ کر ۴۶ فیصد ہوگئی تھی اور ناراضگی بھی اس کو چھو رہی تھی ۔ امریکہ میں صدر کو عوام سے پہلے اپنی پارٹی کے ممبران کی حمایت حاصل کر کے امیدواری حاصل کرنی پڑتی ہے تب جاکر عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی نوبت آتی ہے اور اگر موجود صدر کی مقبولیت میں خاصی کمی آجائے تو پارٹی دوسری میقات کیلئے کسی اور کو اپنا امیدوار نا مزد کر دیتی ہے ۔ یہی خطرہ اوبامہ کو لاحق ہو گیا تھا کہ مبادہ آئندہ انتخاب میں ہیلری کلنٹن ان سے آگے نہ نکل جائیں اس لئے اس نے یہ جوا کھیلا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مہم میں اوبامہ کی زبان سے" مجھے اطلاع موصول ہوئی تھی"۔" میں نے بذات خودنگرانی کی" ۔" میں نے حکم دیا" اس طرح کے الفاظ بار بار سننے میں آئے حالانکہ اسامہ بن لادن کے سر پر ۲۵ کروڑ کا انعام تھا اس لئے اس میں صدر کو اس قدر دلچسپی لینے کی ضرورت نہیں تھی جو کوئی بھی ایسا کرتا وہ انعام کا حقدار ہوتا لیکن سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے صدر صاحب اس مہم میں جٹ گئے اور بلآخر مہم کے سر ہو جانے کا خوش کن اعلان فرما دیا ۔

اوبامہ اپنی اس بازی میں کامیاب ہوگئے ان کی مقبولیت کچھ لوگوں کے مطابق اوسطاً۵۷ فی صد تک جا پہنچی ہے ریپبلکنس کے خیمے میں ہلچل مچ گئی ہے اس لئے کہ ری پبلکن رائے دہندگان جو ان سے صرف ۹ فی صد راضی تھے اب ۲۴ فیصد تائید کرنے لگے ہیں گویا ۱۵ فیصد کا اضافہ دشمن کے کیمپ سے یہی وجہ ہے کہ کانگریس میں ریپلکن لیڈر نےاس مہم میں اپنی پارٹی کا حصہ لگاتے ہوئے اعلان کر دیا کہ جس کام کو جارج بش نے شروع کیا تھا اسی کو اوبامہ نے پورا کیا ۔رمسفیلڈ نے بھی ہر ایک کو اس کا حصہ دینے کی بات کی بلکہ ان کے مقابلے انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھنے والی باربرا نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس واقعہ کے بعد وہ اوبامہ کے خلاف ریپبلکن پارٹی کی جانب سے انتخاب لڑنے کی غلطی نہیں کر سکتیں۔عام رائے دہندگان کے اندر بھی ۱۱ فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ویسے جمہوریت میں کسی موت سے فائدے کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ راجیو گاندھی کی غیر معمولی کامیابی اندرا گاندھی کے قتل اور اس کے باعث حاصل ہونے والی ہمدردی کے نتیجے میں ہوئی تھی ۔ اگر بینظیر زندہ ہوتیں تو آصف زرداری کیلئے صدارت کا خواب دیکھنا بھی محال تھا لیکن ان دو واقعات سے قطع نظر جہاں ہمدردی کے ووٹ ملے تھے مودی نے مسلمانوں کے قتل عام کی بنیاد پر اپنا پہلا انتخاب جیتا ۔وہی بدلے کی بھاونا جس کا اظہار اوبامہ کرتے ہیں مودی بھی کر رہا تھا ۔بی جے پی کی پہلی ۱۳ دنوں والی حکومت بھی بابری مسجد کی شہادت کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی ۔ رام مندر کی تحریک اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار مشابہت موجود ہے ۔جمہوریت کے کھیل میں یہ سب ہوتا رہتا ہے ۔

نام نہاد اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر اوبامہ کا بیان صرف اور صرف سیاسی جعلسازی ہے جس کے پردے میں وہ افغانستان سے اپنے بے نیل و مرام واپسی کی ناکامی کو ڈھانپنے اور اپنی انتخابی مہم کو سہل بنا نے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان و یوروپ کے سر براہان کے تبصرے ضمیر فروشی اور ابن الوقتی سے زیادہ کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔سی این این پر اوبامہ کی تائیدی میں دم ہلاتے ہوئے امریکی صحافی پیٹر برجن نے اعلان کر دیا کہ ‘‘ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اختتام ہے’’ لیکن اس کے بر خلاف فوجی تجزیہ کار اور امریکی بریگیڈئیر مارک کیمٹ کا کہنا ہے کہ یہ تحریک کا خاتمہ نہیں ہے،یہ دہشتگردی (نام نہاد) کا خاتمہ بھی نہیں ہے بلکہ ایک باب کا اختتام ہے۔ اسامہ بن لادن کی گرفتاری و قتل محض ایک علامت سے زیادہ کچھ نہیں۔اس لئے کہ وہ برسوں قبل تحریک کی عملی قیادت سے دستبردار ہو چکے تھے ۔القائدہ تنظیم اسامہ بن لادن کی شخصیت سے کہیں زیادہ ہے گو کہ وہ اس کا تشخص اسامہ ہیں۔ مارک کا بیان حقیقت پسندانہ ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک بھی اسامہ حیات تھے کیا وہ ایثار ومزاحمت ،صبر واستقامت اور جرأت وشجاعت کی علامت نہیں تھے؟ اگر تھے تو یہ اوصاف حمیدہ مغرب کو یا دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مغرب زدہ دانشوروں کو کیوں نظر نہیں آتے؟

اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ایریل شیرون اور نتن یاہو جیسے ظالم جن کو امن کے پیغامبر دکھلائی دیتے ہیں ۔مصری مبارک اور یمنی صالح جیسے لوگ جن کے منظور نظر ہوں ۔ریمنڈ ڈیوس جیسا سفاک قاتل جن کا سفارتکار ہو اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی معصوم دوشیزہ جن کی نگاہ میں سنگین مجرم ہو تو ایسوں کو اسامہ اور نصراللہ اگر دہشت گرد نظر نہ آئیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اور جو لوگ مغرب کی عینک لگا کر حالات کا تجزیہ کرتے ہیں انہیں بھی وہی سب نظر آتا جو مغرب انہیں باور کراتا ہے ۔ ذہنی غلامی اسی کا نام ہے ورنہ اس بات کا دراک کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکہ ہے جس کی عالمی دہشت گردی کا باقائدہ آغاز ہیروشیما اور ناگاساکی کی ایٹمی بمباری سے ہوا تھا اور قریب ترین نمونہ عراق کی جارحیت ہے جہاں فوج کشی کا آغاز اس دعویٰ کے ساتھ کیا گیا تھا کہ وہاں عمومی تباہی کے اسلحہ (ویپنس آف ماس ڈیشٹرکشن) موجود ہے ۔ اس نامعقول جنگ کے نتیجے میں اب تک تقریباً ۱۵ لاکھ معصوم عراقی جان بحق ہوچکے ہیں۔ ۷ ہزار کے قریب اتحادی فوجی مارے جاچکے ہیں اور بالآخر بش نے یہ کہہ کر اپنا دامن جھٹک لیا کہ خفیہ ایجنسی کی اطلاعات غلط تھیں اور وہاں مذکورہ اسلحہ دستیاب نہیں ہوسکا۔جن لوگوں کو اپنی اس عظیم غلطی پر ذرہ برابر ملال نہ ہو انہیں ہر دہشت گرد بھلا آدمی دکھلائی دیتا ہے اور مزاحمت کار انکی آنکھوں کا کانٹا بن جاتا ہے بزدل اور کوتاہ بین لوگ عام طور سے ظلم کے بجائے اسکے خلاف ہونے والی بغاوت کو باعث فساد سمجھتے ہیں اسی لئے انہیں محمود عباس خوشنما اور حماس بدنما دکھلائی دیتی ہے لیکن مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے نہ کبھی مستکبرین کے جاہ وجلال کو خاطر میں لاتے ہیں اور نہ ان کے باجگزاروں کی جانب سے کی جانے والے لعنت ملامت کی پرواہ کرتے ہیں ۔ ان کا طرز حیات نہ تو مجبوری حالات طے کرتے ہیں اور نہ مادی مفادات ۔وہ غیروں کے طفیل جینے کے بجائے خود اپنا جہان آباد کرتے ہیں اور دوسروں کیلئے روشنی کا مینار بن جاتے ہیں۔ اسامہ بن لادن بھی انہیں میں سے ایک تھے ۔

اپنی نوجوانی کے دن اسامہ نے شہزادے کے مانند گزارے ۔وہ اگر چاہتے تو جدہ میں تعمیر ہونے والی ہزار میٹر اونچی عمارت کے بلند ترین منزل پ ر اپنا گھر بنا سکتے تھے لیکن جو اپنا گھر جنت میں بناتے ہیں ان کو دنیا کی بلندیاں حقیر معلوم ہوتی ہیں۔اسامہ بن لادن نے اقبال کے شاہین کی مصداق قصر سلطانی کے گنبد پر نشیمن بنانے کے بجائے پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرہ کیا ۔ ۱۹۷۹ میں افغانستان پر سوویت یونین کی جارحیت کی خبر انہوں نے ریڈیو پر سنی۔ ابتدا میں انہوں نے افغان مجاہدین کا مالی معاونت کیا مگر کچھ عرصے بعد وہ خود اپنی تمام دولت اور ثروت کو چھوڑ کر میدان کارزار کا رخ کیا۔ اسامہ بن لادن نے شیخ عبداللہ عظام اور دیگر مجاہدین کے ساتھ ملکر سوویت فوجیوں کے دانت کھٹے کر دئے ۔جس وقت وہ روسیوں سے بر سر پیکار تھے مغرب کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئےتھے لیکن جب انہوں نے مغرب کو چیلنج کیا تو وہ دہشت گرد کہلائے جانے لگے حالانکہ ہر دو صورت میں ان کی جنگ جارحیت کے خلاف تھی۔

افغانستان میں سوویت یونین کو شکست فاش سے دوچار کرنے کے بعد اسامہ وطن واپس لوٹ گئے۔ صدام حسین کے کویت پر حملہ کا فائدہ اٹھا کر امریکہ ایک طرف عراق پر حملہ کردیا تو دوسری طرف وہ سعودی عرب کی سلامتی کو لاحق خطرات کا بہانہ بنا کر مقدس سرزمین میں داخل ہوگیا۔ تاہم اس موقع پر اسامہ بن لادن نے سرزمین حجاز پر امریکی فوجیوں کی آمد کی مخالفت کی اور عراق کے خطرات سے نمٹنے کیلئے اسلامی فورس تشکیل دینے کی تجویز پیش کی یہیں سے اسامہ بن لادن کو امریکہ نے اپنا دشمن بنا لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۹۲میں اسامہ کو اپنا ملک چھوڑ کر سوڈان جانا پڑا۔ اسامہ بن لادن نے سرزمین حرمین پر ناپاک امریکی وجود کے خلاف تحریک جاری رکھی اور آخر کار سعودی عرب سے امریکہ کو نکلنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ یہ اسامہ کی دوسری بڑی کامیابی تھی ۔جو لوگ امت کی ساری تباہی کیلئے اسا مہ بن لادن کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں نہیں جانتے اگر امریکی فوج سعودی عرب کو اپنا مستقر نہیں بناتی تو یہ اختلاف ہی رونما نہ ہوتا اور اگر اسا مہ اس کے خلاف آواز نہ اٹھاتے تو وہ انخلاء بھی عمل میں نہ آتا۔اس کے علاوہ عراق سے بھی اس قدر قلیل مدت کے اندر امریکی انخلا میں القائدہ کے کردار کا انکار ممکن نہیں ہے ۔ آئندہ ایک سال کے اندر امریکی وہاں سے نکل جائیں گے ورنہ امریکہ کا معاملہ تو یہ ہے کہ اگر مزاحمت نہ ہو تو اسکی فوجیں کبھی بھی واپس نہیں ہوتیں جاپان کے اندر دوسری جنگ عظیم کے قائم کردہ فوجی مستقر آج بھی موجود ہیں۔القائدہ کا یہ ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے وطن پرستی کے بت کو مسمار کر کے طاغوت کے مقابلے امت کو جسدِ واحد بنا دیا ۔

افغانستان کے خود دار طالبان نے جن کے پاس اسامہ نے ۱۹۹۶ میں سیاسی پناہ حاصل کی تھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا اور اب یہ جہاد ویتنام کی جنگ سے طویل ہو چکا ہے۔ آج بھی افغانستان کے بڑے حصے پر طالبان کا قبضہ ہے ۔ابھی حال میں ۵۰۰ طالبانی مجاہد جیل توڑ کر فرار ہوگئے اور ناٹو افواج ان کا بال بیکا نہ کر سکی ۔ وسط جولائی سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا آغاز ہونا ہے جو ۲۰۱۴ میں مکمل ہو جائیگا ۔ اس سبکی پر پردہ ڈالنے کیلئے جعلی اسامہ بن لادن کو ہلاک کر کے اپنی سیاسی روٹی سینکنے کی ایک کامیاب کو شش اوبامہ نے ضرور کی ہے لیکن سوڈا واٹر کا یہ ابال کب تک رہیگا یہ تو وقت ہی بتلائے گا ۔ انتخاب کو ابھی ڈیڑھ سال کا وقفہ باقی ہے اس وقت تک یہ معاشی ابتری جاری رہی تو اوبامہ کو ایک نیا ناٹک رچانے کی ضرورت پیش آئیگی۔ جارج بش جس اسامہ کا ہوا کھڑا کر کے اپنی عوام کو دہشت زدہ کرتے رہے اور ان کے ووٹ سمیٹتے رہے اوبامہ نے اس خیالی دشمن کو ختم کر دیا ہے ۔ ڈیڑھ سال کے اندر اگر اوبامہ بی جے پی کے بابر کی طرح کوئی اور خونخوار دشمن ایجاد کرنے میں ناکام رہے توامریکی عوام ان کے دشمن بن جائیں گے اور یہ ساری بازیگری کسی کام نہ آئیگی ایسے میں جوش ملیح آبادی کا ایک شعر معمولی سی ترمیم کے ساتھ ان پر صادق آجائیگا
سر کرنے پھر چلا تھا مہم انتخاب کی
ہر سانس میں شکست کی دنیا لئے ہوئے
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1236404 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.