نظریات ناقابل شکست ہیں

محمد منصور احمد
آج صبح سے ایک خبر تمام ذرائع ابلاغ پر چھائی ہوئی ہے ۔ دل کہتا ہے کہ کاش خبر جھوٹی ہو۔ دماغ کہتا ہے کہ سبھی تو اس کی تصدیق کر رہے ہیں ۔ دل و دماغ کی یہ کشمکش جاری ہے اور ساتھ ہی پاکستانی وزیر اعظم کے اَلفاظ کانوں میں گونج رہے ہیں کہ یہ عظیم کامیابی ہے ۔ یہ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور سید بھی مگر ان کے جذبات و خیالات دیکھیں تو جی چاہتا ہے کہ کاش ! یہ اپنی نسبت میر جعفر اور میر صادق کی طرف کر تے تو یہ اپنے اَسلاف کے صحیح اَخلاف ثابت ہوتے ۔

آج سے دس گیارہ سال پہلے تک شیخ اُسامہ محض ایک فرد کا نام تھا لیکن اب دشمن بھی اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اُسامہ ایک شخص کا نام نہیں بلکہ عالمی کفریہ طاقتوں کے خلاف نفرت اور جدوجہد کی علامت ہے ۔ وہ نفرت جو خود اِن صلیب پرستوں نے مسلمانوں کے دلوں میں اپنے لیے پیدا کی ہے ۔ اسرائیل کا ناجائز وجود اور مسلسل اس کے مظالم کی تائید و حمایت ،پھر سپر پاور ہونے کے زعم میں ہر قانونی اور اَخلاقی حد کی پامالی ۔ اپنے قاتلوں کو ریمنڈ ڈیوس کی طرح لے اڑنا اور امت مسلمہ کے ضعیف و ناتواں لوگوں کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی طرح ظلم و ستم کی چکی میں پیستے رہنا ۔ نفرتوں کی یہ فصل القاعدہ ‘ طالبان یا مجاہدین نے نہیں خود امریکہ ادراس کے حواریوں نے کاشت کی ہے ۔

اگر یہ خبر سچی ثابت ہوتی ہے ۔ اللہ نہ کرے ۔ تو کفار و منافقین خوب بغلیں بجائیں گے اور بے بال و پر دانشور اپنے تجزیوں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ اب انتہا پسندی ختم اور تمام مسلمان ہماری اطاعت کیلئے تیار اور بے قرار ہیں ۔ راستے ضرور مختلف ہیں لیکن عالمی امریکی استعمار کی تباہی اور عالم اسلام کو اس سے نجات دلانا ‘ یہ ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمانوں کی منزل ہے ۔ کوئی بھی سچا مسلمان جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اختیار کر چکا ہو ‘ وہ کبھی کفار کی غلامی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ اس لیے اہل ایمان کو اپنے حوصلے بلند رکھنے چاہئیں اور اپنے رب سے کیے ہوئے عہد کی تجدید کرتے رہنا چاہیے ۔ شہادت کسی بھی مسلمان کیلئے شکست ہے اور نہ ہی عار کی بات ۔
اہل ِ اسلام کو اس خبر سے جو صدمہ پہنچا ہے وہ بالکل بجا ہے لیکن اس موقع پر ہمیں اسلام کی اُن ابدی ہدایات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جو ایسے کڑے وقت میں ہماری راہنمائی کر تے ہیں ۔ قرآن مجید کی سورئہ آلِ عمران کی آیت نمبر ۴۴۱ نے مسلمانوں کے نظریات کو ایسی مضبوطی اور بلندی عطا کی ہے کہ وہ کسی بھی شخصیت کی المناک جدائی اور مفارقت سے تبدیل نہیں ہو سکتے ۔

حضرات مفسرین نے اس آیت مبارکہ کا جو شان نزول اور پس منظر لکھا ہے اس کا مکمل نچوڑ درج ذیل عبارت میں ملاحظہ فرمائیں :

’’واقعہ یہ ہے کہ احد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس نقشہ جنگ قائم کیا ۔ تمام صفوف درست کرنے کے بعد پہاڑ کا ایک درہ باقی رہ گیا جہاں سے اندیشہ تھا کہ دشمن لشکر اسلام کے عقب پر حملہ آور ہو جائے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس تیر اندازوں کو جن کے سردار حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے مأمور فرما کر تاکید کر دی کہ ہم خواہ کسی حالت میں ہوں تم یہاں سے مت ٹلنا ۔ مسلمان غالب ہوں یا مغلوب حتیٰ کہ اگر تم دیکھو کہ پرندے ان کا گوشت نوچ کر کھا رہے ہیں تب بھی اپنی جگہ مت چھوڑنا وانا لن نزال غالبین ماثبتم مکانکم ﴿بغوی﴾ ہم برابر اس وقت تک غالب رہیں گے جب تک تم اپنی جگہ قائم رہو گے ،الغرض فوج کو پوری ہدایت دینے کے بعد جنگ شروع کی گئی ۔ میدان کا ر زار گرم تھا ۔ غازیانِ اسلام بڑھ برھ کر جو ہر شجاعت دکھا رہے تھے، ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے مجاہدین کی بسالت و بے جگری کے سامنے مشرکین قریش کی کمر یں ٹوٹ چکی تھیں ،ان کو راہ فرار کے سوا اب کوئی راستہ نظر نہ آتا تھا کہ حق تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا ۔ کفار کو شکست فاش ہوئی ،وہ بد حواس ہو کر بھاگے ۔ ان کی عورتیں جو غیرت دلانے کو آئی تھیں پائنچے چڑھا کر ادھر اُدھر بھاگتی نظر آئیں ،مجاہدین نے مال غنیمت پر قبضہ کر نا شروع کر دیا ۔ یہ منظر جب تیر اندازوں نے دیکھا تو سمجھے کہ اب فتح کا مل ہو چکی، دشمن بھاگ رہا ہے ۔ یہاں بے کار ٹھہرنا کیا ضروری ہے، چل کر دشمن کا تعاقب کریں اور غنیمت میں حصہ لیں ۔ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ان کو یاد دلایا، وہ سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا اصلی منشا ہم پورا کر چکے ہیں یہاں ٹھہرنے کی حاجت نہیں ۔ یہ خیال کر کے سب غنیمت پر جا پڑے ،صرف عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے گیارہ ساتھی درّے کی حفاظت پر باقی رہ گئے ۔ مشرکین کے سواروں کا رسالہ خالد بن الولید کے زیر کمان تھا جو اس وقت ’’حضرت ‘‘ اور ’’رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘‘ نہیں بنے تھے ۔ انہوں نے پلٹ کر درّہ کی طرف حملہ کر دیا ،پس بارہ تیر انداز ڈھائی سو سواروں کی یلغار کو کہاں روک سکتے تھے ، تاہم عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے رُفقا نے مدافعت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا اور اسی میں جان دے دی ، مسلمان مجاہدین اپنے عقب سے مطمئن تھے ،ناگہاں مشرکین کا رسالہ ان کے سروں پر جا پہنچا اور سامنے سے مشرکین کی فوج جو بھاگی جا رہی تھی پیچھے پلٹ پڑی، مسلمان دونوں طرف سے گھر گئے اور بہت زور کا رن پڑا ،کتنے ہی مسلمان شہید اور زخمی ہوئے ۔ اسی افرا تفری میں ابن قمیہ ﴿ مشرک﴾ نے ایک بھاری پتھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینکا جس سے دندان مبارک شہید اور چہرہ اَنور زخمی ہوا، ابن قمیہ نے چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرے مگر مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ﴿جن کے ہاتھوں میں اسلام کا جھنڈا تھا ﴾ مدافعت کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم زخم کی شدت سے زمین پر گرے ،کسی شیطان نے آواز لگا دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر دیے گئے، یہ سنتے ہی مسلمانوں کے ہوش خطا ہو گئے اور پاؤں اکھڑ گئے ۔ بعض مسلمان ہاتھ پاؤں چھوڑ کر بیٹھ رہے ۔ بعض ضعفائ کو خیال ہوا کہ مشرکین کے سردار ابو سفیان سے امن حاصل کر لیں ،بعض منافقین کہنے لگے جب محمد قتل کر دئیے گئے تو اسلام چھوڑ کر اپنے قدیم مذہب میں واپس چلا جانا چاہیے، اس وقت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا انس بن النضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم مقتول ہو گئے تو رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو مقتول نہیں ہوا ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمہارا زندہ رہنا کس کام کا ہے، جس چیز پر آپ ﴿صلی اللہ علیہ وسلم ﴾ قتل ہوئے تم بھی اسی پر کٹ مرو اور جس چیز پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان دی ہے اسی پر تم بھی جان دے دو ۔یہ کہہ کر آگے بڑھے ،حملہ کیا ،لڑے اور مارے گئے ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ اسی اثنا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی الیّ عباد اللہ، انا رسول اللہ اللہ کے بندو !ادھر آؤ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان کر چلّائے ’’ یا معشر المسلمین ‘‘ مسلمانوں! بشارت حاصل کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں موجود ہیں۔ آواز کا سننا تھا کہ مسلمان ادھر ہی سمٹنا شروع ہو گئے ،تیس صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو کر مدافعت کی اور مشرکین کی فوج کو منتشر کر دیا ۔ اس موقع پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور قتادہ بن النعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ نے بڑی جانبازیاں دکھلائیں ،آخر مشرکین میدان چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور ہوئے اور یہ آیات نازل ہوئیں :’’وما محمد الا رسول‘‘الخ، یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی آخر خدا تو نہیں ایک رسول ہیں ۔ ان سے پہلے کتنے رسول گزر چکے جن کے بعد ان کے متبعین نے دین کو سنبھالا اور جان و مال فدا کر کے قائم رکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا سے گزرنا بھی کچھ اچنبھا نہیں ،اس وقت نہ سہی اگر کسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ۔ یا شہید کر دئیے گئے تو کیا تم دین کی خدمت و حفاظت کے راستہ سے اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جہاد فی سبیل اللہ ترک کر دو گے، جیسے اس وقت محض خبر قتل سن کر بہت سے لوگ حوصلہ چھوڑ کر بیٹھنے لگے تھے یا منافقین کے مشورہ کے موافق، العیاذ باللہ، سرے سے دین کو خیر باد کہہ دو گے ۔ تم سے ایسی امید ہر گز نہیں اور کسی نے ایسا کیا تو اپنا نقصان کرے گا ،خدا کا کیا بگاڑ سکتا ہے وہ تمہاری مدد کا محتاج نہیں بلکہ تم شکر کرو اگر اس نے اپنے دین کی خدمت میں لگا لیا ۔ ﴿تفسیر عثمانی﴾

اس دنیا میں شخصیات تو آتی جاتی رہتی ہیں لیکن جن نظریات کی بنیاد اللہ کے مقدس کلام اور اللہ کے پاک نبی ﷺ کے ارشادات پر ہو ،وہ ہمیشہ ناقابلِ شکست ہوتے ہیں۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 195876 views A Simple Person, Nothing Special.. View More