روز حشر کی ٹھنڈی چھاؤں

آج صبح فجر کے بعد چڑیوں کی چهکار سننے کھڑکی کے پاس گیء تو محسوس هوا که کچھ چڑیوں کی آواز میں ایک عجیب سی کیفیت هے ۔دل میں خیال آیا که ان چڑیوں کو بھوک لگی هے۔فریج میں رات کا کھانا بچا هوا تھا ,اس میں سے کچھ چاول نکال کے باهر ڈال آیء ۔تھوڑی دیر بعد جاکے دیکھا تو چڑیاں کھانا کھا چکی تھیں۔احساس هوا که لاک ڈاٶن نے انسانوں کے ساتھ جانوروں اور چرند پرند پر بھی اثرات ڈالے هیں۔ نماز ظھر پڑھ کے هسبینڈ سے ذکر کیا که نجانے الله کی مخلوق کا کیا حال هے ؟ وه کھنے لگے که میرے ساتھ بیکری تک چلو اور خود دیکھ لو ۔راستے میں مزدور ٹایپ لوگ مرجھائے هوئے سے بیٹھے نظر آئے ۔آگے دو بچے ریڑھی په جارهے تھے که ایک گاڑی والے نے شیشه اتار کےکھانے کا ایک شاپر ان کو پکڑا دیا ,اس وقت جو مسکراهٹ ان معصوموں کی دیکھی تو شکرکا سانس لیا که ابھی کچھ لوگ باقی هیں جھاں میں۔بیکری سے ضروری اشیاء لے کے باهر آئے تو ایک ضعیف سا گارڈ جھکے کندھوں کے ساتھ دکھائی دیا تو سوچا که وه کون سی اولاد هوتی هے جو بڑھاپے میں سھارا نهیں بنتی ؟اس عمر میں تو اولاد کو والدین کو بٹھا کے کھلانا چاهییے۔سڑک په ایک دو گارمنٹس سیل کرنے والے اور سن گلاسز والے هر آتے جاتے کو پر امید نظروں سے دیکھتے مگر لوگ اپنے دھیان میں آگے بڑھ جاتے تو ان غریبوں کا رنگ مزید پیلا پڑ جاتا ۔ٹریفک سگنل پر دو بچے گاڑیوں کی ونڈ اسکرین صاف کررهے تھے بمشکل چھ اور آٹھ سال عمر هوگی ۔دل میں غم کی لهر سی دوڑ گئی ۔حالات نے ان معصوموں کو بچپن میں هی کس تپتی دھوپ میں کھڑا کردیا هے۔صاف ستھرے کپڑوں میں کسی سفید پوش گھر کے لگتے تھے۔سب سے زیاده تو سفید پوش لوگ هی پریشان هیں که نه کسی کو اپنی حالت بتا سکتے هیں اور نه کوئی انھیں مستحق سمجھتا هے۔هسبینڈ نے کچھ پیسے ان کو دییےء۔مجھے امی جی (اپنی ساس )یاد آگییں که وه غریبوں کی کتنی همدرد تھیں۔ اکثروقت گیراج میں سایلین موجود رهتے ۔ایک مائی جاتی تو تین اور آجاتیں۔کسی نے چھوٹا بچه گود میں اٹھایا هوتا تو کسی نے لاٹھی پکڑی هوتی ۔میں نے ایک بار پوچھا که امی جی , آپ انکے دکھ سن کیسے لیتی هیں ؟کسی کا میاں بےروزگار هے تو کسی کا بیٹا اپنی ماں کو کمایء میں سے نهیں دیتا ۔کسی کو ٹی بی هے تو کسی کا بچه علاج کا محتاج هے ۔مجھے تو ڈیریشن هونے لگتا هے ۔ امی جی کے پاس جواب میں ایک مسکراهٹ هوتی ۔۔۔بڑی میٹھی مسکراهٹ۔آج بھی وه مسکراهٹ یاد آتی هے۔ یادوں میں کھو کے پته نهیں چلا که گاڑی کدھر جارهی هے۔ میں نے ھسبینڈ سے قبرستان کی طرف ٹرن کرنے کی بات کی۔آج کل قبرستان کا سناٹا اور مارکیٹوں کا سناٹا تقریبا"برابرهی هیں ۔ بے اختیار چلتے چلتے امی جی کی قبر کے پاس آگئی تو آنسو کنٹرول نه هوئے ۔میرے سسر صاحب اور امی جی کی قبر ساتھ ساتھ هے۔فاتحه پڑھ کے واپس قبروں کے بیچ میں سے احتیاط سے پھونک پھونک کے گزرے که یه بھی کبھی هم جیسے انسان تھے۔ایک آدمی کے سوا قبرستان میں کوئی ذی نفس نه تھا ۔هر انسان نے آنا یهیں هے ۔یهی قبر تو اصلی گھر هے۔اس گھر کو روشن کرنے کے لیےء هم کیا تیاری کرتے هیں؟همارے ساتھ کیا جائے گا ۔۔۔نه مال اسباب نه اولاد ۔۔۔کاش کویء سمجھنے والا هو !۔ بوجھل پن کے ساتھ گھر لوٹتے هوئے الخدمت فاٶنڈیشن کے کچھ بینرز په نظر پڑی تو ایک امید کی شمع روشن هوگئی ۔الخدمت نے اس آزمایش کی گھڑی میں جس طرح قوم کو تھاما هے وه قابل تحسین هے۔فوڈ پیکج , راشن بیگ , میڈیکل کٹس ,ایمبولینسز,والنٹیر ڈاکٹرز,مساجد اور مندروں میں جراثیم کش اسپرے ,اس کے رضاکاروں کی دن رات مستحقین تک پهنچنے کی محنت ۔۔۔۔ یقینا" روز محشر یه سب نیکیاں بادلوں کی صورت اختیار کر کے ٹھنڈی چھاٶں بنیں گی۔الله پاک اس چھاٶں کا کچھ حصه همیں بھی عطا کردے۔آمین۔
تحریر : عصمت اسامه۔
#فکرونظر
#الخدمت