وبا کے دنوں میں انڈر گراؤنڈ کاروبار

چند روز قبل رات کے وقت کام سے باہر نکلا. گلی میں ہو کا عالم تھا. الو بول رہے تھے. سر کے بال کافی بڑھ چکے تھے. حجام کی دکان کے پاس سے گزرتے ہوئے دیکھا باہر ایک دو بندے بیٹھے ہیں. دکان کا بند ہوتا شٹر اندر جھانکنے کی دعوت دے رہا تھا. اندر نظر دوڑائی. دکان خالی پائی. نظروں ہی نظروں میں دکان دار سے بات ہوئی. اندر جانے کا گرین سگنل پاکے قدم اندر رنجہ فرمایا.

بال بنوانے کے بعد جوس پینے کا موڈ ہوا. مین روڈ تک پیدل مارچ کیا. مارکیٹ میں اندھیرے کا راج تھا. اندھیروں کے بیچوں بیچ فروٹ کے ٹھیلے کے پاس ایک بندہ پر اسرار انداز میں کھڑا تھا. قریب جاکے میں اس کا تو وہ میرا جائزہ لینے لگا. پوچھا فروٹ مل سکتے ہیں؟ ملک شیک بنانا ہے بچوں واسطے.
بولا آپ ہی کے لیے تو کھڑا ہوں. ملک شیک نہیں. ملک پیگ بھی بنالیں. کپڑا ہٹاکے فروٹ میرے حوالہ کیے اور دوبارہ فروٹ چادر تلے چھپادیے.

اگلے دن پاس مارکیٹ سے موٹرسائیکل سے گزر ہوا. دیر ہوچکی تھی. اشیائے خور ونوش کی دکانیں بند ہوچکی تھیں. فکر کھائے جارہی تھی کہ بچے کا دودھ ختم ہوچکا ہے. بیگم کی ڈانٹ سننی پڑے گی. انھیں خیالوں میں غلطاں تھا کہ ایک دودھ کی دکان پہ نگاہ ٹکی. سامنے حضرت انسان ڈرا سہما کھڑا تھا. للجاجت سے استفسار کیا بھائی دودھ مل جائے گا؟

اس نے گلی کے اندر جانے کا اشارہ کیا. گلی کی طرف گیا تو ایک سوراخ کے سامنے دکان دار کرسی پہ براجمان سوراخ سے اندر آواز لگاتا. ایک کلو......... دو کلو........ لگ یوں رہا تھا کہ یہ خفیہ سوراخ انھیں وبا کے دنوں میں انڈر گراؤنڈ کاروبار کے لیے کیا گیا ہے.

واپسی میں سوچ رہا تھا. ایسا انڈر گراؤنڈ کاروبار پچھلی کسی حکومت میں نہیں ہوا. اس کا سارا کریڈٹ کپتان کو جاتا ہے.

ایسا ہوتا ہے قائد
یہ ہوتا ہے وژن

 

Ibnul Hussain Abidi
About the Author: Ibnul Hussain Abidi Read More Articles by Ibnul Hussain Abidi: 60 Articles with 58500 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.