چلو بنگلہ دیش چلیں

جی ہاں یہ آواز کراچی کے انڈسٹری ہولڈروں کے ذہنوں میں آجکل بڑی جڑ پکڑتی جا رہی ہے ، یہاں بجلی کا شدید بحران ،گیس کی قلت اور بھتہ خوری کے راج نے سرمایہ دار کو پریشان کر دیا ہے، انہی وجوہات سے اس آواز کو اور تقویت ملتی ہے، جبکہ بنگلہ دیش کے سابقہ حالات اور موجودہ حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو نتیجہ نیگٹیو سامنے آئے گا ، جب پاکستان وجود میں آیا تو سرمایہ داروں کو مشرقی پاکستان میں سرمایہ محفوظ اور منافع زیادہ نظر آیا ، لہٰذا بڑی بڑی انڈسٹری وہاں لگی ، یہاں صرف ایک کی مثال دوں گا جس کا نام آدم جی جوٹ مل ہے جسمیں ایک وقت میں بیس ہزار مزدور کام کرتے تھے ،مگر بنگلہ دیش بننے کے بعد اس کو” قومیا “لیا گیا جس سے اُس کی پروڈکشن پر اثر پڑا ،پھر اُسے پڑوسی ملک کے کہنے پر بند کر دیا گیا کہ اُس کے چلنے سے مغربی بنگال میں لگی ہوئی جوٹ ملوں کو خام مال نہیں ملتا ، ابھی تک وہ فیکٹری جس کا شمار جنوبی ایشیا کی نامور انڈسٹریوں میں ہوتا تھا ،کوشش کے باوجود بنگلہ دیش والے چلا نہیں سکے ، گزشتہ روز میں اُن کے ٹی۔وی چینل پر اُس فیکڑی کے مزدوروں کے بیانات سن رہا تھا جو بوڑھے ہونے کے باوجود کہہ رہے تھے کہ ہم لوگ اسی انتظار میں ہیں کہ ہمار ی فیکٹری چلنے سے ہم کام کر سکیں گے کیونکہ ہم لوگ وہی کام جانتے ہیں اور کچھ کر نہیں سکتے۔، مگر خام مال ہونے کے باوجود فیکٹری آج تک نہ چل سکی کہ یہاں بھی ایک” آقا“ سر پہ بیٹھا ہے جس نے یہ گھر اور یہاں کی حکومت بنا کر دی، اُس کو ناراض تو نہیں کر سکتے نا!! جیسے پاکستانی حکمران امر یکہ بہادر کی مرضی کے خلاف کوئی کام کریں گے تو انہیں اپنی کرسی کے لالے پڑ جا تے ہیں، اسی طرح ہندوستان کی مرضی کے خلاف کوئی کام بنگلہ دیش میں نہیں ہو سکتا۔

بجلی ،گیس کا بحران اور چندا بازی تو بنگلہ دیش میں بھی ہے ، اگر کوئی انڈسٹری چل رہی ہے تو وہ چلانے والے کی ہمت ہے کہ اُس نے اپنا جنریٹر لگا کر فیکٹری کے لیے بجلی خود پیدا کی اور سیاسی پارٹیوں کو چندا بھی دیتا ہے ، یہاں یہ مثال سچی لگتی ہے”دور کے ڈھول سہانے“ جب نزدیک جائیں تو وہی آواز کانوں سے سہی نہیں جاتی۔

یوں لگتا ہے جیسے سرمایہ داروں میں ایک دوڑ لگی ہے ہر کوئی آگے نکلنے کی کوشش میں ہے ، ایک وقت تھا کہ یہی لوگ دوبئی میں سرمایہ کاری کے لیے پاگلوں کی طرح دوڑ رہے تھے ہر کوئی وہاں فلیٹ خرید رہا تھا ،آج بیچنا چاہتا ہے مگر کوئی خریدار نہیں،جال میں پھنسی ہوئی چڑیا کو چھوڑ کر اُڑتی چڑیا کے پیچھے بھاگنے والے اگر یہی سرمایہ اپنی موجودہ انڈسٹری میں بجلی پیدا کرنے پر لگائیں ، گیس نہیں ملتی سورج کی روشنی تو ملتی ہے ، کراچی کی ہوا میں بڑے بڑے پنکھے تو چل سکتے ہیں، اسی طرح قدرت کی نعمتیں تو بے شمار ہیں مگر ہم میں ان کو تلاش کرنے کے جذبے کی کمی ہے۔

بنگلہ دیش والے اگر سورج کی روشنی سے واٹر پمپ چلا کر کھیتوں کو سیراب کر سکتے ، بائیو گیس سے جنریٹر چلا کر پورے گاﺅں کو روشن کر سکتے ہیں تو کیا ہم مان لیں کہ ہم اُن سے بھی گئے گزرے ہیں ؟

سارا دوش حکمرانوں پر تھوپ کر ،چند جلے کٹے جملے بول کر کچھ نہیں ملے گا ،حکمرانوں کو چلانے والے بھی ہم لوگوں میں سے ہیں ، ایک گھر کے نظام کو چلانے والا سربراہ اگر کوئی غلط قدم اُٹھاتا ہے تو پورے گھر والوں کا فرض ہے کہ اُسے روکیں ! دنیا نے دیکھا کہ چالیس سالہ آمریت کو صرف عوام کی مجموعی طاقت نے اُکھاڑ پھینکا، جب ہمارا نصب العین صحیح ہوگا تو پوری دنیا ہمارا ساتھ دے گی اور اس کا مطلب ہے خُدا بھی ہمارے ساتھ ہے ۔ ” آوازِخلق نقاراءخُدا “ جس کے سامنے بڑے بڑے جابر اور ظالم بھی گٹنے تیک دیتے ہیں۔

اِس وقت ہمارا واسطہ ایک مکاراور جھوٹوں کے بادشاہ سے پڑا ہے جس کی بزدلی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ، چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھوں میں کنکر اُٹھا کر جب کسی کُتے کے پیچھے پڑ جاتے ہیں تو اُسے گاﺅں چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں کیا ہم اُن بچوں سے بھی گئے گزرے ہیں ؟

ہمار ی آنکھوں کے سامنے چور اور لٹیرے آپس میں گٹھ جوڑ کر کے ہمارے گھر کو لوٹنے کے منصوبے بنا رہے ہیں اور ہم خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہے ہیں ایک سچے پکے مسلمان کی طرح کہ کوئی غیبی مدد آئے گی اور ان کا پلان دھرا کا دھرا رہ جائے گا، ہم یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ خُدا بھی اُن کی مدد نہیں کرتا جو اپنی مدد آپ نہیں کرتے۔

سب نے دیکھا کہ ویت نام کے عوام نے ہی امریکہ جیسے گمنڈی کو ناکوں چنے چبوائے،افغانستان سے بھاگنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ،کیوں ؟وہاں کی حکومت تو اُس تابعدار ہے، یہ عوام ہی کی طاقت ہے جو اُس کے پیر جمنے نہیں دے رہی ۔

جہاد یہ نہیں کہ آپ مسجدوں پر خود کش حملے کریں۔
جہاد یہ ہے کہ آپ ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہیں۔

آخر میں اپنے مُلک کے سرمایہ داروں سے بھی میری یہی درخواست ہے، کہ پریشانیوں سے گھبرا کر اپنا گھر چھوڑنا دانشمندی نہیں، ان پریشانیوں کا حل ڈھونڈنا عقلمندی ہے۔

اس وقت عزم کے ساتھ ساتھ اشد ضرورت ہے ایک نعرے کی جو سب کو متحد کر دے، اور وہ نعرہ ہے،
”امریکی کتے ّ “ ہائے ہائے، یہ نعرہ آپ خود بھی میرے ساتھ لگائیں اور گھر میں اپنے بچوں سے لگوائیں جو باہر جا کر محلے کے بچوں کے ساتھ مل کر یہ نعرہ بلند کریں جب گلی گلی سے یہ آواز بلند ہوگی تو اسباب اللہ کریم پیدا کرنے والا ہے ۔ بچے بھی فرشتوں ہی کی طرح ہوتے ہیں۔
”امریکی کتےّ “ ؟
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77711 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.