کرونا کی طاقت

تحریر،ہاں کیاہرواقعہ تحریرکیاجاسکتاہے؟شاید،ہوسکتاہے خودپرتھوڑاساجبرکریں،خودکوجمع کریں توآپ لکھ لیں گے لیکن کیا ہربات لکھی جاسکتی ہے ؟ خوشی کو تولکھاجاسکتا ہے،غم د کھ تو تحریرہوسکتاہے مگردرد اورآنسو ؤں کوکیسے لکھا جاسکتا ہے۔کرب کوکیسے لکھیں اضطراب کو،بے کلی کو،بے حسی کو ، انا کوتحریر میں کیسے سموئیں؟لفظ وہی ہوتے ہیں، قلم وہی ہوتاہے،صفحات وہی ہوتے ہیں سب کچھ وہی ہوتاہے لیکن آپ بے دست وپاہوتے ہیں۔رحمت کوتوبیان کیاجاسکتا ہے،تحریرکیاجاسکتاہے،نحوست کوکیسے پابندتحریرکیاجاسکتاہے!اداسی کو تحریرکرسکتے ہیں آپ؟کچھ نہیں کرسکتے ہم ”دل پہ جوگزری سوگزری مگر”اسے بیان کیسے کریں؟میرے لیے یہ ممکن نہیں۔نہیں مجھے یہ ہنرنہیں آتااورمجھے یہ سیکھنابھی نہیں ہے۔ ضروری تونہیں ہے مجھے سب کچھ آتاہو۔نہیں،میں نہیں لکھ سکتا دردِدل کو، اداسی کو،بے کلی کو، اضطراب کوبالکل نہیں لکھ سکتا۔آنسو ؤں کوکیسے تحریرکروں؟بتائیے آپ؟ اگرآپ تحریر کرسکتے ہیں توضرور کیجئے۔

لیکن یہ ہوتارہاہے،ہوتارہے گا،یہی ہے ریت۔کوئی نئی بات نہیں،کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔خلق خداکے حق میں نغمہ سرائی جرم تھی،جرم ہے،جرم رہے گی۔خلقِ خداکی گردنوں پرسوار اس وقت بھی یہی کرتے تھے اب بھی یہی کرتے ہیں اورآئندہ بھی یہی کرتے رہیں گے۔کوئی نئی بات نہیں،یہ ہوتارہا ہے ،ہوتارہے گا۔آپ زمینی خدائوں کوللکاریں گے تووہ آپ کوہارپھول پیش نہیں کریں گے۔یہی ہوگا۔آپ آئینہ دکھائیں گے اوروہ اپنی مکروہ صورتوں کودیکھ کرآپ کوپتھرماریں گے۔گولیاں داغیں گے۔لاٹھیاں برسائیں گے لیکن اپنے قلم کوخلقِ خداکی امانت سمجھنے والے کبھی بازآئے ہیں نہ آئندہ آئیں گے۔

زمینی خداؤں کے زرخریدغلام خلقِ خداکی آوازکوخاموش کرنے کاسپنادیکھتے ہیں اوروہ کبھی شرمندہ تعبیرنہیں ہوپاتا،نہ ہو گا۔توبس پھریہی منظرہوگا آئندہ آنے والے چنددنوں میں ۔ہرطرف بپھراہواعتاب اوراہل جنوں کانعرہ مستانہ۔سربلندرہے گایہ نعرہ ”فرعون پہلے بھی غرقاب ہواتھا،آئندہ بھی اس کانصیبایہی ہے”۔مبارک ہوانہیں جوخلق خداکیلئے سر عام پٹتے رہے۔جن کے خون سے سڑکیں رنگین ہوئیں۔آج کچھ نہیں ہے کہنے کو،بس جوکچھ سن رہاہوں وہ لکھ رہاہوں۔ٹی وی چینلزپرخودکو دنیاکاطاقتور سمجھنے والے بدحواس نظر آ رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک عالمی حکومت کے قیام کی سازش بھی کررہے ہیں۔ برطانیہ کے سابقہ وزیراعظم گورڈن براؤن نے یہ تجویزپیش کی ہے۔میں موجودہ حالات کونقارہ خدا سمجھتاہوں۔ اگراندھے، بہرے نوشتہ دیوارنہیں پڑھ سکتے توہم کیاکریں!

ہاں فرعون مرتاہے،فرعونیت نہیں مرتی۔اس کے پیروکارآتے ہیں،آتے رہیں گے۔پھروہ پکارنے لگتے ہیں،ہمارامنصوبہ کامیاب رہا ۔ہم ہیں اعلی و ارفع ۔ہمارے پاس ہیں وہ دانش وبینش جوبچالے جائیں گے سب کو۔بس ہمارے پیچھے چلو۔ہماری پیروکاری کرو کہ نجات اسی میں ہے۔یہاں ہرفرعون یہ سمجھ بیٹھاہے کہ بس وہی ہے عقل وفکرکاعلمبردار، بہت ضروری ہے وہ۔اس کی ہدایت ورہنمائی ہی نجات کاسبب ہے۔بس وہی”میں”کاچکر۔نحوست کاچکر۔اسی لیے وہ پکارتارہتاہے۔وہی ہے اعلی وارفع ،وہی ہے رب اور رب اعلیٰ بھی۔خودفریبی کی چادرمیں لپٹاہوا۔موت ،موت تواسے چھوبھی نہیں سکتی۔ سامان حرب سے لیس ۔خدام اس کی حفاظت پرمامورہیں۔ چڑیا بھی پرنہیں مار سکی۔دوردورتک کوئی سوچ بھی نہیں سکتاکہ اسے گزندپہنچا سکے

مصاحبین کے نعرہ ہائے تحسین اسے اس زعم میں مبتلارکھتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔اس کی مرضی سے چلتاہے کاروبار حیات جیسے وہ موت کو بھول بیٹھتاہے،خودفریب توسمجھتاہے کہ موت بھی اسے بھول جائے گی۔ سمجھ بیٹھے ہیں یہ محفل سداسجائیں رہیں گے۔واہ،واہ،آفرین آفرین کرنے والے درباری یونہی داد دیتے رہیں گے۔نہیں جناب بالکل بھی نہیں۔سب کچھ ختم ہوجائے گا لیکن پھرایک اوردریاہوتاہے اورانجام وہی۔بالکل یہی سمجھتاہے کہ جس طرح وہ موت کوبھولاہواہے،موت بھی اسے بھول چکی ہوگی لیکن آتی ہے وہ۔ہزارپہرے بیٹھا دیجئے، دیواریں چنوالیجئے،کیمرے لگالیجئے۔وہ نہیں رکتی۔آتی ہے اورسرعام آتی ہے۔کوئی نہیں بچ سکااس سے لیکن ہوتاکچھ اورہے۔سب کچھ ہوتاہے محافظ بھی،سامان حرب بھی،محلات بھی، سازو سامان بھی ،آفرین بھی،واہ واہ بھی سب کچھ ہوتاہیاورپھرنیل ہوتاہے،لہریں ہوتی ہیں،منہ زورلہریں رب حقیقی کے حکم کی پابند۔ اورجب وہ گھِر جاتا ہے ، پھر دوردور تک کوئی نہیں ہوتامدد گار۔تب وہ آنکھ کھولتاہے اورپکارنے لگتاہے”نہیں نہیں،میں ایمان لاتاہوں،ہاں میں موسٰی وہارون کے رب پرایمان لاتاہوں”لیکن بندہوجاتاہے در۔ کسی آہ وبکاسے نہیں کھلتا اورپھروہ غرق ہوجاتاہے۔موت اس کی شہ رگ پردانت گاڑدیتی ہے۔ختم شدنشانِ عبرت ۔ داستان درداستان۔

ہاں ایک امتحان تھاگزرگیا۔نتیجہ توبعدمیں نکلے گا۔کیا؟میں نہیں جانتا۔ بس میں تویہ سوچ رہاہوں کہ میں نے کیاکیااوران کانتیجہ کیانکلے گا؟ہاں دعا کروں میں لیکن کس منہ سے دعا کروں ؟ کیسے اپنے رب کاسامناکروں؟

برسوں سے اک نئی کربلامیرے سامنے بپاہے۔ہمارے بچے اوربچیاں تہہ تیغ کئے جارہے ہیں،پچھلی سات دہائیوں سے ظالم ہندو بنئے نے جس بیدردی سے نسل کشی کاکاروبار شروع کررکھاہے،جس سفاکی سے معصوم بچوں کوبارودسے بھون کررکھ دیاجاتا ہے،ان جبہ ودستاروالوں نے بھی ان کے آستانے پراپنی جبین نیازکوجھکالیا۔پہلے مودی کواپنے ملک کے سب سے بڑے سول اعزازسے نوازا،اب یروشلم کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرکے اپنے ماتھے پرغلامی کی مہرثبت کرلی،اپنے ڈالروں کی کھنک سے ہماری قومی غیرت کوبھی دفن کردیاگیا …..کس کو بے وقوف بنارہے آپ؟

آپ کہاں ہیں اورکیاکہتے ہیں؟معصوموں کی چیخیں مجھے جینے نہیں دیں گی۔میراسینہ شق ہوجائے گا۔میں کچھ نہیں کر سکا۔ ہاں مجھے زندگی پیاری ہے ہاں میں سانس کی آمدورفت کو زندگی سمجھتا ہوں ہاں میں نے ذلت ورسوائی کی زندگی قبول کر لی ہے،ہاں میں موت سے بہت ڈرتاہوں ہاں میں نے اپنارب بدل لیاہے،ہاں میں عزت وذلت کامالک انہیں سمجھتا ہوں جن کے ہاتھ میں ہمارے اقتدارکی ڈوری ہے،جن کے ایک ہاتھ میں خوفزدہ کرنے کیلئے کڑکتے کوڑے ہیں اوردوسرے ہاتھ میں ہمارے چیچک زدہ چہروں پرسجے طمع و حرص کے مارے منہ بھرنے کیلئے ڈالروں سے بھرے توڑے۔ان کے پاس بے حس بندوقیں ہیں۔شعلہ اگلتی ہوئی بندوقیں۔میں انہیں زندگی اورموت کامالک سمجھتاہوں جن کے میزائلوں کی گڑگڑاہٹ سے دل دہل جاتاہے اورمجھے خدشہ ہے کہ کہیں وہ میرا تورابورانہ بنادیں۔ہاں وہی ہیں میرے مالک! آپ کے متعلق کیا کہہ سکتا ہوں!آپ جانیں اور آپ کاکام لیکن کروناکی طاقت تودیکھیں کہ اس نے طاقتوروں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 317052 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.