تعلیمی معیار پستی کی راہ پر گامزن.. ذمہ دار کون؟

تعلیمی میعار پستی کی راہ پر گامزن ذمہ دار کون

یک بین الاقوامی ادرے "گلوبل ہیومن کیپٹل"، کی ایک تخقیقی و سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان معیار تعلیم کے اعتبار سے 130 ممالک میں سے 125 ویں نمبر پر آگیا ھے جو سال بہ سال مسلسل گرتی ہوئی درجہ بندی کا مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ معیار تعلیم کے حوالے سے ہم پر واضح کرتا ہے کہ ہم حقیقت میں کھڑے کہاں ہیں اور جا کدھر رہے ہیں. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں مسلسل گرتے ہوئے معیار تعلیم کا آخر ذمہ دار کون ہے؟ اور یہ کہ ہمیں انفرادی و اجتماعی سطح پر اس ناخوشگوار و تکلیف دہ صورتحال کا احساس و ادراک بھی ہے کہ نہیں؟ اور اگر کسی درجے ھے بھی تو کیا اس کی اصلاح و بہتری کی فکر بھی ہے کہ نہیں؟

زیر بحث صورتحال کا بڑا و کلیدی سبب مقتدر قوتوں کا اسکی غیر معمولی اہمیت کی مناسبت سے یکسر توجہ و اہمیت نہ دینا ھے. نعروں، وعدوں اور دعووں سے قطع نظر تعلیم کبھی بھی عملاً ان کی سر فہرست ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہی مزکورہ اور اسطرح کی دیگر سروے و تحقیقی رپورٹس اس بیانیہ کے لیے ناقابل تردید ثبوت کی حیثیت رکھتی ہیں

سرکاری تعلیمی اداروں کا تو ذکر ہی کیا پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی قومی مفاد کے تابع سمت بندی و نگرانی پر مبنی ایسا کوئی ٹھوس و جامع نظام ہی وضع نہیں کیا گیا جس سے ان کو جملہ پہلوؤں سے ملکی مفاد کے تابع حدود و قیود میں رکھا جا سکتا. لیکن ملکی مفاد سے دلچسپی ہے ہی کس حکمران کو؟ یہ تو ان کے دائرہ توجہ و دلچسپی سے ہی ماوراء ھے. ملکی و قومی مفاد کے الفاظ تو اپنے ذاتی و پارٹی مفاد کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں اور جب مفاد حاصل ہو جاتا ہے تو پھر کونسا ملکی مفاد اور کونسا قومی تقاضا؟ یہ سب یکسر طاق نسیان ہو جاتا ھے.

جب قومی مفادات سے بالاتر، مفادات کی حدود ذاتی و پارٹی مفاد سے شروع ہو کر ذاتی و پارٹی مفاد پر ہی ختم ہوجائے گی تو ہم کیسے تعلیم سمیت کسی بھی شعبے میں اصلاح و بہتری کی امید و توقع رکھ سکتے ہیں؟ جب ہمارا بحیثیت مجموعی کردار کسی ٹھوس قومی نظریہ کے تابع ہونے کی بجائے مجرد ذاتی و سطحی مفاد کی اساس پر ہی استوار ہو گا تو پھر ملکی و قوفی سطح پر بہتری کی کونپلیں کس طرح پھوٹ سکتی ہیں؟ فکری و نظریاتی بحران ہی فی الحقیقت قوم کا وہ مرکزی و اساسی مسئلہ ہے جس کے بطن سے بے سمتی جنم لے رہی ہے اور جو درست سمت میں درست اقدام اور درست ارتقائی نشوونما میں سدراہ ھے.
 

Rauf Saeed
About the Author: Rauf Saeed Read More Articles by Rauf Saeed: 5 Articles with 4784 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.