یومِ شہدا اصل تقاضا

تیس اپریل کو یوم شہدا منایا گیا۔ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو یاد رکھتی ہیں ،انہیں خراج عقیدت پیش کرتی ہیں ان کے کارنامے آنے والی نسلوں سے بیان کرتی ہیں اور شہید تو ایک ایسا ہیرو ہے جس پر کئی کئی نسلیں نازاں رہتی ہیں۔ بہادری سے سینے پر گولی کھائے یہ شیر افسانوی کردار بن جاتے ہیں کہ ان جیسا بننے کی خواہش کئی کئی سینوں میں مچلتی رہتی ہے ۔ پاک فوج کی تاریخ ایسے شہید وں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے ایک طرف کیپٹن سرور سے لے کر حوالدار لالک جان تک یہ درخشندہ ستارے قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں تو دوسری طرف ستاروں کا ایک جھرمٹ وہ بھی ہے جو دہشت گردوں کے وار سے اس ملک کو بچاتے بچاتے شہید ہوتے گئے اور اس کہکشاں کا ستارہ بنتے رہے اور وہ معصوم شہری بھی جو سڑکوں پر، جرگوں میں، جنازوں میں اور یہاں تک خدا کے گھروں یعنی مسجدوں میں دوران قیام، بحالت رکوع یا سربسجود جام شہادت نوش کر گئے۔خدا کے ہاں شہید کے لیے بڑا اجر ہے اور یقیناً یہ شہدا اُس سے مستفید ہو رہے ہو نگے۔ معاشرہ بھی ان کو مکمل عزت اور احترام دیتا ہے اور ہماری افواج بھی اِن شہدا کو ہر موقعے پر یاد رکھے ہوئے ہیں ۔ تیس اپریل کو تمام چھاؤنیوں میں یوم شہدا پورے احترام کے ساتھ منایا گیا جو کہ اِن کا حق تھا اور قوم ہمیشہ اپنے اِن جیالوں کو یاد رکھے گی جنہوں نے اپنی زندگیاں اس کی حفاظت کی خاطر قربان کر دیں اگرچہ اِن کے خاندانوں کی ذمہ داری متعلقہ ادارے قبول کرتے ہیں لیکن پھر بھی جس کرب اور مشکلات سے یہ خاندان گزر رہے ہیں اس کا اندازہ وہی لوگ خود کر سکتے ہیں یا ان سے مل کر ان مشکلات کی صرف ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے ،کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سلسلہ آخر تابکے۔ غیروں کی یہ ایک جنگ جو ہم پر مسلط کی گئی جسے ہم سالہاسال سے لڑ رہے ہیں جس نے ہمارے ملک کو اگر صدیوں نہیں تو کئی دہائیوں تک پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ترقی کا سفر رک کر ترقی معکوس کا سفر بنتا جا رہا ہے، پتھر کے زمانے سے بچاؤ کے لیے جو اقدامات کیے گئے تھے اسی کا نتیجہ ہے کہ عوام بجلی، گیس ، پانی اور علاج جیسی ضروریات سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں بلکہ بہت حد تک ہو چکے ہیں ۔ کچھ کاروبار دہشت گردی کی نظر ہو گئے اور کچھ اس کے ما بعد کے اثرات کی۔ وہ پیسہ جو ان ضروریات پر خرچ ہونا چاہیے تھا اس جنگ کی نظر ہو رہا ہے پورا معاشرہ مفلوج ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طبقہ جو یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح ہمیں غیر ملکی امداد مل رہی ہے وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اس امداد سے اس نقصان کا عشر عشیر بھی پورا نہیں ہوتا جو ہمارا ہو رہا ہے اور اُن خاندانوں کے دکھوں کا تو کوئی مداوا نہیں جہاں بچے یتیم، عورتیں بیوہ ہو چکیں اور جہاں بوڑھے والدین بڑھاپے کا سہارا کھو چکے ہیں اگر ان کی خوشیوں اور مستقبل کے بدلے ہم امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں اور ان کے شکر گزار بھی ہو رہے ہیں کہ وہ ہمیں امداد دے رہے ہیں تو ہم تاریخی جرم کر رہے ہیں یعنی ہم اپنا خون بیچ رہے ہیں ۔ایک ٹی وی چینل پر ہمارے کچھ دانشور اس خوف کا اظہار کر رہے تھے کہ اگر امریکہ نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا تو ہمارے وہ تاجر خاص کر کاٹن مصنوعات کے ،کیا کریں گے ،وہ خاندان جن کا روزگار اس شعبے سے وابستہ ہے کیا کھائیں گے ،ہمیں یہ احسان مان لینا چاہیے کہ ان خاندانوں کا روزگار امریکہ سے وابستہ ہے سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ ان مصنوعات کو ترس کھا کر خرید رہا ہے یا ان کی اس کے ہاں کھپت ہے ۔ایک اور دانشور نے تو حد کردی کہ اگر امریکہ ہمیں امداد نہ دے تو ہمیں اس ہال سے پیدل گھر جانا پڑے گا ۔کیا اس ملک میں کوئی پیدل نہیں چلتا ؟کیا تمام لوگ ٹی وی دانشور ہیں اور خوشحال ہیں؟ کوئی بھی ذی شعور شخص جنگ کے حق میں نہیں لیکن قومی وقار بھی کوئی چیز ہے ہم دوسری اقوام کی خود داری کی مثالیں دیتے ہیں کہ جو میسر نہ ہونے پر پیاز نہیں کھاتے، چینی استعمال نہیں کرتے لیکن ہم خود اس کے لیے تیار نہیں۔ آرمی چیف نے راولپنڈی میں یوم شہدا کی تقریب سے خطاب کرتے ہو ئے با لکل بجا کہا کہ ہم ملک کی خوشحالی کے لیے اپنی عزت اور وقار کا سودا نہیں کریں گے لیکن قوم منتظر ہے کہ کب ان خیالات کو عملی جامہ پہنایا جائے اور خود داری کا ثبوت دیا جائے ۔ چلئیے ایران تو تیل کی دولت پر امریکہ کے سامنے اٹھتا ہو گا تو شمالی کوریا کے پاس کیا ہے، کیو با کیسے امریکہ سے ٹکر لیتا ہے یقیناً صرف خودداری کی بنا پر اور ہمیں تو ٹکر لینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے صرف خود کو اس کی جنگ سے الگ کر نا ہے اور اپنے عوام کی خواہشات اور ضروریات پوری کرنے کا خود کو ذمہ دار سمجھنا ہے اور یہ سوچ بھی ختم کرنی ہے کہ امریکہ مدد نہ کرے تو ہم کھا بھی نہ سکیں ۔رازق خدا ہے اور جس رزق سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو اُس سے تو موت اچھی ہے ۔ ہمارے بزرگوں کا تو یہی وطیرہ تھا ۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ہاتھ کھینچ لیں تو امریکہ کو افغانستان میں بے دست وپا کر سکتے ہیں یہ حقیقت وہ بھی جانتا ہے لیکن نا اہل رہبری کے سبب ہم اُسے دبانے کی بجائے خود دب رہے ہیں ۔اب مزید جوانیا ں اس جنگ میں جھلسانے کے لیے ہمارے پاس نہیں ہیں ۔یہ جوانیاں ہمارے اپنے ملک کی امانت ہیں اگر یہ وطن کی حفاظت کے لیے سر بکف ہیں تو حکومت کو بھی ان کی حفاظت کا خیال رہنا چاہیے انہیں سنبھال رکھنا چاہیے یہ ہمارا آج بھی ہیں اور کل بھی ۔ ان کا خون اتنا ارزاں نہیں کہ دوسروں کی بھڑکائی ہوئی آگ میں جھونک دیا جائے ۔ شہدا کے یہ خاندان چاہے وہ فوجی ہیں ،پولیس سے ہیں یا اُن بے گناہوں کے ہیں جو راستوں میں مارے گئے ہمارے لیے قابل احترام ہیں ان کے دکھ کو ہر پاکستانی دل سے محسوس کر تا ہے اور اسی لیے وہ کسی بھی سخت فیصلے کو بھی قبول کرنے کو تیار ہے چاہے اُس کو پیدل چلنا پڑے۔ اگر چہ اگر یہ جنگ بند کردی جائے تو ہمارے بہت سے وسائل جو ہم ا س آگ میں جھونک رہے ہیں ہمارے کام آنا شروع ہو جائیں گے اور ارباب اختیار کو یہ بھی سوچ لینا چاہئے کہ اب تو شا ئد ہمارے پاس سڑکیں بھی نہ بچیں جو شہدا کے نام سے موسوم کی جا سکیں ۔ اگر چہ بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے تا ہم اب بھی اگر ہمارے حکمران سوچ لیں تو شائد ان کا سجد ہ سہو قبول ہوجائے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 511972 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.