کرونا وائرس کی بیماری کا منتقل کندہ یا کیریئر معلوم نہ ہو سکا

جووبائی مرض جانوروں سےانسانوں میں منتقل ہو اسے زبان طب میں حیواناتی وبا یا زونوٹک انفیکشن کہا جاتا ہے۔ جب کبھی کوئی نئی حیواناتی وبا یا زونوٹک انفیکشن پھیلتا ہے تو طبی ماہرین اور سائنسدان یہ پتہ لگانے کے لئے کہ یہ انفیکشن کس نوع یا سپیشیز کے جسم سے انسان کے جسم میں داخل ہوا ہے شب و روز سرتوڑ جد و جہد میں مشغول ہو جاتے ہیں۔اکثر وبا کے جرثومے اپنے ابتدائی جانوروں کے جسم میں سے ایک منتقل کندہ یا کیریئر (جسے میان ایندہ بھی کیا جاتا ہے) کے اندر داخل ہوتے ہیں جو پھر جرثومے کو انسانوں میں منتقل کرتا ہے۔ منتقل کندہ یا کیریئر (جسے میان ایندہ بھی کیا جاتا ہے) کا علم صحت عامہ کی حکمت عملی کو طے کرنے اور نافذ کے لئے کلیدی حثیت کا حامل ہے۔ منتقل کندہ کا علم محققین کو بیماری کے ارتقا اور روگ جنی کی بہتر تفہیم فراہم کرتا ہے۔

وہ وائرس جو موجودہ وبا(جسے عالمی ادارہ صحت نے کروناوائرس کی بیماری سال 2019 یا COVID-19 کانام دیا ہے) کا سبب ہے، اس وائرس کا تعلق اسی وائرس سے ہے جس کی وجہ سے سارس اور مررس کا مرض ہوا تھا جو انسانوں میں پھیلنے سے پہلے چمگادڑوں میں گردش کرتا تھا اور کسی ممکنہ منتقل کندہ یا کیریئر (جسے میان ایندہ بھی کیا جاتا ہے) کے ذریعے انسانون میں داخل ہوا تھا۔ اگرچہ موجودہ وبا کا وائرس اسی طرح کے راستے سے ہی انسانوں کے پاس آیا ہے لیکن اس وقت ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایک منتقل کندہ یا کیریئر یا میان ایندہ موجود ہے۔ نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ کورونا وائرس بغیر کسی منتقل کندہ یا کیریئر یا میان ایندہ کے براہ راست چمگادروں سے انسانوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔

جووبائی مرض جانوروں سےانسانوں میں منتقل ہو اسے زبان طب میں حیواناتی وبا یا زونوٹک انفیکشن کہا جاتا ہے۔ جب کبھی کوئی نئی حیواناتی وبا یا زونوٹک انفیکشن پھیلتا ہے تو طبی ماہرین اور سائنسدان یہ پتہ لگانے کے لئے کہ یہ انفیکشن کس نوع یا سپیشیز کے جسم سے انسان کے جسم میں داخل ہوا ہے شب و روز سرتوڑ جد و جہد میں مشغول ہو جاتے ہیں۔اکثر وبا کے جرثومے اپنے ابتدائی جانوروں کے جسم میں سے ایک منتقل کندہ یا کیریئر (جسے میان ایندہ بھی کیا جاتا ہے) کے اندر داخل ہوتے ہیں جو پھر جرثومے کو انسانوں میں منتقل کرتا ہے۔ منتقل کندہ یا کیریئر (جسے میان ایندہ بھی کیا جاتا ہے) کا علم صحت عامہ کی حکمت عملی کو طے کرنے اور نافذ کے لئے کلیدی حثیت کا حامل ہے۔ منتقل کندہ کا علم محققین کو بیماری کے ارتقا اور روگ جنی کی بہتر تفہیم فراہم کرتا ہے۔

وہ وائرس جو موجودہ وبا(جسے عالمی ادارہ صحت نے کروناوائرس کی بیماری سال 2019 یا COVID-19 کانام دیا ہے) کا سبب ہے، اس وائرس کا تعلق اسی وائرس سے ہے جس کی وجہ سے سارس اور مررس کا مرض ہوا تھا جو انسانوں میں پھیلنے سے پہلے چمگادڑوں میں گردش کرتا تھا اور کسی ممکنہ منتقل کندہ یا کیریئر (جسے میان ایندہ بھی کیا جاتا ہے) کے ذریعے انسانون میں داخل ہوا تھا۔ اگرچہ موجودہ وبا کا وائرس اسی طرح کے راستے سے ہی انسانوں کے پاس آیا ہے لیکن اس وقت ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایک منتقل کندہ یا کیریئر یا میان ایندہ موجود ہے۔ نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ کورونا وائرس بغیر کسی منتقل کندہ یا کیریئر یا میان ایندہ کے براہ راست چمگادروں سے انسانوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔

2003 میں سارس کا آغاز چمگادڑوں اور دیوار بلیوں کے مابین وائرس پھیلنے کے ساتھ ہوا تھا ، بعد میں دیوار بلیوں سے انسانوں تک پہنچ گیا۔ اسی طرح میں 2012 میرس کے پھیلنے کے دوران منتقل کندہ یا کیریئر یا میان ایندہ ڈرمڈری اونٹ تھے۔

گرچہ کروناوائرس کی بیماری سال 2019 کی وبا جاری ہے، سائنس دان ممکنہ منتقل کندہ یا کیریئر یا انٹرمیڈیٹ میزبانوں کی تلاش کے لئے ماڈل استعمال کررہے ہیں۔ آج (26 مارچ سنہ 2020) تک 416,686 سے زیادہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور 18,589 اموات ہوئیں ہیں اور 197 ممالک کی معثیت تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ وائرس کے جینوم کی پہلی مکمل ترتیب جنوری 2020 میں معلوم ہوئی تھی، جس سے محققین اس قابل ہوئے کہ وہ جانوروں میں پہلے سے موجود اور موجودہ وبا کے وائرسوں کا موازنہ کر سکیں۔

جرنل آف ویرولوجی میں شائع ہونے والے رالف بیریک اور فینگ لی کی کے ایک حالیہ مقالے میں 2003 کے سارس کو کو بطور نمونہ استعمال کیا ہے تاکہ موجودہ کرونا وائرس کی پروٹینوں کی ساخت کو معلوم کیا جاسکے۔ ان کو شواہد ملے ہیں کہ سارس 2003 اور کروناوائرس کی بیماری سال 2019 کے وائرس دونوں کے انسانی خلیوں میں دخول کا طور طریقہ ایک جیسا ہے۔ دونوں وائرس کے اوپر ایک جیسی اسپائک پروٹینز پائی گئی ہیں جو انسانی جسم میں موجود کچھ خاص خلیوں کے اوپر پائے جانے والے انجیوٹینسین کنورٹنگ انزائم 2 ریسیپٹرس (Angiotensin-Converting Enzyme 2 Receptors)کے ساتھ جڑ کر خلیوں میں وائرس کو داخل ہونے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ وائرسز خلیے کے اندر جانے کے بعد انسانی ڈی این اے کو استعمال کرتے ہوئے اپنی کئی نقول یا کاپیاں تیار کر لیتے ہیں۔ پھر یہ خلیہ پھٹ جاتا ہے اور بہت سارے نئے وائرسز باہر نقل آتے ہیں۔

ساخت اور افعال میں مشاہبت سے لگتا ہے کہ کروناوائرس کی بیماری سال 2019 اورسارس آپس میں ملتے جلتے وبائیں ہیں۔ محققین نے جانا ہے کہ سور ، فیریٹ ، بلیوں ، اورنگوتین ، بندر ، چمگادڑ کی کم از کم کچھ انواع اور انسانوں کے انجیوٹینسین کنورٹنگ انزائم 2 ریسیپٹرس
((Angiotensin-Converting Enzyme 2 Receptors کی ساختی مماثلت ہے اس لئے عین ممکن ہے کہ موجودہ وبا یا کروناوائرس کی بیماری سال 2019 کا وائرس مندرجہ جانوروں میں موجود ہو۔

حالیہ مفروضہ یہ ہے کہ موجودہ وباء چمگادڑوں میں شروع ہوئیاور پھر کسی دوسری نوع میں چلی گئی۔ جب کہ ووہان میں ابتدائی طور پر بہت سے کیسز ہوانان سی فوڈ مارکیٹ سے منسلک تھے۔ جہاں سانپ اور پرندوں سمیت سمندری غذا اور جنگلی حیات کو فروخت کیا گیا تھا - لیکن ہر کرونا کے کیس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مارکیٹ میں دستیاب جانوروں کی پیداوار کی وسیع اقسام ، اور بہت سی "مشتبہ انواع" میں انجیوٹینسین کنورٹنگ انزائم 2 ریسیپٹرس
((Angiotensin-Converting Enzyme 2 Receptors میں ساختی مماثلتوں کا مطلب ہے کہ سائنسدان ابھی بھی کروناوائرس کی بیماری سال 2019 کی منتقلی کی کڑیوں کے بارے میں پراعتماد نہیں ہیں۔ لیکن اس تحقیق سے منتقل کندہ یا کیریئر یا میان ایندہ کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا۔ تاہم اس تحقیق کے نتیجے میں کرانا وائرس کی ادویات اور ویکسینز کو ٹیسٹ کرنے کے لئے نئے جانوروں کے ماڈل ملنے کا قوی امکان ہے۔

صنفین نے تجویز پیش کی ہے کہ موجودہ کروناوائرس کی بیماری سال 2019 کے ممکنہ منتقل کندہ یا کیریئر یا میان ایندہ پینگولن ، سانپ اور کچھوے ہوسکتے ہیں۔ مصنفین کہتے ہیں کہ ان نتائج کی تصدیق کے لئے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
امید کرتے ہیں جلد ہی محققین مکمل طور پر جان لیں گے کے اس وبا کا کیرئیر کونساجانور ہے جس سے ہم اس وبا کو دوبارہ پھیلنے سے روک سکیں گے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr. Babar Afzal Chaudhary
About the Author: Dr. Babar Afzal Chaudhary Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.