مہربان کیسے کیسے

میں دفتر سے واپس آ رہا تھا اور صدر میں آ کر کسی بس کی تلاش میں تھا - کچھ دیر انتظار کے بعد مجھے ایک منی بس مل گئی اور میں اس میں بیٹھ کر اس کے بھرنے کا انتظار کرنے لگا - صدر کا علاقہ کراچی کا ایک کاروباری اور بارونق علاقہ ہے اور یہاں ہر طرح کے لوگ اپنی اپنی منزل کی طرف جاتے نظر آینگے - اس دوران مجھے منی بس کی کھڑکی میں سے پھلوں کے ٹھیلے والے بھی نظر آ رہے تھے - اچانک میری نظر ایک نیم پاگل آدمی پر پڑی جو پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھا اور کچھ شرارتی ٹھیلے والے اسے تنگ کرنے کے لئے اس کو چھوٹے چھوٹے پتھر اور پھلوں کے چھلکے مار رہے تھے - اور جب وہ غصّے کا اظہار کرتا تو وہ محظوظ ہو رہے تھے- اسی دوران ایک آدمی اس کے پاس آیا اور اسے اپنے گلے لگا کر اس سے ہمدردی کا اظہار کرنے لگا - میں نے یہ منظر دیکھا تو سوچنے لگا کہ اتنے سارے شرارتی لوگوں میں کم از کم ایک آدمی تو ایسا ہے جو اس نیم پاگل شخص کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر رہا ہے اور اسے تسلی دے رہا ہے - لیکن اگلے ہی لمحے میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس آدمی نے اپنے دوسرے ہاتھ سے شرارتی ٹھیلے والوں کو اشارے کرنے شروع کر دئیے کہ اس پاگل آدمی کو پتھر اور پھلوں کے چھلکے مارنا جاری رکھو یعنی ایک طرف تو وہ اس پاگل شخص کو گلے لگا کر جھوٹی تسلیاں دے رہا تھا جیسے کہ اس سے زیادہ کوئی اس کا ہمدرد نہ ہو اور دوسری طرف شرارتی لوگوںکو اس آدمی کو مارنے کے اشارے بھی کر رہا تھا - یہ واقعہ منافقت کی بڑی مثال ہے - اور اس کو سن کر مندرجہ ذیل کہاوتیں ذہن میں انے لگتی ہیں مثلا بغل میں چھری مونھ پر رام رام، یا بھیڑ کے بھیس میں بھیڑیا - ہمیں زندگی گزارتے ایسے خطرناک لوگوں سے ھوشیار رہنا چاہیے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہر موڑ پہ مل جاتے ہیں ہمدرد ہزاروں
شاید میری بستی میں اداکار بہت ہیں  



 

Iftikhar Ahmed
About the Author: Iftikhar Ahmed Read More Articles by Iftikhar Ahmed: 42 Articles with 90603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.