پاکستان میں کورونا وائرس کا خطرہ

میری اس پوسٹ کا مقصد نہ تو کسی قسم کی مایوسی پہیلانا ہے نہ کوئی خوف، میرا مقصد کرونا وائرس سے متعلق آگاہی فراہم کرنا اور جہاں پر کسی کو زیادہ خطرہ ھے تو اسکو آگاہی دیکر محفوظ کرنا ھے۔

پاکستان میں آج بھی کچھ ادارے پس پردہ بہترین کارکردگی اور جانفشانی سے کام کر رھے ھیں مگر اکثر لوگوں کو انکا نام تک معلوم نہیں۔ NIH, FELTP and NSTOP ایسے ہی ادارے ھیں جو موجودہ کرونا وائرس اور اس جیسے دوسرے خطرناک وائرسز و دیگر اقسام کی بیماریوں پرکنٹرول کیلۓ دن رات کام کر رھے ھیں ، ھزاروں ڈاکٹرز کو بہت پہلے سے ایسے خطرات کیلۓ تيار کیا جا چکا ھے، اس کو پبلک ھیلتھ کہا جاتا ھے، اس میں وبائ امراض کو ھونے سے روکنے اوراگر ھوجائیں تو پھیلنے سے روکنے پر دن رات کام کیا جاتا ھے، مگر چونکہ یہ کام سامنے سے نظر نہیں آتا اس لۓ اس کی افادیت بھی عوام سے اوجھل رھتی ھے، اس کی افادیت کا اندازۂ اس بات سے لگایا سکتا ھے کہ اگر دنیا میں پبلک ھیلتھ کے محکمے نہ ھوتے تو گزشستہ صدی میں سفر کی جدید سہولیات کے بعد جس طرح فاصلے کم ھوگۓ اور وبائ امراض کا تیزی سے پہیلاؤ ممکن ھوا ایسے میں اگر پبلک ھیلتھ کے ادارے دنیا بھرمیں کام نہ کر رھے ھوتے تو قوی امکانات تھے کہ آج دنیا کی آبادی صرف چند لاکھ رھ جاتی، جو بھی معذور اور بیمار افراد پر مشتعمل ہوتی اور جنگلوں پہاڑوں پر ایک دوسرے سے دور ڈر ڈر کر جی رھے ھوتے۔ چیچک کا خاتمہ اور پولیو کو خاتمے کے قریب پہنچانے میں دنیا بھر کے پبلک ھیلتھ کے اداروں کا کردار اور ھزاروں جانوں کی قربانیاں اسکی زندہ مثالیں ھیں۔

مختصر یہ کہ جس طرح ڈاکٹرز بیمار کا علاج کرتے ھیں اسی طرح پبلک ھیلتھ کے ڈاکٹرز اور سائنسدان دن رات بیماریوں کی وجوھات، وائرسز اور ویکسینز وغیرہ پر ریسرچ کرکے کوشش کرتے ھیں کہ بیماریاں ھوں ھی نہ اور اگر خدانخواستہ ھوجائیں تو دوسرے افراد تک نہ پہنچیں اور جلد از جلد کسی بھی طرح انکا خاتمہ کردیا جاۓ۔ کرونا کی وجہ سے آج دنیا میں ھر خاص و عام کو اس طرح کے خطرات کے بارے میں آگاہی ملی ھے مگر حقیقت تو یہ ھے کہ ایسے خطرات ھمیشہ سے موجود رھے ھیں اور آئندہ بھی آتے رھیں گے۔

2015 سے راقم کو بھی ایسے اداروں کیساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا، اپنی ذاتی دلچسپی اور بنی نوع انسانی کے مفاد کے پیش نظر میں نے اس بارے میں اپنی معلومات و تحقیق پر بہت توجہ مرکوز رکھی ھوئ ھے، ھمیں اس طرح کے وائرسز و دیگر خطرات سے آگاھ کرکے مقابلہ کرنے کیلۓ ٹرینڈ کردیا گیا تھا ، دوران ٹرینگز ھمیں CDC (Center for Disease Control) کے تعاون سے تیار کردہ ھالی ووڈ فلم Contagion بھی خصوصی طور پر دکھائ گئ جس میں اسی طرح کے وائرس کے پھیلاؤ کے بعد کی صورتحال کو فرضی طور پر دکھا یا گیا ھے، آجکل اس فلم کو لیکر کافی افواہیں گرم ھیں کہ یہ فلم بھی ثبوت ھے کہ یہ سب جان بوجھ کے کیا گیا ھے مگر حقیقت اسکے برعکس ھے، کرونا نیا وائرس نہیں ھے، دنیا بہت پہلے سے اسکے اور دوسرے خطرناک وائرسز کے بارے میں جانتی ھے اور ان کی روکتھام پر کام کرتی رھتی ھے، نقصان تب ھوتا ھے جب وائرس ایک قدرتی عمل کے دوران اچانک ایک ایسا روپ لے لیتا ھے جو انسان کے لۓ ایک سرپرائز ھوتا ھے اور انسان اسکیلۓ تیار نہں ھوتا، کرونا کے معاملے میں بھی ایسا ھی ھوا ھے۔

ٹرینگز کے دوران ھی ھمیں اسلام آباد کی ان حساس لیبارٹریز تک بھی رسائ دی گئ جہاں اس قوم کے بیٹے اور بیٹیاں دن رات اپنی جانوں کی پرواہ کۓ بغیران خطرناک وائرسز کے درمیان رھ کر ان پر ریسرچ کرتے ہیں، ان کی ویکسینز تیار کرتے ھیں تاکہ اس قوم اور اسکے بچوں پر اگر کوئ بیماری حملہ آور ھو تو ھم اس پر فور" کنٹرول کرسکیں یا ھونے سے پہلے ھی ان سے حفاظت کیجا سکے، ایسے ھیروز کے بارے میں قوم نہیں جانتی، قوم کو پتہ تک نہیں چلتا کہ کس طرح بہت ساری بیماریوں کو ان تک پہنچنے سے پہلے ھی ختم کردیاجاتا ھے، بصورت دیگر جو حال دنیا کا کرونا وائرس نے اب کیا ھے اس سے بھی برا حال پہلے ھی ھوجاتا کیوں کہ اس وائرس سے بھی زيادہ خطرناک وائرسز ماضی قریب میں بھی انسانوں پر حملہ آور ھوۓ ھیں، اور آئندہ بھی ھوتے رھیں گے،دوبارہ یاد دہانی کروادوں کے یہ کوئ نیا وائرس نہیں ھے، بس اس کی یہ قسم تھوڑی مختلف ھے اپنے رشتہ داروں سے، اس لۓ اسکو 'نو ول کرونا' مطلب 'نیا کرونا' بولا جاتا ھے، اس کا اصل نام COVID-19 ھے۔

اس وائرس کے ظھور پذیر ھونے کے بعد سے اس کی قسم، ویکسین اور کنٹرول پر کام تیزی سے جاری ھے مگر تادم تحریر صرف احتیاط ھی واحد کنٹرول ھے۔ یہاں پر کچھ چیدہ چیدہ باتیں عوام سے شیئر کرنا ضروری سمجھتا ھوں،امید کہ یہ آپکیلۓ فائدہ مند ثابت ھونگی۔

وائرس ایک الگ ہی مخلوق ھوتی ھے، یہ جراثیم سے بہت مختلف ھوتا ھے، اسکا شمار نہ زندہ میں ھوتا ھے نہ مردہ میں، یہ ان دونوں کے بیچ کی مخلوق ھوتی ھے، اس میں نقصاں پہنچانے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ کچھ کمزوریاں بھی ھوتی ھیں، اس پر قابو پانے کیلۓ اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ھے۔

اس کی سب سے بڑی کمزوری تو یہ ھے کہ اس کو فعال (زندہ حالت ہی سمجھ لیں) رھنے کیلۓ اپنے شکار کے زندہ خلیات کی فوری ضرورت ھوتی ھے، یہ جراثیم یا پیراسائیٹز وغیرہ کی طرح شکار کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگ دوڑ نہیں کرتا، بلکہ کسی بے جان کی طرح کسی جگہ بے سدھ سا پڑا رھتا ھے،اس دوران اگرمخصوص درجہ حرارت اور مخصوص ٹائیم کے اندر اندر اس کی رسائ مطلوبہ خلیات تک ھو گئ تو یہ ایک غلط پیغام کے ذریعہ ان خلیات کو گمراہ کر دیتاھے جس سے وہ خلیات اپنے جیسے صحتمند خلیات بنانے کے بجاۓ اس وائرس کی کاپیز بنانا شروع کر دیتے ھیں (فوٹو کاپیز کیطرح)، اس طرح متاثرہ جاندار کا اپنا نظام حیات متاثر ھوکر بیماری کی شکل اختیر کر لیتاھے اور و|ئرس کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ بھی بن جاتا ھے ۔

اب ھم صرف کرونا کی بات کر لیتے ھیں، اگر کرونا وائرس کسی متاثرہ انسان کی ناک یامنہ سے نکل کر کسی جگہ پر چپک سا گیا تو کسی کو اس سے تب تک کوئ خطرہ نہیں جبتک کوئ صحتمند انسان اپنی غلطی یا لاعلمی سے اس کو اپنی ناک یا منہ سے اپنے اندر کھینچ نہیں لیتا، مثلا" اس جگہ پر ھاتھ لگا کر وھی ھاتھ منہ کو لگا لینا يا ناک قریب کرکے سانس سے اندر کھینچ لینا وغیرہ.

اس وقت اگر اس وائرس سے بچنے کا کوئ طریقہ ھے تو وہ صرف یہ ھے کہ اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھایاجاۓ، وہ اس طرح کہ ھم ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کر لیں کے کوئ بھی انسان اس وائرس کو اپنے ناک یا منہ کے ذریعے اپنے اندر نہ جانے دے، اگر ھم ایسا کرنے میں کامیاب ھوجاتے ھیں تو بھلے ماحول میں کھربوں کی تعداد میں یہ وائرس موجود ھو یہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاسکتا بلکہ چند گھنٹوں کے دوران ھی یہ ختم ھوجاتا ھے، (عام زبان میں یہ کہا جا سکتا ھے کہ اسکو اگر کھانا نہ ملے تو بھوک اور گرمی سے اپنی موت آپ ھی مر جاتا ھے) یہ اپنے آپ کو بچانے کیلۓ شکار کی تلاش نہیں کرتا بلکہ شکار خود اسکے پاس آتا ھے، اور لاعلمی میں اسکو اپنے جسم میں خود داخل کرلیتا ھے جسکے بعد یہ وائرس طاقتور بن جاتا ھے.

چائنہ میں اس وائرس پر کنٹرول ھونا شروع ھوگیا ھے مطلب یہ نہیں کہ وھاں وائرس ختم ھوگیا ھے (اب بھی ان گنت وائرسز چائنہ میں موجود ھیں) مگر ان لوگوں نے وائرس کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور ایسے اقتدامات کۓ ھیں کہ وائرس انکے منہ تک نہ پہنچ سکے، ایسا کرنے سے وائرس اپنی موت آپ کے تحت کمزور اور آخر میں ختم ھوجاتا ھے۔

پاکستان میں اگر عوام میں شعور بیدار نہں ھوا اور خدانخواستہ اسنے وبائ شکل اختیار کرلی تو بہت نقصان ھوسکتا ھے، اسکو روکنا کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں اگر عوام خود احتیاط نہ کریں۔

راقم نے ایک چھوٹی سی تحقیق کی جس سے یہ بات سامنے آئ کہ ایک ایسی جگہ اب بھی دنیا بھر کے مسلمانوں اور حکومتوں کی نظروں سے پوشیدہ ھے جہاں سے یہ وائرس آسانی سے ایک سے ھزاروں لوگوں میں منتقل ھوسکتا ھے,

وہ جگہ مساجد ھیں جہاں پر اللہ کے پیارے بندوں کو نماز با جماعت پڑھنے کی سعادت نصیب ھوتی ھے، سجده كے دوران مختلف نمازیوں كی ناک اور منه جائے نماز / صف یا قالین وغیرہ كی ایک هی مخصوص جگه پر بار بار یا تو ٹكراتے هیں یا بہت زیاده قریب هوجاتے هیں (محفوظ فاصله ایك میٹر ھے جو اس وقت ختم ھوجاتا ھے), اگر متاثره فرد سے وائرس اس جگه منتقل هوا تو وه اگلی جماعت كے نمازیوں میں منتقل هو سكتا هے.

سجدہ کا دورانیہ سیکنڈز سے لیکر منٹوں تک کا ھوتا ھے، اس دوران نمازی کی سانسیں کافی مرتبہ سطح سے ٹکراتی ھیں، اگر خدانخواستہ کوئ شخص وائرس سے متاثر ھوا ھے تو اسکی ناک/منہ سے رطوبت، چھینک یہاں تک کےسانس کے ذریعہ سے بھی وائرس سطح پر منتقل ھو سکتا ھے، وھاں پر وائرس تقریبا" 9 گھنٹے تک رھ سکتاھے، صفوں پرنمازیوں کے چلنے پھرنے سے یہ پاؤں سے چپک کر دیگر صفوں اور جگہوں پر منتقل ھوسکتا ھے، عموما" مختلف نمازوں کے بیچ کا دورانیہ 9 گھنٹوں سے کم ھوتا ھے جسکا مطلب کے وائرس ابھی فعال حالت میں ھی ھوگا تو دوسری جماعت کھڑی ھو جاۓ گی، سجدہ کے دوران سانس لینے سے یہ وائرس صحتمند نمازی کے اندر داخل ھوسکتا ھے، وھاں پر بڑھتا جاۓ گااوراس نمازی پر غلبہ پانے کے بعد اسکے ذریعہ سے بھی دوسرے نمازیوں میں پھیلتا جاۓ گا۔

میری اپنی ایک ذاتی راۓ ھے جوکہ غلط بھی ھوسکتی ھے وہ یہ کہ ایران میں وائرس کے آئوٹ آف کنٹرول ھونے کی ایک وجہ مساجد کی طرف دھیان نہ دینا بھی ھو سکتا ھے، زیارات، عمرہ اور حج کرنے والے افراد اگر باقاعدہ نماز کے پابند نہ بھی ھوں تب بھی وہ ان برکات والے مقامات پر عموم" حتی الامکان کوشش کرتے ھیں کے باقاعدگی سے نمازیں با جماعت ادا کی جائیں , ایسے میں اگر حفاظتی اقدامات نہ لۓ گۓ تو مجھے خطرہ ھے کہ یہ وائرس مسلمان ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی بنسبت بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتا ھے.

- اسلامی تاریخ میں جنگ خندق كےموقعے پر جب مسلمانوں کے مقابلے میں دشمن کالشكر زیادہ طاقتور تھا تو مسلمانوں نے اپنے اور دشمن کے بیچ میں ایک خندق بنا دی تاکہ مسلمانوں کی حفاظت ہو سکے, اس كو حكمت عملی یا تدبیر كهتے هیں. اسلام ھمیں حالات کے حساب سے تدبیر اختیار کرنا سکھاتا ھے، اس لۓ اس وقت ضروری ھے کہ حالات کی بہتری تک ھم احتیاط کریں، اس وائرس کو اپنا طاقتور دشمن تصور کرتے ھوۓ اسکے اور اپنے درمیان ایک احتیاط کی خندق قائم کردیں.

"نمازیوں كے لیے خصوصی ھدایات"

- وضو بہتے ہوئے پانی سے کریں یا بہتر ہے گھر سے کرکے جائیں, ایسے پانی سے وضو نہ کریں جو حوض وغیره میں كهڑا هو اور استعمال کے بعد دوباره اسی میں شامل ہو جاتا ہو.

-جائے نماز یا صاف چادر گهر سے لے جائیں, ممكن ھو تو ھر نماز میں نئی چادر لے جائیں اور پرانی كو دھو ڈالیں (گرم پانی اور ڈٹرجنٹ سے).

-مصافحہ کرنے اور گلے ملنے سے اجتناب کریں, اگلے كے ناراض ھونے كا ڈر ھو تو بتادیں كه سب كی حفاظت كیلیے فی الحال ملنا مناسب نهیں.

-مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے دوران ماسک ضرور استعمال کریں.

-ماسک كا استعمال هر شخص كو ضرور كرنا چاهیے, یه غلط تاثر ھے كه اس كی ضرورت هر كسی كو نہیں , ماسک سے كرونا كے علاوه فضائی آلودگی, الرجی, مختلف اقسام كے جراثیم, وائرسز اور دیگر سانس كے امراض سے بهی حفاظت ھوتی ھے, ماسک كے استعمال سے خود كو اور اردگرد كے افراد كو كرونا وغیرہ سے بچاؤ كے ساتھ ساتھ اس كے ممکنہ پھیلاؤ كو بهی روكا جا سكتا ھے.

ماسک یا سینیٹائزر کی عدم دستیابی سے پریشان نہ ھوں، مہنگے داموں خریدنے سے انکار کرکے ذخیرہ اندوزوں کی حوصلہ شکنی کردیں، یہ چیزیں گھر میں ھی تیار کی جا سکتی ھیں، بس یہ خیال رکھیں کہ ناک کی اوپر والی سائیڈز بھی بند ھوں ورنا ھوا وھاں سے آتی جاتی رھے گی۔

اللہ سب انسانوں کو اس مصیبت سے اپنی حفاظت میں رکھے، اگر آپکو لگے کہ یہ پوسٹ دنیا بھر کے مسلمانوں، نمازیوں و دیگر انسانوں کے لۓ فائدہمند ھوسکتی ھے تو اسکو ھر پلیٹفارم پر شیئر یا کاپی پیسٹ کرکے پہیلادیں، ھوسکتا ھے آپ کی کوششوں سے کوئ انسان کسی نقصان سے بچ جاۓ، ھر انسان کی زندگی بہت انمول ھے, چاھے وہ کسی بھی رنگ نسل یا مذھب سے تعلق رکھتا ھو۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Dr. Naveed Mustafa Kanju
About the Author: Dr. Naveed Mustafa Kanju Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.