عورت کی آزادی! مگر کس سے؟

تاریخ گواہ ہے کہ عرصۂ دراز سے عورت معصوم چلی آ رہی ہے۔ یونان ، مصر، عراق، ہند، چین غرض ہر قوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں عورتوں پر ظلم و نا انصافی کے پہاڑ نا ٹوٹے ہوں۔ لوگ اسے اپنی عیش و عشرت کی غرض سے خریدو فروخت کرتے تھے، ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی برا سلوک کیا جاتا تھا، حتیٰ کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو مؤجب عار سمجھتے تھے اور زندہ لڑکیوں کو درگور کر دیا جاتا تھا۔ہندوستان میں شوہر کی چتا پربیوی کو جلا دیا جاتا تھا۔ واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ ، معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے ۔ اس سے تعلق رکھنا روحانی ترقی میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ دنیا کی زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولاد نرینہ کی تابع اور محکوم تھی۔اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر اقتدار حاصل تھا، یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق نہیں تھا۔اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ بعض مرتبہ عورت کے ہاتھ میں زمانہ اقتدار بھی رہا ہے اور اس کے اشارے پر حکومت و سلطنت گردش کرتی رہی ہے، یوں تو خاندان اور طبقے پر اس کا غلبہ تھا، لیکن بعض مسائل میں مرد پر بھی ایک عورت کو بالادستی حاصل رہی، اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں جہاں عورتوں کا بول بالا ہے۔مغربی تہذیب بھی عورت کو کچھ حقوق دیتی ہے مگر عورت کی حیثیت سے نہیں بلکہ یہ اس وقت اس کو عزت دیتی ہے جب وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے پر تیار ہو جائے۔ موجودہ دور میں بحث و تمحیص اور احتجاج کے بعد عورت کے کچھ بنیادی حقوق تسلیم کئے ہیں ۔ اب پھر سے عورتوں کے حقوق کیلئے احتجاج ہو رہے ہیں ، جن میں نازیبا اور غیر شرعی و غیر اخلاقی پلے کارڈ پر نعرے لکھے جا رہے ہیں۔مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ عورتوں کو زندگی کے ہر پہلو میں آزادی دی جائے، انہیں کب ، کتنے اور کس کے بچے پیدا کرنے ہیں ، انہیں معاشرت اور سماجت کی مکمل آزادی چاہئے، انہیں بے حیائی سے نہیں روکا جائے، انہیں شوہر کی عزت کرنے کا نہیں کہا جائے، نکاح کو ختم کیا جائے۔نیز یہ کہ عورت ہر پہلو میں مرد سے آزادی چاہتی ہے۔ حالانکہ یہ فطرت کے بالکل منافی ہے۔ یہ چاہتی ہے کہ پھٹی جینز، تنگ شرٹ ، ہاتھ میں سمارٹ فون ، ہزاروں کا میک اپ، کھلے بالوں کو شانوں پر گرا کر، مہنگے ترین پرفیوم جس کی خوشبو بازار بھر کو اس کی طرف راغب کرے اور بیضوی شیشے والی عینک آنکھوں پر لگا کر جیسے چاہے مرضی پھرے ۔ اگر کوئی ٹوکے تو وہ تنگ نظر ،اور پتھر کے زمانے کا ہے۔ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ماروی سرمد اور اس کی حواری خواتین کونسی آزادی چاہتے ہیں؟ یہ میرا جسم میری مرضی سے مراد ان کے مطالبات کی مد میں تو صرف بے حیائی ہی نظر آتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کے ساتھ ظلم نہیں ہو رہا، ہو رہا ہے اور ہم ان تمام مظالم کے خلاف اسی طرح کھڑے ہیں جیسے ہر ذی شعور کھڑا ہے۔ انسان کی ترقی کا دارو مدار علم پر ہے، کوئی شخص یا قوم بغیر علم کے زندگی کی تگ و دو میں پیچھے رہ جاتا ہے۔اور اپنی کند زہنی کی وجہ سے زندگی کے مراحل میں زیادہ آگے نہیں سوچ سکتا اور نہ ہی مادی ترقی کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عورت سے بیزاری اور نفرت کوئی زہد و تقویٰ کی دلیل نہیں ہے ۔ معاشرہ میں عزت معاشی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے جو جاہ و ثروت کا مالک ہے لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس کے پاس نہیں ہے لوگ اس کے قریب سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ مغربی تہذیب نے عورت کی اس مظلومیت کا مداوا کرنا چاہا ، اور عورت کو گھر سے باہر نکال کر انہیں فیکٹریوں اور دوسری جگہوں میں کام پر لگا دیا ۔ اس طرح عورت کا گھر سے نکل کر کمانا بہت سے دیگر خرابیوں کا مؤجب بنا ہے۔ کئی جگہوں پر لڑکیوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے، ان کی مرضی کے بغیر ان کی شادی کر دی جاتی ہے، ان کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا جاتا، بیویوں کے حقوق تلف کرنے کی مذموم حرکات کی جاتی ہیں ،معاشرت کے معنی مل جل کر زندگی گزارنے کے ہیں لیکنعورتوں کو معاشرتی مقام سے محروم رکھا جاتا ہے، انہیں اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کا حق نہیں دیا جاتا ۔ اور یہ صرف اسی وجہ سے ہے کیونکہ پاکستان میں نظام شریعت کا نفاذ پوری طرح سے نہیں ہو پایا ہے۔ ہمیں اس وقت ادیان سے آزاد ہو کر منطق پر یقین کرنا چاہئے جب ادیان فطری تقاضوں کی نفی کر رہے ہوں ۔ جبکہ اسلام تو ہے ہی دین فطرت۔ اگر ہم اسلام میں عورتوں کے حقوق کا مختصر سا جائزہ لیں تو باآسانی سمجھ آتا ہے کہ اسی دین فطرت میں ہی تمام مخلوقات کی بقا ہے۔ اسلام نے عورتوں اور مردوں کو آزادی کا مساوی حق دیا ہے خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی۔ اس کو مکمل حق ہے کہ وہ آزادی رائے کا اظہار کرے۔ اسلام میں مردوں کو مخاطب کر کے عورتوں کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تم کو نا پسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز نا پسند کرو اور اﷲ اس میں خیر کثیر کر دے۔ بیوی کیلئے مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی کیلئے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل و عیال کیلئے تم سب سے بہتر ہو۔ وہیں عورتوں کو اپنے لئے شوہر چننے کا مکمل حق دیا گیا ہے۔ عورت کی رضا مندی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ انہیں خلع کا حق بھی دیا گیا کہ اگر انہیں شوہر پسند نہیں تو وہ ان سے علیحدگی کر سکتی ہیں۔ لیکن ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ اگر عورت ایسے شخص سے نکاح رچانا چاہے جو فاسق و فاجر اور کافر ہو تو ایسی صورت میں اس کے خاندان کے بزرگ ضرور اس میں مداخلت کر سکتے ہیں۔عورت کے تمام معاشی سطح پر بیٹی ہو باپ کی ذمہ داری، بہن ہو تو بھائی کی ذمہ داری، بیوی ہو شوہر کی ذمہ داری اور اگر ماں ہو تو بیٹے کی ذمہ داری بنایا گیا ہے، یعنی عورت کا نان و نفقہ ہر صورت مرد کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔اس طرح وہ مغربی تقلید جو عورت کو چار دیواری سے نکلنے پر مجبوری کرے رد ہوتی ہے اور عورت ایک عزت دار زندگی گزار سکتی ہے۔ معاشرت یہ ہے کہ ایک عورت بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے گھر کی ملکہ اور اس کے بچوں کی معلم و مربی ہے۔ اسلام مر د و عورت دونوں پر علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیتا ہے۔ ان تمام بناؤں پر مرد و عورت کو اسلام ایک جیسا انسان اور ایک جیسے حقوق دیتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس مکمل ضابطہ حیات کے سامنے کوئی بھی نظریہ یا ضابطہ حیات ماند پڑجاتا ہے۔ تو ان نعرے لگانے والیوں اور اپنے حقوق کی علمبر دار خواتین سے میرا سوال ہے کہ اگر وہ واقعی عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں تو ان کا صرف ایک ہی نعرہ ہونا چاہئے تھا کہ پاکستان میں شریعت اسلام کا نفاذ یقینی بنایا جائے ، کیونکہ اسی میں ہی تمام انسانوں کی بقا ہے۔
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 168117 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More