بنوری ٹاؤن

جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ایک درسگاہ ہی نہیں, ایک ادارہ ہی نہیں بلکہ ایک تحریک کانام ہے,ایک مرکزبلکہ ایک مکتبہ فکر کا عنوان ہے- بچپن سے بنوری ٹاؤن کے نام کے ساتھ عقیدت،محبت اور وابستگی کا ایک انوکھا سارشتہ استوار ہوا ہے جس رشتے اور وابستگی کو کبھی الفاظ کا جامہ پہنا سکا نہ کبھی تعبیردے سکا- مادر علمی کی اصطلاح توہمارے ہاں معروف ہے اگر مادر علمی کی بھی کوئی مادر ہوا کرے....مادر علمی کاکوئی منبع اور سرچشمہ کہلاتا ہو......مادر علمی سے اوپر کی کوئی نسبت ہواکرے تو وہ ہمارے لیے جامعہ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ہے کیونکہ ہماری مادر علمی جامعہ فریدیہ بنوری ٹاون کا ہی فیضان ہے اور ہمارے اکثر محبوب اساتذہ ومربی اسی ادارے کے فیض یافتگان ہیں-

جب جب کراچی آنا ہوتاہے،کراچی کے جس حصے میں بھی ہوں بنوری ٹاؤن اپنی طرف کھینچتاہے۔ایسی کشش،ایسی اپنائیت،ایساسکون کہ نہ پوچھیے میرے بس میں ہو تو ہر شام بنوری ٹاؤن کی مسجد اور مسجد کے جنوبی حوض کے کنار ے جا کر بیٹھ جایا کروں اورجامعہ میں چلتی پھرتی بہاروں اور انوارات کے نظارے کیا کروں-

جامعہ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں اورکچھ نہ ہوتا صرف ایک مسجد ہی ہوتی تو بھی ہم ایسے تشنگان علوم اور متلاشیاں سکون کے لیے بہت تھی ……نورانی چہروں کی چہل پہل.....جھوم جھوم کرقران پڑھتے معصوم بچے......مسجد کے ہر حصے سے بلند ہوتی قال اﷲ وقال الرسول کی صدائیں.....خوشگوار ہوائیں...شام ہوتے ہی ٹھنڈک اور نمی کا موسم میں اترنا ایسے میں کوء بندہ بنوری ٹاؤن کی مسجد,مسجد کی راہداریوں،صحن یاحوض کے کناریبیٹھا ہوتو یہ ٹھنڈک, یہ نمی,یہ ہوا دل میں اترتی محسوس ہوتی ہے اور سب صدائیں کانوں میں رس گھولتی ہیں خاص طورپر بنوری ٹاؤن کی مسجد کے بلند وبالا میناروں سے جب اذان کی آواز گونجتی ہے تو انسان مسحور ہوجاتا ہے اور پھر نماز تو انسان پر عجیب ہی کیفیت طاری کرتی ہے-

بنوری ٹاؤن کے ایک گوشے میں چار قبریں ہیں.....یہ چار قبریں نہیں بلکہ چار عہد ہیں علامہ سید محمد یوسف بنوری,مفتی احمدالرحمن،مولانا ڈاکٹر حبیب اﷲ مختار تین زمانوں کا عنوان ہیں۔ایک ایک کا قصہ لے کر بیٹھیں تو زمانے بیت جائیں, وہ جو کہتیہیں ناں کہ فلاں اپنی ذات میں انجمن تھا۔یہ تینوں ہستیاں اپنی ذات میں واقعی انجمن تھیں.....پورے پورے عہد کانام....اپنی اپنی جگہ ایک تحریک....اپنی اپنی حیثیت سے جگمگ جگمگ کرتی کہکشائیں.....قوس قزح کی طرح بکھرے رنگ.....ان تینوں ہستیوں اور ان کے عہد پر لکھنا چاہیں تو بات بہت دور نکل جائے گی....کاش کوئی مرد خدا ہمت کرے اور بنوری ٹاؤن اور اس کے باغبانوں کے گرد پھیلی تاریخ قلمبند کرے اور پھر بنوری ٹاؤن کے فیضان کو سمیٹنے کی سعی کرے کہ اس درسگاہ کے خوشہ چینوں کو رب ذوالجلال نے کس مقبولیت اور قبولیت سے نوازا ہے ……اب کی بار گلشن بنوری کے مہکتے ہوئے پھول برادرمکرم صاحبزادہ مولانا طلحہ رحمانی صاحب کی معیت میں بنوری ٹاؤن کو پھر سے دیکھا-مولانا طلحہ رحمانی حضرت بنوری کے نواسے اور حضرت مفتی احمد الرحمن کے بیٹے ہیں ان دنوں وفاق المدارس کے میڈیا کا محاذ سنبھالے ہوئے ہیں-برادر گرامی حاجی سلیم صاحب اور عزیزم اعجازساتھ تھے،سلیم بھاء اسلام آباد سے روانہ ہوتے ہوئے اور سفر میں بارہا بنوری ٹاؤن کو دیکھنے کی تمنا کرتے آئے- طلحہ بھائی سے ان کی بے تابی کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بنوری ٹاؤن پھر سے دکھایا اور حق ادا کر دیا بارہا حاضری کے باوجود یوں لگ رہا تھا جیسے آج بنوری ٹاون پہلی حاضری ہے-

اﷲ اﷲ کیا دنیا ہے ……کیا جہاں ہے؟.....اس کے پہلوسے گزرجانے والے کیا جانیں کہ یہاں کیا کیا رنگ ہیں..... پہلو سے گزرنے جانے والوں کی بات نہ کیجیے میرے جیسے بہت سارے بنوری ٹاؤن کی مسجد میں نماز پڑھ کر ہی لوٹ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہم بنوری ٹاون سے ہو آئے بلکہ وہ بھی جنہوں نے برسوں اس درسگاہ میں پڑھا سوچتا ہوں انہیں بھی پھر سے لوٹ کرآنا چاہیے,بار بار آنا چاہییاور کچھ وقت بنوری ٹاوٓ ن میں ضرور رہنا چاہیے....پھر سے بنوری ٹاؤن کو دیکھنا چاہیئے.....پھر سے بنوری ٹاؤن کو سمجھنا چاہیئے.....پھر سے بنوری ٹاؤن کو پڑھنا چاہیئے....اگر کسی کے پاس آنے اور رہنے کی فرصت نہ ہو تو بینات کے خصوصی نمبرز لے لے اور انہیں پڑھا کرے۔ گزشتہ برس سفرحرمین کے دوران برادر کبیر پیر عزیزالرحمن رحمانی نے اپنے والد گرامی حضرت مولانا مفتی احمدالرحمن صاحب کے حوالے سے چھپنے والا خاص نمبر عنائت فرمایا,اسے جوں جوں پڑھتا گیاحیرت میں ڈوبتا چلا گیا,پچھتاوا تھا کہ پہلے یہ سب کیوں نہ پڑھا? حضرت بنوری کو تو پہلے سے پڑھ رکھا تھا لیکن حضرت مفتی صاحب کے بارے میں حیرت واستعجاب کے بہت سے دروا ہوئے۔سوشل میڈیا کی چکا چوند سے متاثر ہوجانے والے, بدلتے وقت کے میلوں میں اپنے نظریات گم کر آنے والے

اور آدھے تیتر آدھے بٹیر نما مدارس کے بھگوڑوں کے بھاشن سن سن کراپنے اکابر کی ناقدری کے مرض میں مبتلا ہو جانے والے نو وارد فضلاء مدارس دینیہ کے ہر مرض کا ''تریاق''یہ ہے کہ انہیں اپنے اکابر کی سوانح اور کردار وخدمات سے روشناس کروایاجائے,انہیں بتایا جائے کہ حضرت بنوری کون تھے اور بنوری ٹاون سے لے کر دارالعلوم دیوبند تک اور دارالعلوم دیوبند سے لے کر صفہ کے چبوترے تک کیسے کیسے چراغ جل رہے ہیں کیسے کیسے آفتاب و مہتاب روشنیاں بانٹتے رہے ہیں اور کیسے کیسے ستارے جگمگ جگمگ کرتے ہیں-

مولاناطلحہ رحمانی نے بنوری ٹاؤن کی پانچ لائبریریوں کے بارے میں بتایا, ان کا دورہ کروایا،حضرت مولاناعبدالحلیم چشتی کی ایسی انمول کتابیں جن کا کتابوں کے قدر دانوں نے کروڑوں روپے ریٹ لگایا تھا پتہ نہیں حضرت چشتی صاحب کے دل میں کیا آء کہ سب بنوری ٹاؤن کے مکتبے کو دے دیں، ٹھٹھ سندھ سے کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہاتھ لگا,مفتی نظام الدین شامزئی کی کتابیں ان کے سعادت مند بیٹوں نے امت کی امانت سمجھ کر بنوری ٹاون کو ہدیہ کردیں اور اب لائبریریاں نہیں بلکہ کتابوں کے مخزن ہیں بنوری ٹاؤن کے پاس..... جنہیں ڈیجیٹائز اور آن لائن کرنے کے لیے محنت جاری ہے۔اﷲ رب العزت آسانی والامعاملہ فرمائے۔

بنوری ٹاؤن کی توسیع اور تعمیر نو کاکام اتنی مہارت, اتنی خاموشی اور اتنے عمدہ اندازسے جاری ہے کہ سن کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔

ایک جدید ہسپتال قائم کیا جاچکا، عالیشان آڈیٹوریم، جدید میٹنگ ہال جہاں وفاق المدارس, بنوری ٹاؤ ن اور دیگر اجلاس ہوتے ہیں۔بنوری ٹاون کی درسگاہوں اوردارالحدیث کو دیکھ کر حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب,مولانا ادریس میرٹھی صاحب,مولانا مصباح اﷲ شاہ صاحب,مولانا نظام الدین شامزئی شہید,مولانا مفتی عبدالسمیع شہید اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدکی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں,مفتی جمیل خان شہید اور مولانا سعیدجلالپوری شہید کی خوشبو مہکنے لگتی ہے-اﷲ اﷲ کیا لوگ تھے?کیا عہد تھا?

صرف بنوری ٹاون کے اکابر ہی نہیں اپنے بنوری ٹاون سے کسب فیض کرنے والے اساتذہ کرام مولانا محمد عبداﷲ شہید,مولانا عبدالعزیزصاحب,مولانا عبدالغفار صاحب,
مولاناعبدالغفور صاحب,
مولانا مفتی محمد امین صاحب,مولانا مفتی محمد فاروق صاحب اور مولانا مفتی عبدالنور صاحب سب ہی یاد آئے مگر سب سے بڑھ کر اپنے محسن مولانا سردار علی صاحب رحمہ اﷲ بہت یاد آئے-مولانا سلمان بنوری کے پاس زیمبیا سے مولانا ایوب صاحب نامی کوء مہمان تشریف لائے ہوئے تھے ان کی وجہ سے مولانا سردار علی صاحب(جوآخری عمر میں بنوری ٹاون کی تشکیل پر زیمبیا چلے گئے تھے) تو گویا بنوری ٹاون کے ہی نہیں دل کے بھی دروازے پر آ کھڑے ہوئے-اﷲ رب العزت ان سب ہستیوں پر اپنی رحمتوں کی بارش برسا دیں جو حیات ہیں انہیں صحت و سلامتی والی زندگی عطا فرمائیں-آمین

دلچسپ امر یہ کہ بنوری ٹاؤن کے اندر جم بھی قائم کیاگیا ہے۔ میرادل چاہتا ہے کہ مدرسے میں داخل ہونے والے ہر طالبعلم کے دیگر کوائف کی طرح اس کے وزن کا بھی اندراج ہوناچاہئیاور تعلیمی نشیب و فراز پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی صحت اور جسمانی کمی زیادتی کی بھی مانیٹرنگ ہونی چاہیے اورجم ہر مدرسہ کا لازمی حصہ ہو-

بنوری ٹاون کا مطعم و مطبخ بھی بطور خاص قابل ذکر ہیں-

ہمارا کھانا پہلے سے کسی جگہ طے تھا لاکھ انکار کیا لیکن طلحہ بھائی دستر خوان پر لے گئے,صرف دعوت قبول کرنے اور چکھنے کی نیت سے بیٹھے لیکن ایسالذیذ کھانا کہ چھوڑا ہی نہ گیا,اٹھا ہی نہ گیا-مطبخ دیکھا,مالی نظام کا جائزہ لیا،وفاق المدارس کے دفتر میں حاضری دی۔بنوری ٹاؤن کے اس وقت کے باغبان حضرت اقدس مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب, یادگار حضرت بنوری صاحبزادہ سلمان بنوری صاحب دیگر اساتذہ کرام بالخصوص شعبہ تحفیظ کے ذمہ دار باغ و بہار شخصیت مولانا قاری زبیرصاحب اور دیگر سے ملاقاتیں رہیں،ناظم تعلیمات مولانا امداد اﷲ صاحب کی کمی شدت سے محسوس ہوء-

مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کیا سراپا شفقت و رافت ہستی ہیں-عرب و عجم میں یکساں محبوب,وفاق المدارس,عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور بنوری ٹاون جیسے اداروں کے میر کارواں لیکن کیا تواضع,کیا اصاغر نوازی اور کیا خوش اخلاقی کا پیکر ہیں انہیں دیکھ کر اسلاف کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں-علالت اورپیرانہ سالی کے باوجود الحمدﷲ ہم سب کے لیے اور بہت سے دینی سلسلوں کے لیے ایک سائبان ہیں,برادر گرامی مولانا سعید اسکندر جیسا سعادت منداورباصلاحیت بیٹا صرف بیٹا نہیں بلکہ معاون,سیکرٹری,خادم,مشیر,سفر و حضرکا ساتھی اﷲ رب العزت نے عطا فرما کر بہت سے کام سہل کر دئیے-الحمدﷲ

اسی طرح صاحبزادہ مولانا سید سلمان بنوری جن کا خمیر ہی علم و عمل اور حسن انتظام سے اٹھا اور انہوں نے اپنے والدگرامی کے لگائے ہوئے گلشن کی آبیاری کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا ہے اور استاذ العلماء مولانا امداد اﷲ جیسی منتظم ہستی کے ہاتھوں میں اس وقت بنوری ٹاون کا انتظام و انصرام ہے-اﷲ رب العزت سب کو صحت و سلامتی والی عمر دراز عطا فرمائیں-آمین

یاد رہے کہ جامعہ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاون صرف ایک مدرسہ نہیں بلکہ پورا نیٹ ورک ہے جس میں مجموعی طور پر 16000سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ بنوری ٹاون کی ایک ایک شاخ ایکڑوں پر محیط ہے، کروڑوں روپے مالیت کی عمارتیں،ماہانہ بھاری بھرکم بجٹ۔یہ سب محض اﷲ رب العزت کی رحمت سے ہی ممکن ہے، بنوری ٹاون حقیقی پاکستان ہے......ایک دنیا ہے......ایک جہان ہے..... اسے دیکھنے کی..... اسیسمجھنے کی.....اس سے استفادہ کرنے کہ اور اس سے وابستہ ہونے کی ضرورت ہے۔۔

اﷲ رب العزت اسے دن دوگنی رات چوگنی ترقی نصیب فرمائیں اور اس کی بہاروں میں اضافہ فرمائیں-آمین

Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 130709 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.