اندر کا کانچ

میں نے سوچا کہ یہ دیوانہ کوئی مجنوں یا پاگل ہے جو آج کے دور میں کشف کی باتیں کرتا ہے جو من کی دنیا کے راز کھلی آنکھوں سے دنیا تک پہنچا رہا ہے جو یہ کہتا ہے کہ دنیا میرے پاس نہیں لیکن معرفت کے افق میں اڑنے والے جہاز کا ٹکٹ میں تمہیں ضرور دے سکتا ہوں. میرے پاس جگ کی دولت ہے میرے پاس اس دربار کا پتہ ہے جہاں سے کوئی سوالی خالی نہیں لوٹتا.

اس کی قمیض کے بٹن کھلے تھے اور وہ یہی کہتا تھا کہ میرے پوشاک کی قیمت کا نہ سوچو بلکہ اپنے روح کے جسم کو ایمان کی چادر سے ڈھانپ لو میں نے دنیا کو طلاق دے دی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ تم نہیں دے سکتے. اس لگن میں خود کو اتنا انجان نہ کر لو کہ تمھاری شناخت ختم ہو جائے. یہ شہر کی فصیل والا دیوانہ تھا کوئی اس کا نام نہیں جانتا تھا سب اسے فصیل والا بابا کہتے تھے اور اگر کوئی اس سے اس کا نام پوچھ لیتا تو یہ یہی کہتا " میں ہر ایک دور میں آیا ہوں اور میں ہر اک دور میں رہوں گا – میرا نام کتب دین ہے، فرید الدین ہے ، تاج الدین ہے ، شمس تبریز ہے ، اویس قرنی ہے ، گنج شکر ہے – کون سا نام جاننا چاہو گے ؟ کون سا نام تمہیں بتاؤں ؟"

شہر کی فصیل پہ کھڑا وہ با آواز بلند کہہ رہا تھا " میں بھی کبھی شہباز تھا ! رحم کھانے کے لیے زمین پہ بلوایا گیا ". شہر کی یہ فصیل شہر والوں کے لے نئی نہیں تھی ، اکثر من چلے یہاں وقت گزارتے تھے ، یہ فصیل شہر سے باہر تھی اور ویرانے میں مگر جب سے فصیل والا بابا یہاں آباد ہوا ان منچلوں کا دل اب اس فصیل کے پاس نہ لگتا تھا کیونکہ وہ کشف کی باتیں کرتا تھا . وہ اکثر کہتا " وہ سب ایک ہیں ان کے نام الگ الگ ہیں مگر کام ایک سا تھا ، وہ رحم کھانے زمین پہ اتارے گئے اور پھر چلے گئے ، ان کا فیض آج بھی جاری ہے ........".

میں فصیل والے بابے کو نہیں مانتا تھا مگر پھر ایک دن اس نے مجھے میرے اندر کا کانچ دکھایا . میرے اندر کا کانچ ٹوٹا ہوا تھا . فصیل والا بابا ٹھیک کہتا تھا ......... فصیل والے بابے کی کہانی میں میرا کردار ایسے ہی ہے جیسے کسی فلم میں اکسٹرا کا ہوتا ہے . میں بھی اسی فصیل کے پاس جاتا تھا مگر میں کبھی بھی فصیل والے بابے کی بات نہ سنتا . کبھی کبھی مجھے ایسے لگتا کہ فصیل والا بابا مجھ میں بستا ہے . یہ ڈر مجھے اس سے دور رکھتا ....... میں ہر روز اسے دیکھنے جاتا کہ وہ کیا کر رہا ہے .

کافی دنوں سے فصیل والا بابا فصیل کے پاس نہیں آیا ، جیسے کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس کا اور میرا اسکی کہانی میں اکسٹرا کا رشتہ ہے اس لیے میں نے بھی اس بات کو اہم نہ سمجھا کہ فصیل والا بابا کہاں چلا گیا . فصیل والے بابے کے غائب ہونے کے بعد اس شہر میں ایک دم تبدیلیاں آنے لگ گئیں . وہ شہر جہاں سکون تھا اب ہر روز جنازے اٹھنے لگے ہر طرف بے سکونی اور بد اعتمادی پھیل گئی اور ہنستا کھیلتا یہ شہر آگ میں ڈوب گیا . ابھی تک کسی کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے . مجھے فصیل والا بابا یاد آیا – اس نے کہا تھا " بادشاہ لوگ ہیں ہمارے شہر کےعوام – بڑے سے بڑے غم کو بھول جاتے ہیں ان کے لیے یہ کوئی غم کی بات نہیں کہ اللہ پاک ہم سے ناراض ہیں وہ روتے ہیں کہ روٹی مہنگی ہے ، اولاد بھوکی ہے ، نوکری نہیں ہے ، جوان بیٹی گھر بیٹھی ہے اور دوائی کے لیے پیسے نہیں ہیں- انھیں یہ تو احساس ہی نہیں ہے کہ یہ سب وسیلے سے ملنے والی نعمتیں ہیں ، ان کا بندوبست اللہ پاک کر دیں گے مگر جو گناہ ہم اپنے حصے میں ڈال رہے ہیں ان کا حساب کیسے دینا ہے .

فصیل والا بابا چیخ چیخ کر شہر والوں کو خبردار کر رہا تھا مگر کسی نے بھی اسکی نہیں سنی کوئی بھی اسکی بات پہ دھیان نہیں دے رہا تھا . سب کو اسکی باتیں دیوانگی لگتی تھیں اور آج اسکی کہی ہوئی باتیں سچ ہو رہی ہیں .

شہر میں بے سکونی تو ایک طرف روٹی کپڑے اور بچوں کی ضرورتوں کی خاطر رونے والوں کی جانیں بھی محفوظ نہیں ہیں . شائد میری طرح ہر کسی کا اندر کا کانچ ٹوٹا ہوا ہے اور ہمارے گناہ اس قدر عروج پر ہیں کہ ہم کسی اندیکھی قیامت کے سائے میں زندہ ہیں .

یہ اندر کا کانچ ہی تو باہر کی دنیا کا عکاس ہوتا ہے ، اندر کا کانچ باہر کے پردے پہ سچ اور جھوٹ کی تصویر کشی کرتا ہے . جس جس کا اندر کا کانچ بکھرا یا ٹوٹا ہوا ہے اسکی خارجی زندگی جھوٹ کے سوا کچھ نہیں . اب اس شہر کو ہی لے لیں ، اس کے مکین تنگ ، اس کے حکمران تنگ ، اس کے منصف تنگ اور پھر یہاں کے چرند پرند بھی بے سکونی کا شکار ہیں . یہ نہ تو موسمی تبدیلی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی دشواری جو آھستہ آھستہ ٹل جائے . یہ سب بدکرداری اور رب کے نظام سے انحراف کی وجہ سے ہے . شائد فصیل والا بابا اسی لیے اس شہر کی فصیل کو چھوڑ کر چلا گیا ہے شائد اسکی ڈیوٹی بدل گئی ہے. جب کسی معاشرے پر عذاب آتا ہے تو رب اپنے نیک بندوں کو ہجرت کا حکم دیتا ہے .

میرے شہر میں بسنے والے حکمرانوں اور عوام کی تمثیل ماضی کی ایک قوم سی ہے . وہ بھی غرور ، تکبر اور بہراروی کا شکار تھی . اس کے اوپر ایک پیغمبر بھی اترا تھا اسکا لوگ مذاق اڑاتے ،حالات کا دائرہ تنگ ہوا اور تباہی سے دوچار ہوئی. یہ قوم ثمود تھی جس نے اپنے پیغبر سے اور اسکے پیغام سے انکار کیا ، یہ قوم کثرت مال اور اولاد کی وجہ سے گمراہ تھی ، وہ وادیوں میں پتھروں کو کھود کر گھر بناتے اور بہت مغرور تھے ایسے ہی جیسے میرے شہر کے لوگ . اللہ رب العزت کا حکم اس قوم کے لیے ایک مذاق تھا اور پھر میرے رب نے ان پر عذاب نازل کیا . آج بھی مدائن صالح کے کھنڈرات اس عذاب کی نشانی کے طور پر موجود ہیں .

قرآن کریم میں ارشاد خدا وندی ہے " ان ظالموں کو ہولناک آواز نے پکڑ لیا ، وہ صبح کو اپنے گھروں کے اندر اوندھے پڑھے رہ گئے " ( سورہ ١١ ، ہود).

عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے انسانوں کے لیے یہ جان لینا ہی کافی ہے کہ رب پہلے اپنے نیک بندوں سے گستاخ اور گمراہ لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور جب یہ گستاخ سنبھلتے نہیں ہیں تو فصیلیں اور محل زمین بوس ہو جاتے ہیں . فصیل والا بابا اپنا کام کر گیا ، کسی نے اسکی نہ سنی اور اب جب یہ فصیلیں اور محل گرنے والے ہیں تو کوئی یہ نہیں جانتا کہ یہ عذاب کب اپنی انتہا کو چھو جائے اور میرے شہر کی یہ قوم بھی تاریکی اور عذاب کی مثال بن جائے.

ختم شدہ
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 70485 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More