پی پی و ن لیگ کو مخدومی خطرات کا سامنا

پاکستان کی سیاست میں اس وقت کافی ہل چل دکھائی دے رہی ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ (ق) کے حکومت میں شامل ہونے کی اطلاعات کی بازگشت ہے تو دوسری طرف مسلم لیگ( ن) بھی پی پی پی ق لیگ اتحاد کو اپنے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے جوابی حملے کے لیے تیاری کرتے ہوئے نظر آرہی ہے۔ تیسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف بھر پور احتجاجی تحریک شروع کی ہے جس کا آغاز انہوں نے 23 اپریل 2011ءکو پشاور میں 2 روزہ دھرنے سے کیا، اسی طرح سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے ناراض رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی بھی پذیرائی مہم پر گامزن ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے 21 اپریل 2011ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنے جذباتی اور پرجوش خطاب کے ذریعے تمام سیاستدانوں بالخصوص اپنی جماعت کو واضح پیغام دینے کی کوشش کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی قیادت اپنی غلطیوں پر قوم سے معافی مانگے لیکن عوام کا بھی مخدوم جاوید ہاشمی سے مطالبہ ہے کہ2008ء کے عام انتخابات میں انہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ شہدائے لال مسجد وجامعہ حفصہ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے جدوجہد کرینگے اور اسی نعرے کی بنیاد پر وہ الیکشن میں 3حلقوں سے کامیاب ہوئے مگر پارلیمان میں جانے کے بعد وہ عوام سے کئے ہوئے اس وعدے کو بھول گئے یا بوجہ خاموشی اختیار کی ۔

”مخدومین“ کے انداز باغیانہ سے یہ محسوس ہو تا ہے کہ اس بار دونوں بڑی جماعتوں کو اپنے اندر مخدومی خطرات کا سامنا ہے۔ اگر چہ مخدوم جاوید ہاشمی نے فی الحال صرف ایوان میں تقریر پر اکتفا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے جذبات کچھ اور کہہ رہے تھے۔ ممکن ہے کہ مسلم لیگ( ن) مخدوم جاوید ہاشمی کو منانے میں کامیاب ہوجائے اور اس خطرے کو کم کرے مگر پیپلزپارٹی کے لیے ملتان کے ہی مخدوم شاہ محمود قریشی خطرات کی گھنٹی بجا رہے ہیں اور وہ کسی حد تک اپنی مہم میں سرگرم بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

مخدوم شاہ محمود قریشی کا شمار بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات کے بعد صدر آصف علی زرداری نے شاہ محمود قریشی کو وزارت خارجہ جیسے اہم منصب پر فائز کیا حالانکہ وزیراعظم کا تعلق بھی ملتان ہی کے ایک اور مخدوم خاندان سے ہے، ان دونوں اہم عہدوں کا ایک ضلع اور ایک علاقہ تک محدود کرنا اگرچہ مناسب نہیں تھا مگر دونوں کی اپنی اپنی اہلیت اور تجربات کی وجہ سے کسی نے اس پر انگلی نہیں اٹھائی۔ 2010ء کے آخر اور 2011ء کے شروع میں یہ اطلاعات بھی میڈیا کی زینت بنیں کہ زرداری صاحب سید یوسف رضا گیلانی سے کچھ نالاں دکھائی دے رہے ہیں اور اب وزارت عظمیٰ کے لیے ان کے نظر انتخاب مخدوم شاہ محمود قریشی پر ہے مگر امریکی دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری اور پھر رہائی کے لیے ہونے والی کوشش کا نتیجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی وزارت سے رخصتی اور صدر کی ناراضگی کی صورت میں نکلا۔ کیونکہ شاہ محمود قریشی کا موقف امریکا اور پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کے برخلاف تھا۔ جس کا اظہار انہوں نے کھل کر کیا پھر حالات نے شاہ محمود قریشی کے موقف کو درست بھی ثابت کیا۔

بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ مارچ2011ءمیں وفاقی کابینہ میں کی جانے والی تبدیلیاں آئین کی 18 ویں ترمیم کی خاطر نہیں کی گئی تھیں بلکہ امریکا بہادر کی شدید ناراضی کے بعد مخدوم شاہ محمود قریشی کو وزرات سے الگ کرنے کے لیے یہ موقع پیدا کیا گیا ،اگر ان کو علامہ حامد سعید کاظمی اور اعظم سواتی کی طرح الگ کیا جاتا تو اس کا عوامی سطح پر شدید رد عمل ہوتا اس کی بجائے پوری کابینہ کو تبدیل کر کے بچت کی راہ نکالی گئی اور صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی اس اقدام کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول میں وقتی طور پر کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں مگر آثار دکھائی دے رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں مخدوم شاہ محمود قریشی صدر زرداری اور ان کے دوستوں کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں، کیونکہ شاہ محمود قریشی نہ صرف ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں بلکہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں بہت ہی اچھا اثر رکھتے ہیں۔ صرف سندھ میں ان کے مریدین کی تعداد 60 لاکھ بتائی جاتی ہے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کا زیادہ انحصار سندھ پر ہی ہے۔ اگر سندھ میں پیپلزپارٹی کو کسی نے ٹف ٹائم دیا تو دیگر صوبوں میں بھی پیپلزپارٹی کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی بھی ہر مشکل وقت پر سندھ کارڈ استعمال کرتی ہے۔

مخدوم شاہ محمود قریشی نے پنجاب کے بعد سندھ میں بھی اپنی سرگرمیاں شروع کردی ہیں وہ سندھ کے دورے کے سلسلے میں 22 اپریل 2011ء کو کراچی پہنچے جہاں انہوں نے سنی تحریک کی قیادت سے اسی روز ملاقات کی اور مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ بعد ازاں اسی شام کو سماجی تنظیم مہر منیر فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا۔ جس میں تنظیم کے مرکزی راہنماء صابر داﺅد، سنی تحریک کے ثروت اعجاز قادری، حاجی حنیف طیب ،سینیٹر عباس کمیلی اور دیگر بھی موجود تھے۔ تقریباً 2گھنٹے تک مخدوم شاہ محمود قریشی نے معاشی بدحالی، پاک امریکا تعلقات ،پاکستان بھارت تعلقات،عالمی و مقامی دہشت گردی، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی صورتحال، ملک کے اندر مذہبی منافرت، افغان جنگ کے اثرات، پاکستان چین اور چین بھارت تعلقات، بجلی کے بحران، ٹیکس چوری، کرپشن، بے روزگاری ، بد امنی، کراچی کے حالات غرض تقریباً تمام ہی امور ومسائل پر بات کی اور حل بھی پیش کیے۔ انہوں نے براہ راست تو نہیں البتہ اشاروں میں حکومت اور اعلیٰ حکومتی ذمہ داروں( بالخصوص صدر زرداری) کو نشانہ بنایا مگر تقریب میں موجود سامعین میں اکثر وہ تھے جن کو ان معاملات کی فکر تو کیا ادراک ہی نہیں ہے، ان کے مفادات کی ایک الگ دنیا ہے۔ تاہم مجموعی طور پر مخدوم شاہ قریشی کی گفتگو سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ آگے چل کر کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 23 اپریل 2011ء کو انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز 90 کا دورہ کیا مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا جبکہ 24 اپریل سے اندرون سندھ کے مختلف اضلاع کا دورہ کر رہے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اب کی بار وہ اپنے مریدین کو متحرک کرنا چاہتے ہیں۔ کراچی میں گفتگو کے دوران اگرچہ وہ حقیقی سیاستدان کے روپ میں ہی نظر آرہے تھے مگر عملی طور پر ایک فرقہ پرست گدی نشین دکھائی دیے۔ انہوں نے دورہ سندھ کے دوران رابطوں کا سلسلہ بھی مخصوص افراد، جماعتوں اور مکتب فکر تک ہی محدود رکھا جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی اور دیگر قوتوں کے مقابلے میں اپنے مبینہ 60 لاکھ سندھی مریدین اور اپنے مکتب فکر کو کیش کروانا چاہتے ہیں اگر مخدوم صاحب کی یہ سوچ ہے تو پھر ان کو کچھ نہیں ملنے والا کیونکہ سندھ کی تاریخ گواہ ہے کہ سندھ کے لوگوں نے پیری مریدی کو ہمیشہ گھروں، مزاروں یا پھر مذہبی تقریبات تک ہی محدود رکھا ہے سیاسی میدان میں اس چیز کا بہت ہی کم خیال رکھا گیا ہے۔بلکہ سندھ میں یہ کہاوت مشہور ہے کہ”سر پیرجو ووٹ میرجو“ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج سندھ میں صوبے کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ (ف) ہونی چاہیے تھی جس کے سربراہ پیر پگارا صوبے کے سب سے بڑے گدی نشین سمجھے جاتے ہیں جبکہ ان کے والد محترم حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی شہید کی مسلمانوں اور اس خطے کی آزادی کے لیے قربانی مثالی ہے اور سندھ کے تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد ان کا احترام کرتے ہیں، مگر اس سب کچھ کے باوجود سیاسی میدان میں پیر پگارا کا حلقہ کافی محدود رہا ہے اور ان کی جماعت کبھی بھی 2درجن نشستوں کی حد کو پار نہیں کرسکی ہے۔ اسی طرح اگر مخصوص مذہبی انتہا پسندوں کا سیاست میں اثر ہوتا تو آج یہ لوگ ایوانوں میں نمائندگی سے محروم نہ ہوتے۔ اگر مخدوم صاحب کو واقعی اس قوم اور ملک کی فکر ہے تو ان کو ایک فرقہ پرست گدی نشین یا انتہا پسند کے روپ میں نہیں بلکہ ایک حقیقی مسلمان اور پاکستانی کے روپ میں سامنے آنا ہوگا اس کے لیے رابطوں کا سلسلہ صرف ایک مخصوص طبقے تک محدود نہ رکھیں بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد سے ملیں اور ان کا اعتماد حاصل کریں اور دیگر مکاتب فکر کے تحفظات دور کرنے کے اقدام کریں ورنہ پاکستان کے ناکام سیاستدانوں میں ایک اور نام کے اضافے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 97840 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.