جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو اللہ ظالم کو رسوا کردیتا ہے

حضرت داﺅد علیہ السلام کے زمانے ایک شخص تھا جو بے حد کاہل اور ناکارہ تھا اور ہمیشہ کسی نہ کسی مرض میں مبتلا رہتا تھا۔ یہ شخص اللہ تعالیٰ سے روزانہ یہی دعا کرتا کہ اے اللہ ! جب تو نے مجھے کاہل اور بیمار پیدا کیا ہے تو مجھے غیب سے محنت اور مشقت کے بغیر ہی روزی عطا فرما اور مجھے محنت و مشقت کے عذاب میں نہ ڈال ۔ کافی عرصہ تک وہ یہی دعا کرتا رہا ، لوگ اسکی اس دعا پر ہنستے اور مذاق اڑاتے کہ ذرا اس شخص کو دیکھو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس نے بھنگ پی لی ہے یا گھاس کھا گیا ہے۔ بھلا محنت اور مشقت کے بغیر بھی کسی کو روزی ملی ہے ، غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی اس سے کہتا ، خوش ہوجا خدا نے ہمیں خبر دی ہے کہ بہت جلد تجھے ایک خزانہ ملنے والا ہے ، ہمارا بھی خیال رکھنا، کوئی کہتا سارا خزانہ اکیلے ہی ہضم نہ کرلینا ، لیکن وہ شخص کسی کے کہنے سننے کی پروا نہ کرتا ، اور روزانہ وہی دعا مانگتا رہتا ۔

حقیقت یہی ہے کہ اللہ سب کی دعائیں سنتا اور مرادیں پوری کرتا ہے۔اس نے اپنی پاک کتاب میں کہا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کرنے والا ہوں۔مختصر یہ کہ جب اس شخص نے دعاﺅں اور رونے دھونے کی انتہا کردی تو اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور اللہ نے اس کی دعا سن لی۔ایک دن یہ شخص صبح سویرے آہ وزاری کے ساتھ اسی دعا میں مشغول تھا کہ ایک گائے نے ٹکر مار کر اس کے گھر کا دروازہ توڑ ڈالا اور گھر میں گھس آئی۔اس شخص نے فوراََ اس گائے کو پکڑ لیا اور اس کے پاﺅں باندھ کر اس کے گلے پر چھری پھیر دی اور قصائی کو بلایا تاکہ وہ اس کی کھال اتارکر اس کے گوشت کی بوٹیاں بنا دے۔اتنے میں اس گائے کے مالک کو بھی اطلاع مل گئی جو اپنی گائے کی تلاش میں گلی کوچوں میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ وہ بھاگا بھاگا اس شخص کے مکان پر آیا ، دیکھا کہ اس کی گائے تو ذبح بھی ہوچکی ہے اور قصائی اس کی بوٹیاں کرنے میں مصروف ہے۔ اس نے غصہ سے چیخنا چلانا شروع کردیا اور کہنے لگا ، اے ظالم! تو نے یہ کیا غضب کردیا یہ تو میری گائے تھی جو بدک کر بھاگی تھی تجھے اسے پکڑنے اور ذبح کرنے کا کیا حق تھا۔

دعا مانگنے والے شخص نے جواب دیا ، سنو بھائی زیادہ چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ہے ، میں کئی سالوں سے اللہ سے یہ دعا مانگ رہا تھا کہ الٰہی مجھے محنت و مشقت کے بغیر روزی عطا فرما۔ جب میں نے اس گائے کو اپنے گھر میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو سمجھ گیا کہ آج اللہ تعالیٰ نے میری دعا کو قبول کر لیا ہے اور اس نے محنت و مشقت کے بغیر مجھے میرا رزق بھیجا ہے، لہٰذا میں نے اسے پکڑ لیا اور ذبح کردیا۔یہ جواب سن کر گائے کا مالک غصہ میں آپے سے باہر ہوگیا ۔ پہلے تو اس نے اس شخص کی خوب پٹائی کی اور پھر اسے پکڑ کر دھکیلتا ہو ا ، حضرت داﺅد علیہ السلام کے پاس لیجانے لگا کہ چل تجھے تیرے اس ظلم کی سزا دلواﺅں گا، کیا خوب بہانا کرتا ہے کہ میں تو اللہ سے بغیر محنت کے روزی مانگتا تھا ۔ اے احمق ، اگر صرف دعا مانگ کر دوسروں کا مال ہضم کرنے کی اجازت ہوتی تو پھر کوئی کچھ نہ کرتا ، اور لوگ صرف دعا کے بل بوتے پر دوسروں کے مال و دولت پر قبضہ کرلیتے ۔

جب لوگوں نے گائے کے مالک کی بات سنی تو سب نے کہا تو حق پر ہے اور دعا مانگنے والے کو برا بھلا کہنے لگے۔ ان میں ایک شخص نے اُس سے کہا ، ارے بے وقوف ، صرف دعا کے بھروسے پر کوئی شخص کسی کے مال پر کیسے قبضہ کرسکتا ہے۔ شریعت نے کبھی اس کی اجازت نہیں دی کسی چیز کی ملکیت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے خریدا جائے ، یا کوئی اسے اپنی خوشی سے دے دے یا پھر یہ کہ بھیک مانگ کر اسے حاصل کرے، یا کوئی مرتے وقت تیرے حق میں وصیت کرجائے، لہٰذا یا تو اب اس بےچارے کی گائے واپس کر یا سزا بھگتنے کے لئے تیار ہو جا۔

یہ باتیں سن کر اس دعا مانگنے والے شخص نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا ، اے رحمن ، اے رحیم تو اچھی طرح جانتا ہے کہ میں نے اپنی اس آرزو کے لئے برسوں دعا مانگی ہے ۔ اب یہ گائے کا مالک مجھے بھیک منگے کی گالی دیتا ہے ۔ یا اللہ اسے شیطان نے بہکایا ہے اور تو خوب جانتا ہے کہ میں بھیک منگا نہیں میں نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا ، میں نے تو ہمیشہ صرف تجھ سے ہی سوال کیا ہے بھیک منگے اور مجھ میں بڑا فرق ہے۔ یہ لوگ میرے دل کی بات نہیں جانتے اور میری دعا کو غلط کہتے ہیں۔اے اللہ تو عالم الغیب ہے اور دلوں کے راز جاننے والا تیرے سوا اور ہے ہی کون۔دعا مانگنے والا شخص اوپر منہ اٹھائے اپنی دانست میں اللہ سے یہ کلمے کہہ رہا تھا کہ گائے کے مالک نے جھلّا کر اس کی پیٹ پر ایک دو مکے لگائے اور کہنے لگا ، ابے ادھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کیا بکواس کر رہا ہے ، ادھر میری طرف دیکھ اور حقیقت کا سامنا کر ، تو کیا سمجھتا ہے کہ اللہ اور اس کے بندوں کو بے وقوف بنا کر بچ جائے گا۔ جب تیرا دل ہی مردہ ہوچکا تو کس منہ سے آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔

دعا مانگنے والے شخص نے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دی اور رو کر بولا۔ اے رب ذوالجلال ! اپنے بندے کو رسوا نہ کر ، میں بے شک برا ہوں ، گناہ گار ہوں ، خطاکار ہوں لیکن تو عیبوں کو ڈھانپنے والا ہے ۔ میری برائی کو فاش نہ کر تو واقف ہے کہ میں سردی کی لمبی اور اندھیری راتوں میں عاجزی اور انکساری کے ساتھ تجھ کو پکارتا ہوں، اگر میری اس آہ وزاری اور عبادت کی قدر ان لوگوں کو نہیں تو مجھے ان کی کیا پروا ، مگر اے اللہ تو تو جانتا ہے ۔ یا اللہ یہ مجھ سے گائے واپس مانگتے ہیں، مجھے بتا کہ میں وہ گائے اب کہاں سے لاکر دوں وہ تو اب ذبح ہوچکی ، گائے بھیجنے والا تو اے رب جلیل تو خود ہے۔ اس میں میرا کیا قصور ہے۔

یہ معاملہ جب حضرت داﺅد علیہ السلام کی عدالت میں پیش ہوا ،تو سب سے پہلے گائے کے مالک نے کہا ۔ اے اللہ کے پیغمبر ، میری گائے بدک کر بھاگی اور اتفاق سے اس شخص کے گھر میں گھس گئی ، اس نے میری گائے کو پکڑ کر ذبح کردیا ، میں فریاد کر تا ہوں اس سے دریافت کریں کہ اس نے یہ حرکت کیوں کی۔ داﺅد علیہ السلام نے دعا کرنے والے شخص سے فرمایا ، سچ سچ بتا کہ تو نے یہ حرکت کیوں کی؟ فضول بات کرنے کے بجائے اصل بات بتا، تاکہ صحیح فیصلہ کیا جاسکے۔اس نے عرض کیا ، اس شہر کے تمام مرد و عورت مجھے جانتے ہیں ، میں نے آج تک نہ کسی کا مال مارا ہے اور نہ چوری کی ہے اور نہ ہی کسی کو ناجائز پریشان کیا ہے۔ کئی سالوں سے دن و رات میں اللہ کی بارگاہ میں رو رو کر یہ دعا کرتا ہوں کہ مجھے بغیر محنت اور مشقت کے روزی عطا فرما۔ شہر کے تمام لوگ یہ دعا سن کر میرا مذاق اڑاتے تھے۔ آپ چاہیں تو ان سے میری اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ میں سچ کہہ رہا ہوں یا نہیں۔ میری مسلسل دعاﺅں کے بعد آخر اللہ تعالیٰ نے میری سن لی اور یہ گائے خود بخود میرے مکان کا دروازہ توڑ کر اندر گھس آئی ۔ میں سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کر لی ، میں نے گائے کو پکڑ لیا اور اسے اس نیت کے ساتھ ذبح کردیا کہ شکرانے کے طور پر اس کا گوشت غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کروں۔ قصائی سے اس کے گوشت کی بوٹیاں بنوا ہی رہا تھا کہ یہ شخص نہ جانے کہاں سے شور مچاتا ہو آیا اور کہنے لگا یہ میری گائے ہے۔میں نے اسکو بہت سمجھایا ، لیکن یہ کچھ سنتا ہی نہیں ، اور تو اور سب لوگ بھی اسی کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔

داﺅد علیہ السلام نے اس بات سن کر فرمایا فضول باتیں چھوڑ ، اور ایسی دلیل دے کہ جس ثابت ہو کہ کسی کی گائے بغیر اجازت پکڑ کر ذبح کرنا کیسے جائز ہے۔ بہر حال تیرے بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وہ گائے تجھے گائے کے مالک نے نہیں دی اور نہ ہی تو نے خریدی۔ لہٰذا اس کی قیمت اس کے مالک کو ادا کردے اگر تیرے پاس قیمت نہیں تو پھر کسی سے قرض لے۔ بچنے کی بس یہی ایک صورت ہے۔دعا مانگنے والے نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا ، اے داﺅد ؑ ، آپ بھی وہی کہنے لگے جو سب کہتے ہیں۔ اس کے بعد اس کے دل سے ایک درناک آہ نکلی اور اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر کہا ۔ اے میرے دل کی بات جاننے والے تو داﺅد ؑ کو روشنی دکھا اور یہ کہہ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ اس کا رونا دیکھ کر حضرت داﺅد علیہ السلام علیہ السلام کا بھی دل ہل گیااور انھوں نے گائے کے مالک سے کہا ۔ اے گائے والے ، ،مجھے ایک دن کی مہلت دے تاکہ میں تنہائی میں اپنے رب سے ہدایت حاصل کروں ، وہی سب کے بھید اور رازوں کو جانتا ہے۔ داﺅد علیہ السلام نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے تنہائی میں اللہ کی عبادت شروع کی اور اس معاملے میں مدد مانگی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر تمام اسرار کھول دیے اور تمام باتیں ان کے دل میں ڈال دیں۔ داﺅد علیہ السلام نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔

اگلے دن آپ نے ان دونو ں کو بلوایا ۔ گائے والے نے آتے ہی دعا مانگنے والے شخص پر چیخنا چلانا شروع کردیا ۔ غضب خدا کا کہ پیغمبر کے عہد میں مجھ پر ظلم ہو رہا ہے۔ میری گائے کو دن دہاڑے پکڑ کر ذبح کردیا پھر اوپر سے روتا ہے اور خدا رسی کا فریب دیتا ہے۔اے داﺅد کیا یہ جائز ہے کہ میری گائے اللہ مجھ سے پوچھے بغیر اسے دیدے۔حضرت داﺅد علیہ السلام نے اس شخص کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا ۔ اے شخص زیادہ بک بک نہ کر میں نے ابھی اس مقدمے کا فیصلہ ہی نہیں کیا ہے ، بہتر ہے کہ تو اپنا سارا مال اور جائداد اس دعا مانگنے والے کے حوالے کردے ، ورنہ تیری سخت رسوائی ہوگی اور تو نے جو ظلم و ستم کئے ہیں وہ بھی ظاہر ہوجائیں گے۔ گائے والے نے جب یہ سنا تو غصے سے اپنے بال نوچنے لگا اور بولا اے داﺅ د ؑ تم نے اچھا فیصلہ سنایا ، اور مجھ پر ظلم و زیادتی کی انتہا کردی، لگتا ہے تم اپنے حواس میں نہیں ہو۔

یہ سن کر داﺅد ؑ نے گائے والے کو اپنے قریب بلایا اور کہا”اے بدبخت باز آجا کہیں یہ ہنگامہ آرائی تیری ہلاکت کا سبب نہ بن جائے جو تو نے بویا ہے اب وہ کاٹ۔ جا میں حکم دیتا ہوں کہ تیرے بچے اور تیری بیویاں اس دعا مانگنے والے شخص کے غلام اور لونڈی بنا دیئے جائیں۔یہ حکم سنتے ہی گائے والا دیوار سے اپنا سر پھوڑنے لگا ، وہاں موجود لوگ بھی گائے والے کے حال پر ترس کھانے لگے ، لیکن وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ اصل وجہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک دو آدمیوں نے جرات کی اور حضرت داﺅد ؑ سے عرض کیا ۔ اے اللہ کے نبی ؑ ہم سب حیرت میں ہیں آپ کی ذات سے ایسا ظلم سرزد نہیں ہونا چاہیئے کہ ایک بے قصور گائے والے پر آپ نے غضب فرمایا اور جس شخص نے اس کی گائے ناحق پکڑ کر ذبح کردی ، اسے آپ نے بری کردیا۔

ان کی باتیں سن کر حضرت داﺅد ؑ نے فرمایا ۔ اے لوگوں! شاید اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ جب اس گائے والے کے پوشیدہ راز سب پر ظاہر کردیئے جائیں۔ آﺅ تم سب میرے ساتھ جنگل میں چلو تاکہ سب اس راز سے آگاہ ہوجائیں، یہ سن کر سب حیران ہوگئے اور جنگل کی کی طرف چل پڑے۔داﺅد علیہ السلام نے کہا اے لوگوں! اس جنگل میں ایک بہت بڑا اور گھنا درخت ہے مجھے اس درخت کی جڑ میں سے انسانی خون کی بو آتی ہے۔ کیا تم جانتے ہو اس درخت کے نیچے ایک آدمی کو قتل کیا گیا تھا ، نہیں تم نہیں جانتے ، لیکن وہ جانتا ہے جس نے اس زمین و آسمان اور قاتل اور مقتول کو پیدا کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس گائے والے نے اپنے آقا کو قتل کیا ۔یہ شخص اصل میں اس مقتول کا غلام تھا اس نے دھوکے سے اپنے آقا کو قتل کر کے اس مال اور جائداد پر قبضہ کرلیا ۔ یہ دعا مانگنے والا اُسی مقتول کا بیٹا ہے۔ اس زمانے میں یہ بہت چھوٹا اور ناسجھ تھا، اسی لئے یہ اصل بات سے بے خبر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اب تک گائے والے کے ظلم کو اپنی صفت ستاری کے صدقے میں دنیا سے پوشیدہ رکھا ہوا تھا ۔ لیکن اس بے رحم اور سنگدل شخص نے اپنے مقتول آقا کے کم سن بچوں پر ظلم و ستم ڈھانا شروع کردیا ان سے سب کچھ چھین لیا یہ بچے دانے دانے کو بھی محتاج ہوگئے۔ اور اب ایک معمولی گائے کے لئے یہ اپنے آقا کے بیٹے کو لعن طعن کرتا ہے۔ اس نے اپنے گناہ کا پردہ خود ہی فاش کیا ہے۔ ورنہ شاید اللہ اس کا پردہ فاش نہ کرتا۔ یاد رکھو ظلم ہمیشہ روح کی گہرائیوں میں چھپا رہتا ہے لیکن ظالم اسے خود ہی لوگوں پر کھول دیتا ہے۔

حضرت داﺅد علیہ السلام جب ان لوگوں کے ہمراہ جنگل میں اس گھنے درخت کے قریب پہنچے تو انھوں نے حکم دیا کہ گائے والے کے ہاتھ اور پاﺅں باندھ دیئے جائیں، پھر اللہ کے پیغمبر نے گائے والے سے فرمایا ۔سن تو نے اس دعا مانگنے والے کے دادا کو قتل کیا تھا اور اس جرم کی پاداش میں اس کے باپ کا غلام بنا دیا گیا ، پھر تو نے موقع پاکر اس کے باپ کو بھی قتل کردیا اور اس کے مال و دولت پر قبضہ جمالیا ۔ تیری بیوی اس مقتول کی لونڈی تھی اس نے بھی اپنے آقا سے نمک حرامی کی ہے ۔ لہٰذا اب جو تیری اولاد اس لونڈی سے ہیں وہ سب اس دعا مانگنے والے کی ملکیت ہیں۔ تو نے شرع کے مطابق فیصلہ مانگا تھا تو میں نے شرع کے مطابق فیصلہ سنا دیا۔تجھے یاد ہے کہ تو نے اپنے آقا کو کس بے دردی سے اس جگہ قتل کیا تھا اور اس نے تیری کتنی منت سماجت کی تھی لیکن تونے اپنی بے رحمی اور سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے چھری سے اسی طرح ذبح کیا تھا جس طرح اس دعا مانگنے والے نے تیری گائے کو ذبح کیا ۔پھر تو نے وہ چھری راز فاش ہوجانے کے خوف سے گڑھا کھود کر یہاں دفن کردی تھی ۔ اے لوگوں! یہاں زمین کھودو ، اس کے آقا کا سر اور چھری دونوں یہاں دفن ملیں گے۔ اور ثبوت یہ ہے کہ اس چھر ی پر اس کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔

حضرت داﺅد علیہ السلام کے کہنے پر جب وہاں کی زمین کھودی گئی تو وہاں سے ایک کھوپڑی اور تیز دھار لمبی چھری برآمد ہوئی اب تو گائے والا تھر تھر کانپنے لگا اور اس نے داﺅد علیہ السلام کے پیروں پر گر کر اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔لوگوں پر سکتے کا عالم طاری تھا، کیونکہ کوئی ایسا نہ تھا جس نے اللہ کے پیغمبر کی طرف سے اس فیصلہ پر بدگمان نہ ہوا ہو۔ سب لوگوں نے عرض کیا اے داﺅد ؑ ہماری گستاخی معاف فرما دیں آپ ؑ نے اپنی زبان سے جو فرمایا تھا اس پر ہم نے اعتبار نہیں کیا تھا، بے شک آپ کی بات ثابت ہوگئی ۔

داﺅد علیہ السلام نے سب لوگوں کو معاف کردیا اور گائے والے کے بارے میں حکم دیا کہ چونکہ اس کا جرم ثابت ہوچکا ہے اور یہ قاتل ہے اس لئے شریعت کے فیصلے کے مطابق اس سے قصاص لیا جائے ، چنانچہ اسی چھری سے اس کی گرد ن اڑادی گئی ۔ اس کے بعد حضرت داﺅد علیہ السلام نے فرمایا۔ اللہ حلیم ہے اور وہ گناہ گاروں سے درگزر کرتا ہے لیکن جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو اللہ ظالم کو رسوا کردیتا ہے۔

(ماخوذ: حکایات رومی)
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 305344 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.