گیلپ سروے کیا سچ ہے ....؟ کیا جھوٹ ....؟

آج ایک عرصے بعد یوں ہی سرے راہ بابا رفیق احمد سے اتفاقاََ ملاقات ہوگئی تو یہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور سلام ودعا کے فوراََ بعد اُنہوں نے حسب عادت ملکی سیاسی اور عالمی حالات واقعات پر باتوں کا ایک ایسا لمبا سلسلہ چھیڑ ڈالا کہ ہم خاموشی سے سُنتے رہے اور وہ اپنے دل کی بھڑاس یوں نکالتے رہے کہ جیسے یہ اِسے نکالنے کے لئے کافی دنوں سے ہماری ہی تلاش میں تھے اور آج اللہ نے قسمت سے یہ موقع اِنہیں دے دیا ہے اِس دوران ہم نے دیکھا کہ بابا رفیق احمد دورانِ گفتگو اپنے اُسی انتہائی جذباتی لہجے میں (جو اِن کی ایک خاص پہچان ہے )کہنے لگے کہ میاں صاحبزادے! پاکستان کی بدنصیبی یہ رہی ہے کہ اِسے میرے قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد کوئی بھی ایسا رہنما آج تک نصیب ہی نہیں ہوا ہے جو اِس سرزمینِ پاکستان کے ساتھ اُس طرح مخلص ہوتا جس طرح میرے قائد محمد علی جناح تھے ،خدا!کی قسم اگر گزشتہ 63سالوں کے دوران کوئی ایک بھی ایسا لیڈر میرے وطن پاکستان کو نصیب ہوجاتا جیسا میرا قائد تھا تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج ہمارا یہ وطن اپنوں اور اغیار کے ہاتھوں میں یوں کھلونا ہرگز نہ بنتا جیسا آج یہ بن چکا ہے، جس سے اپنے پرائے سب ہی کھیل رہے ہیں .... اور اِسے لوٹ لوٹ کر یوں کھا رہے ہیں جیسے دیمک لکڑی کو کھا جاتی ہے یعنی آج میرے اِس وطن پاکستان کی مثال لکڑی اور دیمک جیسی ہوگئی ہے ۔

اُنہوں نے کہا کہ میاں صاحبزادے!ملک کی یہ حالت دیکھ کر بہت دُکھ ہوتا ہے،کیوں کہ ہم نے اِس سرزمین پاکستان کے حصول کے خاطر صرف اپنے قائد محمد علی جناح کی ایک آواز پر لبیک کہا اور اپنا بنا،بنایا گھر بار ، نوکر چاکر، چلتا ہوا کاروبار اور اپنی اربوں کی جائیدادیں ہندوستان میں ہندوؤں کی عیاشی کرنے کو چھوڑ کر اور اپنا سب کچھ قربان کر کے پاکستان اِس لئے آئے تھے کہ یہاں ہمیں وہ سب کچھ حاصل ہوگا جس کا ہم نے اُس وقت ایک حسین خواب دیکھ رکھا تھا مگر افسو س ہے کہ آج تک ہمیں اُس خواب کی وہ حسین تعبیر نصیب ہی نہیں ہوسکی جس کے بارے میں ہم نے اِس اَن دیکھے وطن کی آزادی کے وقت اپنے ذہنوں میں بیٹھا رکھی تھی مگر پھر بھی ہم اپنے اِ س ملک اور اِس کی سرزمین سے اَب بھی مایوس نہیں ہوئے ہیں اِس سے ہمیں آج بھی اتنی ہی محبت ہے کہ جتنی اُس وقت تھی جب ہم ہندوستان چھوڑ کر اپنے اِس آزاد وطن پاکستان کی جانب چل پڑے تھے ۔

ہم دیکھ رہے تھے کہ جیسے جیسے بابا رفیق پاکستان سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے جارہے تھے ویسے ویسے اِن کے جذبات میں شدت آتی جارہی تھی حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ اتنے جذباتی ہوگئے تھے کہ یہ خود بھی اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور عالم ِ جذبات میں بولے کہ کبھی کبھی تو دل یہ چاہتا ہے کہ اُن لوگوں کا منہ توڑ ڈالوں جو میرے پاکستان سے متعلق اپنی ایسی اُلٹی سیدھی بکواس کر رہے ہوتے ہیں ، کہ جنہیں سُن کر اور پڑھ کر ایک سُوت خون جل کر رہ جاتا ہے، مگر پھر میں یہ سوچ کر خود ہی خاموش ہوجاتا ہوں کہ ممکن ہے کہ یہ لوگ جو میرے وطن کے بارے میں اِس طرح کی کھلم کھلا بکواس کرتے پھر رہے ہیں یہ صحیح ہوں اور میں اپنی حب الوطنی کے جذبات میں بہہ کر اور انجانے میں کوئی ایسا ویسا کچھ غلط کرجاؤں جو بعد میں خود میرے لئے ہی باعث ندامت ہو،اور میں اپنے کئے پر لوگوں سے منہ چھپا پھروں،اور معاشرے کا ہر فرد میری اِس حب الوطنی پر مجھے خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے اُلٹا مجھے ایک جنونی اور پاگل قرار دے کر مجھ سے کنارہ کشی اختیار کرجائے تو یہ میری برداشت سے باہر ہوگا۔ اور میں جیتے جی اپنے ہاتھوں خود ہی مرجاؤں گا۔

مگر چوں کہ میں ایک کمزور سا شخص ہوں جس کی نہ تو پیچھے کوئی بیک مضبوط ہے ،اور نہ مجھے کسی کی آشیرباد حاصل ہے ،کہ میں اِس کے بل بوتے ہی وہ کچھ کر جاؤں جو میرے من میں آئے،اِس نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے جب میں اپنا محاسبہ کرتا ہوں تو پھر مایوسیوں کے اُس سمندر میں غرق ہوجاتا ہوں جو میری حب الوطنی کے جذبات سے کہیں زیادہ وسعی اور گہرائی رکھتا ہے۔اور کفِ افسوس مل کر رہ جاتا ہوں، اور اِسی دوران اِنہوں نے پلک جھپکتے ہی ملک کا ایک کثیرالاشاعت روزنامہ ہماری جانب بڑھاتے ہوئے کہا اَب اِسی کو ہی دیکھ لو آج کے ہی اخبار میں گیلپ سروے....کی آڑ میں اغیار نے جھوٹ پر مبنی یہ کیسی رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہیں سے بھی سچ کا گمان نہیں ہو رہا ہے ....لو تم بھی پڑھو....اور ہم نے ذرا تکلف سے اخبار اُن کے ہاتھ سے لیا اور پڑھنے لگے وہ رپورٹ جس نے بابا رفیق احمد کو اتنا اموشنل کر دیا تھا کہ جس کی انتہا نہیں رہی تھی وہ کچھ اِس طرح سے تھی کہ” جنوبی ایشیا میں پاکستانی وہ واحد قوم اُبھر کر سامنے آئی ہے جو اپنے حکمرانوں کے رویوں اور اِن کی نااہلی کے باعث سب سے زیادہ غم و غصے کا شکار ہوچکی ہے۔

اگرچہ اِس رپورٹ میں یہ بات ضرور تسلیم کی گئی ہے کہ پاکستانی قوم کی یہ کیفیت گیلپ سروے کے مطابق مئی2010 میں تیار ہونے والی اُس رپورٹ کے بارے میں ہے جب پاکستان میں اِس کی تاریخ کا ایسا بدترین سیلاب نہیں آیا تھا اُس وقت بھی پاکستانی قوم اپنے حکمرانوں کی نااہلی اور اِن کے غیر تسلی بخش اقدامات پر عدم اعتماد کرتی تھی اور اِن سے سخت پریشان اور ناراض تھی جبکہ یہ گیلپ سروے جو مئی 2010میں کیا گیا تھا اِس کی رپورٹ کے مطابق34فیصد پاکستانیوں نے معاشی و سیاسی عدم استحکام پر بے چینی ظاہر کی ہے جس کی شرح گزشتہ برسوں سے بہت زیادہ ہے اور اِس کے ساتھ ہی اِس رپورٹ میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پاکستانی خطے کی اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں سے سب سے زیادہ پریشان اور ناراض رہنے والی قوم بن گئی ہے۔

جبکہ یہ حقیقت ہے کہ یہ رپورٹ پڑھنے کے بعد ہم خود بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ گیلپ سروے کی اِس رپورٹ پر بابا رفیق احمد کا جذباتی ہونا اِس لحاظ سے درست لگتا ہے کہ اُن کے نزدیک یہ رپورٹ محض جھوٹ اور فریب اور مفروضوں پر مبنی ہے اِن کا کہنا یہ ہے کہ پاکستانی قوم اپنے حکمران سے 34فیصد سے تین گنا زیادہ ناراض اور پریشان ہے اور جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ہونا،عوام میں بے یقینی کا بڑھنا،افراط زر، بیروزگاری کا تسلسل سے بڑھنا ایک بڑا سبب ہے۔ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر بابا رفیق احمد نے اپنا ایسا کڑوا سا منہ بنایا کہ یہ جیسے کچے کریلے چبا رہے ہوں اور پھر بولے کہ گیلپ سروے جو بعض مرتبہ بوگس سروے کی روشنی میں اپنی رپورٹ تیار کرتا ہے اِسے ایسا نہیں کرنا چاہئے جبکہ اُن حقائق کو پوری ایمان داری اور نیک نیتی کے ساتھ من وعن اپنی رپورٹوں میں شامل کرلینا چاہئے جو درست ہوں ۔اور اِس کے ساتھ ہی بابا رفیق احمد کا یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ اِن کا ایسے لوگوں پر بس نہیں چلتا جو پاکستان سے متعلق اصلاحی کم مگر تنقیدی سروے رپورٹیں زیادہ شائع کر کے پاکستان کا امیج تو دنیا بھر میں بگاڑ کر پیش کرتے ہیں اور اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں مگر اِن رپورٹوں کی روشنی میں یہ میرے ملک پاکستان کو کوئی ایسا حل پیش نہیں کرتے جس سے پاکستان کو کوئی سیاسی اور معاشی فائدہ حاصل ہو۔اور یہ مسائل کی دلدل سے نکل کر کسی تعمیری راہ پر چل پڑے۔

اگرچہ گیلپ سروے مئی2010پر اِن محب وطنی پاکستانی بابا رفیق احمد کا یہ کہنا تھا کہ اِسے اُلٹی سیدھی اور بے مقصد سروے اور رپورٹوں سے کوئی پاکستان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیوں کہ یہ ملک ہمیشہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا اِس لئے کہ اِس میں آج بھی بابا رفیق احمد جیسے کروڑوں ایسے بھی موجود ہیں جو اِس سے محبت اور اِس کی بقا و سالمیت پر اپنی جانیں قربان کردینے کا عزم رکھتے ہیں اور ایسے بھی محب وطن لوگ بستے ہیں جو اِس کے ایک ایک زرے اور ایک ایک انچ سے محبت کرتے ہیں ۔جس کی حفاظت یہ دن رات اپنی جانوں سے زیادہ بڑھ کر کرتے ہیں۔

مگر افسو س کہ ایسے محب وطن پاکستانیوں کے لئے نہ تو سابقہ حکمرانوں نے کچھ کیا اور نہ ہی موجودہ حکمران ہی کچھ کرسکے ہیں یعنی یہ اپنے عہدے اور منصب کی لاج رکھتے ہوئے بھی ملک اور قوم کے لئے ایسا کچھ بھی اچھا عمل نہیں کر رہے ہیں کہ جس سے ملک کے ساڑھے سترہ کروڑ عوام کے وہ درینہ مسائل حل ہوں جن سے آج ملک اور قوم کا ایک ایک فرد دوچار ہے۔

اور اِن تمام باتوں کے علاوہ یہاں افسوس کا ایک مقام تو یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں ہر دور میں حکمرانوں نے مسند اقتدار پر اپنا قدم رنجا فرمانے کے بعد اُس عوام کو دیدہ و دانستہ بھلا دیا جس نے اِنہیں اِس بلند مقام تک پہنچایا اور پھر یہی حکمران پہلے ہی روز سے ہر سوراخ سے اپنے فائدے کی سوچتے رہے اور ملکی اور قومی دولت اپنے وطن اور قوم پر خرچ کرنے کے بجائے اپنی عیاشیوں پر اِس طرح لٹاتے رہے جیسے کہ قومی دولت اِن ہی کے لئے اور اِن کی عیاشیوں کے لئے ہے ۔

اِس موقع پر مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ جب ملک میں حکمران خود ایسے حالات پیدا کردیں تو پھر ایک بابا رفیق احمد ہی کیا ہر محب وطن پاکستانی بابا رفیق احمد کی طرح جذباتی ہوکر اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے کھلم کھلا نفرت کا اظہار کرنے لگے گا اور گیلپ سروے اور اُن رپورٹوں کو غلط تصور کرنے لگے گا جن میں کم اور غلط اعدادوشمار پیش کئے گئے ہوں گے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 896303 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.