دنیا کے خوبصورت ترین پہاڑوں کا مرکز پاکستان

پہاڑوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے پہاڑوں کا عالمی دن ہر سال ۱۱ دسمبر کو منایا جاتا ہے،وطن عزیزپاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اور نانگا پربت سمیت متعدد پہاڑی سلسلے پاکستان میں واقع ہیں۔اقوام متحدہ نے دو ہزار دو میں ایک قرار داد کے ذریعے گیارہ دسمبر کو پہاڑوں کا عالمی دن قرار دیا، جس کے بعد دوہزار تین میں پہلی بار یہ دن منایا گیا جس کا مقصد ماحولیاتی خطرات سے بچانااور پہاڑوں کے قدرتی حسن برقرار رکھنے کے لئے اقدامات کا شعور اجاگرکرنا ہے۔سرزمین پاکستان بھی قدرتی حسن سے مالا مال ہے اور یہاں بیشتر پہاڑوں کا شمار دنیا کے خوبصورت پہاڑوں میں ہو تا ہے ، پاکستان کو یہ منفرد مقام بھی حاصل ہے کہ یہاں پانچ ایسی بلند چوٹیاں ہیں جو 26 ہزار فٹ سے زائد بلند ہیں ، ان میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اور نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت بھی شامل ہے۔پاکستانیوں کے لئے یہ امر قابل اطمینان ہے کہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو ( 8611 میٹر) اور نو ویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت ( 8126 میٹر) سمیت 8 ہزار میٹر سے بلند 14 اولین چوٹیوں میں سے 5 پاکستان میں ہیں۔ سر زمین پاکستان بھی قدرتی حسن سے مالا مال ہے اور یہاں دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندو کش موجود ہیں۔عالمی سطح پر ہر سال 5 کروڑ سیاح پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں تاہم اس کی قیمت پہاڑی علاقوں میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی صورت میں چکانی پڑ رہی ہے،کے ٹو پر چڑھنے کی پہلی مہم 1902ء میں ہوئی جو ناکامی پر ختم ہوئی۔ اس کے بعد 1909ء ، 1934ء ، 1938ء ، 1939ء اور 1953ء والی کوششیں بھی ناکام ہوئیں۔ 31 جولائی، 1954ء کی اطالوی مہم بالاخر کامیاب ہوئی۔ لیساڈلی اور کمپانونی کے ٹو پر چڑھنے میں کامیاب ہوئیں۔23 سال بعد اگست 1977 میں ایک جاپانی کوہ پیما اچیرو یوشیزاوا اس پر چڑھنے میں کامیاب ہوا۔ اس کے ساتھ اشرف امان پہلا پاکستانی تھا جس نے اس کو سر کیا۔ 1978ء میں ایک امریکی ٹیم بھی اس پر چڑھنے میں کامیاب ہوئی۔نانگا پربت دنیا کی نویں اور پاکستان کی دوسری سب سے اونچی چوٹی ہے۔ اس کی اونچائی 8125 میٹر/26658 فٹ ہے۔ اسے دنیا کا قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کو سر کرنے میں سب سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ اسے ایک جرمن آسٹرین ہرمن بہل نے سب سے پہلے تین جولائی 1953ء میں سر کیا۔نانگا پربت دنیا میں دیکھنے کی سب سے خوبصورت جگہ ہے۔ اس جگہ کو فیری میڈو کا نام 1932ء کی جرمن امریکی مہم کے سربراہ ولی مرکل نے دیا۔ گرمی کے موسم میں سیاحوں کی اکثریت فیری میڈو آتی ہے یہ 3300 میٹر / 10827 فٹ بلند ہے۔یہ نانگا پربت سے شمال کی جانب دریائے سندھ اور شاہراہ ریشم سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ تاتو، فنتوری اور تارڑ جھیل بھی راستے میں آتی ہیں۔

سلسلہ کوہ ہندوکش شمالی پاکستان کے ضلع چترال اور افغانستان کا اہم پہاڑی سلسلہ ہے۔ ہندوکش کی سب سے اونچی چوٹی تریچ میر چترال پاکستان میں ہے۔ اس کی بلندی سات ہزار سات سو آٹھ میٹر ہے۔ ہندو کش قریبا سارے افغانستان میں پھیلا ہوا ہے۔ہندو کش لاطینی لفظ انڈیکوس سے بنا ہے۔ کیونکہ اس پہاڑی سلسلے کو عبور کرنے کے بعد ہندوستان شروع ہو جاتا تھا،دریائے کابل اور دریائے ہلمند ہندو کش سلسلے کے اہم دریا ہیں۔کوہ ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو موجود ہیں۔ 8,000 میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔ اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7,200 میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلد ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکاگوا ہے جس کی بلندی صرف 6,962 میٹر ہے۔ہمالیہ کا بنیادی پہاڑی سلسلہ مغرب میں دریائے سندھ کی وادی سے لیکر مشرق میں دریائے برہمپترا کی وادی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ برصغیر کے شمال میں 2,400 کلومیٹر لمبی ایک مہراب یا کمان کی سی شکل بناتا ہے جو مغربی کشمیر کے حصے میں 400 کلومیٹر اور مشرقی اروناچل پردیش کے خطے میں 150 کلومیٹر چوڑی ہے۔سلسلہ کوہ قراقرم پاکستان، چین اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں واقع ہے۔ یہ دنیا کے چند بڑے پہاڑی سلسلوں میں شامل ہے۔ قراقرم ترک زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کالی بھربھری مٹی ہے۔ کے ٹو سلسلہ قراقرم کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔ جو بلندی میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔اس کی بلندی 8611 میٹر ہے اسے گوڈسن آسٹن بھی کہاجاتا ہے۔ قراقرم میں 60 سے زیادہ چوٹیوں کی بلندی 7000 میٹر سے زائد ہے۔ اس سلسلہ کوہ کی لمبائی 500 کلومیٹر/300 میل ہے۔ دریائے سندھ اس سلسلے کا اہم ترین دریا ہے۔پاکستان کے انتہائی شمال میں گلگت کے قریب ، دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلوں ، ہمالیہ ، ہندو کش اور قراقرم کا سنگم بھی موجود ہے ، برف سے ڈھکی ان پہاڑی سلسلوں کو سر کرنے کیلئے ہر سال ہزاروں کوہ پیما پاکستان کا رخ کر تے ہیں جس سے ملک کو قیمتی زرمبادلہ ملتا ہے۔

مکران کا پہاڑی سلسلہ جو کہ بلوچستان کے جنوبی نیم صحرائی ساحل سے ہوتا ہوا ایران اور پھر پاکستان کی ساحلی پٹی بحیرہ عرب تک جاتا ہے۔کئی پہاڑی سلسلوں میں تنگ ساحل سمندر بہت تیزے سے گزر رہا ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ 1,000کلومیٹر لمبا ہے جسکا 750کلو میٹر پاکستان میں ہے۔ کیرتھر سلسلہ ، یہ بلوچستان اور سند ھ کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ دریائے مولا کے جنوب سے شروع ہوتا ہے جو کہ بلوچستان کے مشرق وسط سے ہوتا ہوا کیپ ماؤن اور پھرکراچی کے بحیرہ عرب کے ساحل پر ختم ہوتا ہے۔اسلام آباد میں آ نے والے سیا حو ں کو کوہ ما رگلہ کی کشش اپنی جانب ضرور کھینچتی ہے ، کوہ ما رگلہ کی کشش سے متا ثر سیا حو ں کا ماننا ہے کہ قدرت کی یہ حسین جلوہ گری تما م موسمو ں میں اپنا جا دو جگاتی ہے، وفا قی دارالحکومت کی دلکشی میں بلاشبہ یہاں قدرت کی جلوہ گری بیان کرتے کوہ مارگلہ کی خا ص اہمیت ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق سیاحت، آلودگی، جنگلات کی کٹائی اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے پہاڑوں کا قدرتی حسن تباہ ہو رہا ہے۔

راکاپوشی، نگر میں واقع ہے، جو نگر کی شان تصورکی جاتی ہے۔ نگر اور ہنزہ کے درمیان بہنے والا دریائے ہنزہ اس کی خوبصورتی اور شان کو چار چاند لگاتا ہوا نظر آتا ہے۔ہنزہ میں جب بلشت قلعہ پہنچتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے آپ پہاڑوں کے مسکن میں پہنچ گئے ہوں، چاروں طرف بلند و بالا برف پوش آسمانوں سے باتیں کرتا پہاڑی سلسلہ ہے، جوپوری دنیا میں اس خطے کو دوسرے علاقوں سے منفرد کرتا ہے۔ہنزہ سے آپ راکاپوشی، گولڈن پیک، دیراں پیک، سران پیک، لیڈی فنگر جیسی چوٹی کا نظارہ کرسکتے ہیں، جن پرہرسو برف نظرآتی ہے اور بادلوں کے غول در غول اس سے باتیں کرتے، کچھ دیر اس سیگلے ملنے کے بعد آگے بڑھتے جاتے ہیں۔الغرض پاکستان کے یہ پہاڑی سلسلے پاکستان کی پہچان اور ساری دنیا میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ یہ کوہ پیماؤں کیلیے جنت ہیں، اگر ان کیلئے آسانی فراہم کی جائے تو یقیناً زیادہ سے زیادہ سیاح اور کوہ پیما پاکستان کا رخ کریں گے، جن سے مقامی لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا۔وزیراعظم عمران خان سیاحت کے فروغ پر توجہ دے رہے ہیں امید ہے وہ پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے حق ادا کریں گے۔
 

Mehr Iqbal Anjum
About the Author: Mehr Iqbal Anjum Read More Articles by Mehr Iqbal Anjum: 101 Articles with 63074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.