اے حمید۔ ۔ ۔۔ یادگار کہانیوں اور لافانی کرداروں کے تخلیق کار

اٌس کہانی کے ہیرو ’’عبنر‘‘ کو کسی نے یہ دٌعا یا بد دٌعا دی ہوتی ہے کہ وہ کبھی نہ مرے گا اور پھر آج سے پانچ ہزار سال قبل فرعون ِمصر کے زمانے میں پیدا ہونے والا وہ نوجوان وقت کے دھارے میں بہتا، تہذیب و تمدن کے عروج و زوال، قوموں و سلطنتوں کے ابھرنے و ڈوبنے اور عظیم شخصیتوں و اکابرین کی آمد و رخصت کے احوال کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا کرتا بلاآخر عصر ِ حاضر میں آ پہنچتا ہے!۔

اٌس کہانی کا ہیرو ’’انسپکڑ احمر‘‘ ایک نیک روح کی مدد سے تاریخ کے گہری کھائیوں اور اندھیرے غاروں میں گم پراسرار اور نا حل پزیر سمجھ کر داخل ِدفتر کیئے جانے والے کیسوں کی اسر ِنو تفتیش کے لیے ماضی میں واپس جاکر انمیں چھپے رازوں کو افشاں کرتا ہے!!۔

اٌس کہانی کا ہیرو ’’ندیم‘‘ اسلامی ممالک کی سیاحت کے شوق میں کم عمری ہی میں اپنے گھر سے بھاگ کر خود اپنے بل بوتے پر تن ِتنہا نکل کھڑا ہوتا ہے اور پھر ہر منزل و مقام سے اپنے گھر والوں کو اپنے خطوط کے ذریعہ سے اپنے خوفناک سفری حالات سے آگاہ کرتا چلا جاتا ہے!!!۔

اٌس کہانی کا ہیرو ٹین ایجر ہیرو ’’عمران‘‘ جسے دنیا پھر کی سیاحت کا شوق ہوتا ہے اپنے ایک ہم عمر دوست ریحان کے ہمراہ لنڈی کوتل کے راستے افغانستان، ایرن اور ترکی سے ہوتا ہوا، یورپی ممالک اور پھر امریکا تک جا پہنچتا ہے، وہ دونوں تمام راستے تگ و دو کرتے، کبھی محنت و مشقت تو کبھی کسی سوپر اسٹور پر عارضی ملازمت اختیار کر کے اپنا زاد ِراہ اکھٹا کرتے ہیں اور بذیعہ خطوط اپنے اہل ِخانہ کو اپنے اس انوکھے ایڈونچر سے لمحہ نہ لمحہ آگاہ کرتے جاتے ہیں اور جسکے دوران انہیں نا صرف بے پناہ دشواریوں اور مصائب بلکہ خطرناک جرائم پیشہ افراد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن وہ ہر دشواریوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے منزل پر منزل مارتے چلے جاتے ہیں!!!۔

اٌس کہانی کا ہیرؤ برٹش انڈیا کے دوٌر کا ’’انسپکڑ بہرام‘‘ ہے جو ایک جنونی ڈاکٹر جو قبروں سے مرنے والوں کے انتہائی صحتمند اور مضبوط اعضاء کو حاصل کر کے انہیں جوڑ کر ایک ایسا انسان تخلیق کرتا ہے جو کہ جسمانی طور پر بے پناہ قوت و صلاحیت کا حامل ہے اور اسکے سر میں ایک مرے ہوئے انتہائی ذہین سائنسدان کا دماغ لگ کر اسے آسمانی بجلی کے لاکھوں میگا ووٹس کا جھٹکے سے زندہ کر کے اسے انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن بدقسمتی سے وہ جنونی ڈاکٹر سارے مراحل کامیابی سے طے کرنے بعد جب مرحوم سائنسدان کا محفوط شدہ دماغ چرانے کیلیئے پہنچتا ہے تو غلطی سے ساتھ رکھے ایک پاگل و جنونی قاتل کا دماغ اٹھا لاتا ہے اور پھر وہ لاش زندہ ہوکر تباہی و بربادی مچانا شروع کردیتی ہے، کا نہ صرف جوانمردی اور کمال بہادری کے ساتھ پتہ لگاتا ہے بلکہ اسکا خاتمہ بھی کردیتا ہے!!!!۔

متذکرہ پانچوں طویل سلسلہ وار کہانیاں بلترتیب ’’موت کا تعاقب‘‘، پرانے قلعے کی فائل‘‘، ’’ندیم کا خوفناک سفر نامہ‘‘، ’’عمران ریحان ایڈونحر‘‘ اور ’’لاش زندہ ہوگئی‘‘ جسے اے حمید کے جادو اثر قلم سے وجود میں آئیں اور ہم نے اپنے بچپن میں انگنت بار یہ تمام سلسلہ وار کہانیاں نہ صرف پڑھیں بلکہ یہ تمام کی تمام مکمل سیٹس کی صٌورت میں ہماری ذاتی لائبریری کی زینت تھیں۔

لیکن اپنے بچپن سے لیکر آج تک ایک ہی سوال ہمارے زہن میں گردش کرتا رہا:۔

ان کہانیوں کے ہیروز یعنی ’’عبنر‘‘، ’’انسپکڑ احمر‘‘، ’’ندیم‘‘ ، ’’عمران’’ اور ’’انسپکٹر بہرام‘‘ محض اے حمید کے تخیلات میں جنم لینے والے چند کردار ہی تھے ہا پھر سچ مچ کے زندہ جاگتے، گوشت پوشت کے احساسات و جذبات کے حامل لوگ تھے یا پھر اے حمید صاحب نے حضرت ِ انسان کی چند انہونی خواہشات مثلاً:۔

وہ ابدی زندگی حاصل کرے اور ہمیشہ زندہ رہ کر رہتی دنیا تک کے واقعات کا چشم دید گواہ بن جائے!۔

ماضی ِقریب و ماضی ِبعید میں خود جا کر وقوع پزیر ہونے والے تمام پراسرا واقعات کے اصل راز کی حقیت جان لے!!۔

دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے کی ناصرف سیاحت کرلے بلکہ قدم قدم پر پھیلے قدرت کے نظاروں، راہوں کی بھلبھلیوں، ہر رنگ و نسل کے انسانوں کو دیکھ اور پرکھ لے!!!۔

مافوق الفطرت اور غیر مرئی فوتوں کو تخلیق و تسخیر کرنا اور اگر ان سے انسانیت کو خطرہ لاحق ہو تو اسے کیفر ِکردار تک پہنچا کر انسانیت کا دفاع کرنا!!!!۔

جیسی انسانی شعوری و لاشعوری خواہشات کے تابع اپنی ذاتی آسودہ و ناآسودہ خواہشات کو اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور دراصل انکے یہ تمام ہیروز انکی اپنی ہی شخصیت میں تہہ در تہہ پنہاں زیلی شخصیات ہی کا پرتو ہیں۔

ہم یہاں پڑھنے والوں کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ وہ خواہ ’’موت کا تعاقب‘‘ کا موت کو شکست ِفاش دینے والا لافانی کردار ’’عبنر‘‘ ہو یا ’’پراسرا قلعے کی فائل‘‘ کا ’’انسپکٹر احمر‘‘ ہو جو ماضی کا مسافر بنکر کبھی سالوں، تو کبھی عشروں تو کبھی صدیوں قدیم رازوں پر سے پردہ اٹھاتا ہے یا ’’ندیم کا خوفناک سفر نامہ‘‘ کا کمسن ’’ندیم‘‘ ہو جو تن تنہا اسلامی ممالک کی سیاحت کرنے کو نکل کھڑا ہوتا ہے یا ’’عمران ریحان ایڈونچر‘‘ کا ٹین ایجر مہم جو اور ایڈونچر پسند ’’عمران‘‘ہو یا ’’لاش زندہ ہوگئی‘‘ کا برٹش انڈیا کا بہادر و دلیر ’’انسپکٹر بہرام‘‘ ہو۔ یہ سب کے سب کردار انتہائی ایماندار، اصول پرست، قول و کردار کے پکے و سچے، مظلوم کی مدد و دادرسی کو ہم وقت سر دھڑ کی بازی تک لگانے کو تیار رہتے ہیں۔

بطور ایک دیرینہ قاری ہمیں ایسا محسوس ہوتا کے جناب اے حمید کے تخلیق کردہ مذکورہ بالا تمام تر کردار دراصل خود اپنی بنجارہ و درویش فطرت، سیاحانہ طبعیت ایماندارانہ و اصول پرستانہ شخصیت اور انکی ایڈونچرس و رومان پرور زہینت ہی کے متفرق پہلو ہیں۔

یہ سب کہانیاں تو ہمارے بچپن کا حصہ تھیں، لیکن پھر جٌوں جٌون آتش جوان ہوتا گیا، ہم اٌس اے حمید سے بھی آشنا ہوتے گئے جو پٌھولوں، خوشبوں، تتلیوں، خوش رنگ پرندوں، ابلتی چائے کی بھاپ اڑاتے اور خوشبو بکھرتے سماوار، رنگون و برما کی گرجتی برستی ہوئی بارشوں میں درختوں کی گھنی شاخوں سے چھتی ہوئی گلیوں اور گھنے جنگلات کے رومان انگیز تذکروں، عالمی جنگوں کے کنیوس پر بکھریں رومانچک داستانیں اور دیس بدیس کی حسیناؤں کے حسین احوال اپنے جادو اثر قلم سے تخلیق کر کے ان میں اپنے مخصوص رومان انگیز اسلوب کی چاشنی گھول گھول کر اپنے قاری کو ایک ایسے منفرد رنگ، نور و آھنگ سے روشناس کرواتے ہیں کہ جو اسے کسی خوابناک جہان ِدیگر کی سیر کرواتا ہے اور اسپر اس جہان ِنو کے وہ وہ نہاں دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں جو پھر زیست کے ہر لمحہ و لحضہ اسکے احساسات میں اسکے دوش بدوش رہ کر اسکے زوق ِ جمالیات کو مہمیز بخش کر اسے زندگی اور اسکی رنگینیوں اور اس رنگ برنگی دنیا جہاں ہر قدم پر نت نیے پھول، خوشبو، تتلیاں، رنگ برنگے پرندے، روح میں اترتی بارشیں اور نا جانے کیا کچھ اور موجود ہیں، سے لطف اٹھانے اور ان میں اپنی زات کو تیاگنے کا فن و ہنر سکھاتے چلے جاتے ہیں۔

منٹو نے کہا تھا:۔ ۔’’اے حمید تم بکواسی ہو، کھمبے کو دیکھ بھی رومانٹک ہوجاتے ہو‘‘۔

اور ہم (ناچیز اور کچھ کہنے کے لائق نا ہوتے ہوئے بھی) کہتے ہیں:۔ ۔’’اے حمید کی کتابیں پڑھ کر تو کوئی کھمبہ بھی رومانٹک ہو جائے‘‘۔

ہم سب کا یہ محبوب مصنف اے حمید پچھلے کچھ عرصے سے بستر ِ علالت پر دراز ہے۔ آئیں ہم سب مل کر دعا کریں کہ پھولوں، خوشبوں، تتلیوں، پرندوں، بارشوں،جنگلوں اور ساری دنیا سے محنت کرنے اور اس محبت کا اپنی تحریروں میں برملا اظہار کرنے والے اس عظیم قلمکار کو خدا اتنی پھرپور صحت اور اتنی طویل عمر عطا فرمائے کہ ہم اب تک اس کے جادوئی قلم سے نکلے جتنے حسین اور پراثر الفاظ پڑھ چکے ہیں، اس سے بھی کہیں گنا اور زیادہ پڑھ سکیں آمین۔
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 51151 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.