ہدف

مولانا فضل الرحمن پر یکے بعد دیگرے دو خود کش حملوں نے محب دین ووطن حلقوں کو گہرے رنج اور افسوس میں مبتلا کردیا۔صوابی ،چارسدہ حملوں کے نتیجے میں دودرجن کے قریب بے گناہ پاکستانی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔پاکستانی سیاست میں مولانا کا متحرک اور فعال کردار صاحبان نظر پہ ہرگز مخفی نہیں۔ ایسے لمحات میں جبکہ ملک اندرونی وبیرونی ریشہ دوانیوں میں گھر چکا ہے۔عوام سے لے کر خواص تک ہر ایک غیروں کی آگ کا ایندھن بن رہا ہے۔سابق آمر کی طرف سے صلیبی اتحاد کی پشت پناہی اور ان کی بندوقوں کے لیے اپنے کندھوں کی فراہمی جیسی ملک دشمن پالیسیاں، اب خوفناک روپ دھا ر چکی ہیں۔ ہر طرف بے اطمینانی ،بدامنی ،معاشی ابتری اور اَن دیکھے خوف کا احساس ہے۔ملک کا کوئی گوشہ ملک دشمن تخریب کاروں کی تگ وتاز سے خالی نہیں رہا۔وطن عزیز کی جغرافیائی سرحدوں کا نقشہ بدلنے کے لیے استعمار ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔یہ خیال ہی روح کو گھائل کردینے کے لیے کافی ہے کہ دشمن نے اب ہماری صفوں میں ایسے لوگ پیدا یا تلاش کرلیے ہیں ،جو ان کے مکروہ ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ،دا نستہ یا نادانستہ طور پر کمربستہ ہیں۔

جیسا کہ اپنے پرائے سبھی پر یہ حقیقت خوب عیاں وبیاں ہے کہ مادر وطن کی بنیاد خالصتاً کلمہ توحید پر رکھی گئی تھی۔ایسا ملک جس کے دستور میں اقتداراعلیٰ اور حاکمیت مطلقہ کا اختیار فقط اللہ بزرگ وبرتر کے لیے مانا گیا ہو۔جہاں کتاب وسنت کے منافی قانون سازی ممنوع قرار دے دی گئی ہو۔جس ریاست کو عوام کے فلاح وبہبود کے لیے منظم منصوبہ بندی کا پابند بنایا گیا ہو۔وہاں صہیونی قوتوں کی سازشیں اور چالیں کیا کیا گل کھلاتی ہیں؟نیز کفر کے ہرکارے تخریب وفساد کے خاکے میں کس طرح اپنا رنگ بھرتے ہیں؟اس کا جواب ملک کے موجودہ منظرنامے میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔اعداء دین وملت کی ہمہ جہت سازشوں اور ہتھکنڈوں کے باوصف دستور پاکستان میں اسلامی شقوں اور ترمیمات کا ثبوت وبقا،نہ صرف ہمارے ملی تشخص کی ضمانت ہے بلکہ ہزار خامیوں اور برائیوں کے باوجود اہل وطن کے لیے نشانِ راہ کا کام بھی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام افراد،جماعتیں اور نظریاتی حلقے جو استعماری طاقتوں کے ناپاک مقاصد کے سامنے سد سکندری کی مانند کھڑے ہیں،شیطان کے چیلوں کی نظر میں بری طرح کھٹک رہے ہیں۔

افغانستان وعراق میں انسداد دہشت گردی کی آڑ میں جاری صلیبی جنگ ،ہلال کے سپاہیوں کے ہاتھوں اپنے منطقی انجام کے قریب ہے۔ان حالات میں امریکا اور اس کے حواری اپنی پیشانی پر لگے داغ کو مٹانے کے لیے جس طرح عالم اسلام بالخصوص پاکستان میں شورشیں بپا کر رہے ہیں وہ کسی صاحب دانش سے پوشیدہ نہیں۔ اوباما انتظامیہ کا جاری کردہ تازہ اعلامیہ ”پاکستان نے قربانیوں کے باوجود عسکریت پسندوں کے خلاف واضح راستہ نہیں اپنایا“اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔یہ بیان پاکستانی حکمرانوں کے منہ پر کھلا طمانچہ ہے۔ملکی ترقی اور خوشحالی کا وہ کون سا میدان ہے جہاں سامراجی عفریت نے اپنے پنجے نہ گاڑ رکھے ہوں؟افتراق وانتشار،عدم سکون ،افلاس وگرانی اور امن وامان کی مخدوش صورتحال جیسی خون آشام بلائیں، آج امریکی پالیسی کی بدولت ارض پاک پہ سایہ فگن ہیں۔ارباب اقتدار کی ناقص تدبیروں کے سبب ہراعلیٰ وادنی ٰ ،ہر چھوٹا و بڑا اس بھٹی سے نکلنے والے دھوئیں کی کالک سے متاثر ہے۔ یوں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ملک کے جوہر ی اثاثوں کو تباہ یا ناقابل استعمال بنانے کے لیے تانے بانے بنے جارہے ہیں۔ شمالی وزیرستان ،سوات اور دیگر شمالی علاقہ جات میں فوج اور مقامی قبائل کو باہم دست وگریبان کرا کر اپنی مرضی کے نتائج برآمد کرنا،یہودوہنود کی دیرینہ آرزو کا ابتدائیہ و افتتاحیہ ہے۔

ملکی تاریخ کی اس نازک گھڑی میں جب عوامی نمائندے ہونے کے دعویداروں کے پول بیچ چوراہے کھل چکے ہوں،ہر طرف انانیت اور خود غرضی کا دور دورہ ہو،ملکی دولت ووسائل کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کیا جارہا ہو،قومی یکجہتی وملکی سلامتی پر مبنی پالیسیوں کو پس پشت ڈال کر غیروں کی ہاں میں ہاں ملانے کا چلن عام ہو۔ایسے میں سوچ وفکر کی پختگی اور دینی حمیت سے مسلح افراد اور جماعتوں کا وجود ملک کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔رواں سال کی ابتدا میں قانون ناموس رسالت کی بقا اور تحفظ کے لیے ملک کی دینی وسیاسی جماعتوں نے جو قابل رشک کردار ادا کیا ،وہ کفر کے سرغنوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔مولانا فضل الرحمن پر حملوں کے ڈانڈے اصلاًیا تبعاً انہی اسلام دشمن عناصر سے جاملتے ہیں ،جو پاکستان میں دینی قوتوں کی بیدار مغزی اور پرامن حکمت عملی سے خائف ہیں،جو پچھلے 63سالوں سے ہر موقع پر اپنے مقامی ایجنٹوں کے طفیل مذہبی طبقات کا بری طرح استحصال کر رہے ہیں،جو نام نہاد ”اصلاح احوال “کے ٹھیکے دار بن کر ہر اُس خطے میں اپنے منحوس قدم جما دیتے ہیں جہاں کے قدرتی ومعدنی وسائل وذخائر سے ان کے مفادات وابستہ ہوں۔

یہ امر بھی روز روشن کی طرح خوب واضح ہے کہ صنادید کفر وطن عزیز میں موجود دینی رجحانات کی حامل مذہبی قیادت اور علماء راسخین کو اپنے راستے کا آخری سنگ گراں سمجھتے ہیں۔کیونکہ یہی وہ سرفروش اور جانباز طبقہ ہے جس نے کفر کے مذموم عزائم کو نتھ ڈالی ہوئی ہے۔گزری دو دہائیوں سے مسلسل علمائے ربانین کو شہید کیا جارہا ہے ۔ایک مرتبہ پھر اسی قبیلے کی ایک سربر آوردہ شخصیت کو ہدف بنا کر یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ ہمیں پاکستان میں موجود دینی میلانات و رجحانات کے حامل اشخاص،جماعتیں اور قیادتیں کسی طور قبول نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اب جبکہ طاغوت اپنے کیل کانٹے سے لیس ہوکر میدان کارزار میں اتر چکا ہے،وہاں حق کے سپاہی اپنی صف بندی پر توجہ دے کر ہر قسم کے اختلاف وافتراق کو نظر انداز کردیں۔مکمل اتحادواتفاق اور باہمی یکجہتی کے جوہر سے آراستہ ہوکر دشمن کے دانت کھٹے کرنے کا مؤثر سبب ثابت ہوں ۔

حالات کی تیرگی میں روزافزوں اضافے کے باوجود ،مولانا فضل الرحمن کا تازہ اظہار خیال دینی طبقوں کے لیے ظلمت شب میں نور سحر کی نوید اور شکستہ دلوں کے لیے ایک حوصلہ افزا پیغام ہے۔مولانا کا بیان ہے کہ:”قوم کی رہنمائی اور انہیں اصل حقائق سے آگاہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے، جسے ہم پورا کرتے رہیں گے۔ کوئی بھی سازش ہمیں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے پرامن جدوجہد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔ حالات دن بدن بدسے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔معلوم نہیں کہ بات کہاں تک جائے گی لیکن قوم کو بڑی خبریں ملتی رہیں گی۔“
Yareed Ahmed Nomani
About the Author: Yareed Ahmed Nomani Read More Articles by Yareed Ahmed Nomani: 21 Articles with 30109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.