کیا دین اسلام بازیچۂ اطفال ہے۔۔۔ ؟

دین حق کو بازیچۂ اطفال سمجھنے والوں کے نام

دین اسلام کی حقانیت سے انکار ناممکن ہے۔ یہی وہ دین ہے جو رہتی دنیا تک کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ادیان ناقابلِ قبول ہیں ۔ اخروی فلاح و کامیابی کے لیے دینِ اسلام کا دامن تھامنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر نجا ت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ آج امتِ مسلمہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں بھی فتنوں کا شکار ہے۔ بدقسمتی سے دینِ اسلام کو بازیچۂ اطفال سمجھ لیاگیا ہے۔ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا شخص جسے اسلام کی الف نہیں آتی وہ اسلام پر بات کرنا شروع کردیتا ہے۔ اسلام کو بازیچۂ اطفال سمجھ لیا گیا ہے۔ صاحب! دین کوئی مذاق نہیں ہے ۔ اس کی حساسیت کو سمجھنا چاہیے ۔ ہر شعبہ اور علم کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور اس شعبہ کے ماہرین ہوتے ہیں۔ جس طرح کسی عام اور تعلیم سے نابلد شخص کی سائنس، میڈیکل اور فلسفہ وغیرہ پر گفتگو کو جہالت سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ اسی طرح بغیر سیکھے اور سمجھے دینِ اسلام اور شریعت پر گفتگو کو بھی جہالت سے تعبیر کیاجائے گا، اگرچہ وہ اپنی فیلڈ کا ماہر ترین شخص ہو اور صاحبِ منصب ہی کیوں نہ ہو، اگر دین کے متعلق اسے علم نہیں تو اسے ہر گز دینی معاملا ت میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں حسبِ خواہش بات نہیں کی جاسکتی ۔ خاص طو رپرشریعت اور صاحبِ شریعت کے متعلق گفتگو کرتے وقت محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ الفاظ کا چناؤ بھی ایسا ہو نا چاہیے کہ کوئی بھی لفظ کسی بھی جہت سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان کے خلاف نہ ہو۔ یہاں تک کہ وہ ذو معنی بھی نہ ہو۔ اسی طرح ہر علم کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہیں اور جب اس علم پر بات کی جائے تو اسی کی اصطلاحات استعمال ہونی چاہئیں۔ اپنی مرضی سے کوئی اور متبادل استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ جیسے مالِ غنیمت ایک خاص اصطلاح ہے، اس کے لیے لوٹ ما رکا لفظ استعمال کرنا انتہائی سنگین غلطی اور جہالت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران بھی اس غلطی کو نہیں سمجھتے اور اپنی تقاریر میں بے دھڑک غیر مناسب الفاظ کہنا شروع کردیتے ہیں۔

وزیرِ اعظم دینی حوالے سے جب بھی کوئی تقریر کرتے ہیں تو اس میں کچھ نہ کچھ ایسی بات ضرور کرجاتے ہیں جو اسلام سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ان کی گذشتہ تقاریر اٹھاکر دیکھی جاسکتی ہیں جس میں کبھی مالِ غنیمت کے لیے لوٹ مار کا لفظ استعمال کیا گیا۔ کبھی صحابہ کرام کے لیے ڈرپوک کا لفظ استعمال کیاگیا۔ اور حال ہی میں حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق ذلیل کا لفظ استعمال کیاگیا (نعوذ باﷲ)۔ حالانکہ وزیر اعظم کا یہ شعبہ ہرگز نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ یا تو وہ اسلام کے متعلق مطالعہ کریں پھر گفتگو کریں یا پھر اس موضوع کو زیرِ بحث ہی نہ لائیں۔ خوامخواہ بغیر سوچے سمجھے دینی معاملات میں عمل دخل نہ کریں۔ یہ معاملہ صرف وزیر اعظم کی حد تک نہیں ہے بلکہ دیگر وزراء نے بھی دینِ اسلام کو بازیچۂ اطفال بنایا ہواہے۔ ہر کچھ دن بعد دین اسلام کو براہِ راست ٹارگٹ کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑدیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وفاقی وزیر مذہبی امور بھی ان کی اصلاح نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں اس ناپاک جسارت سے روکتے ہیں۔

جس طرح ہر شعبہ کے ماہرین ہوتے ہیں، اسی طرح دین کے بھی کچھ ماہرین ہیں جنہیں علماء کہا جاتا ہے۔ لیکن ستم بالائے ستم یہ ہے کہ یہاں بعض ایسے نام نہاد علماء بھی ہیں جو صحابی رسول پر تنقید کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ ایک عالم صاحب نے تو حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے خلاف پوری کتاب لکھ ڈالی اور ان کو باغی ثابت کرنے کی ایسی کوشش کی جیسے کہ یہ معاملہ ضروریاتِ دین میں سے ہو اور اس پر ایمان ضروری ہو(نعوذ باﷲ) ۔ نہ جانے کون سا ایسا دین ہے جس میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کو باغی کہے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ اسی طرح حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے محبت کا ایسا کون سا تقاضا ہے جو بغضِ معاویہ رضی اﷲ عنہ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک نامور عالم اور جوشیلے مقرر صاحب نے تو حد ہی کردی کہ صحابی رسول حضرت سفیان رضی اﷲ عنہ کے لیے ’’پلید‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ یہ جرأت کرنے کے بعد اس پر دلیل دیتے ہیں کہ میں اسلام سے پہلے کی بات کررہاہوں۔ اسلام لانے کے بعد تو وہ صحابی رسول ہوگئے۔ لیکن میں اسلام سے پہلے کی حکایت بیان کررہاہوں۔ وہاں بیٹھے جاہل لوگ سبحان اﷲ کے نعرے لگارہے ہیں۔ معلوم نہیں ان عالم صاحب کو صحابی رسول کو پلید کہنے سے کیا ملا ہوگا؟ اب کوئی ان سے پوچھے کہ جن صحابہ کرام کی زندگی قبل از اسلام اس دور کے معاشرے کے مطابق گزری تو کیا اسلام لانے کے بعد ان کے لیے بھی ایسے الفظ استعمال کیے جاسکتے ہیں؟ کوئی بھی اہل ایمان اس بات کی تائید نہیں کرے گا۔ سب کو معلوم ہے کہ اسلام سے پہلے کا عرب معاشرہ کیسا تھا۔ لیکن اس کو بنیاد بناتے ہوئے صحابہ پر الزام تراشی یا زبان درازی کی ہمت کوئی نہیں کرسکتا۔ جب ہمیں ایک قاعدہ مل گیا کہ ’’الاسلام یھدم ماکان قبلہ ‘‘ یعنی اسلام سے پہلے کے تمام اعمال باطل ہیں تو اب کسے یہ جرأت ہوسکتی ہے کہ وہ صحابی رسول پر طعن کرے۔ جب اسلام نے انہیں معاف کردیا تو اب کسی بھی شخص کو ان پر اعتراض کرنے اور انہیں برے القاب سے یاد کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ اسی طرح بعض علماء اہلبیتِ اطہار کے متعلق اپنی زبان درازی کو دینِ اسلام کا لازمی جزو سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ یزید کو حق پر حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کو باطل پر سمجھتے ہیں۔

اسی طرح میڈیا کے ایک اور ’’دانشور اور اسکالر‘‘ جاوید احمد غامدی احکام دین کی ایسی تعبیر و تشریح کرتے ہیں جو چودہ سو سال سے کسی کے ذہن میں بھی نہیں آئی ہوتی۔ موصوف صرف اپنی مرضی کی احادیث کو معتبر قرار دیتے ہیں اور احادیث کے ایک بہت بڑے ذخیرے کو خاطر میں بھی نہیں لاتے۔ سیاستدان اور دین سے بیزار لوگ اس طرح کی بات کریں تو ہم ان پر جہالت کی مہر لگاسکتے ہیں لیکن جب پڑھے لکھے علماء جنہوں نے اپنی پوری زندگی دین پر وقف کی ہوں ‘جب وہ اس طرح کی بات کریں تو ان کے اس رویے کو کیا نام دیا جائے؟ علماء کے اس رویے سے دین اسلام کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ لوگ کنفیوژن کا شکار ہیں کہ کون صحیح کہہ رہا ہے اور کون غلط بیانی کررہا ہے۔ اسی وجہ سے لوگ دین سے دور ہوکر شخصیت پرستی کا شکار ہورہے ہیں۔ جس کا حلقۂ احبا ب تھوڑا سا بڑا ہوجائے اور چند معتقدین اس کے ہاتھ چومنے لگ جائیں تو وہ اپنے آپ کو ہوا میں اڑتا ہوا محسوس کرنے لگ جاتاہے اور سمجھتا ہے کہ بس اب پوری دنیا اس کے تبابع ہوگئی ہے۔ اب وہ جو کچھ بھی کہے گا وہی حق اور سچ ہوگا۔ اس کے علاوہ سب کچھ باطل ہوگا۔ خدا کے لیے! دین کے ساتھ مذاق بند کریں۔ افراط و تفریط کو چھوڑ کر راہِ اعتدال اختیار کریں۔ وہی اسلام لوگوں کو بتائیں جو حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو بتایاتھا اور صحابہ نے تابعین کو بتایا تھا۔ نئے پیش آنے والے مسائل کی وہی تشریح کریں جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہو۔ اسلام کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کے بجائے اپنی خواہشات کو اسلام کے تابع کریں۔

 

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 76382 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.