اور یوں نقاب چہرے سے اتر گیا۔

پرویز مشرف کے خلاف ہونے والے حالیہ فیصلے کو اگر صحیح سیاق وسباق (context) سے نہ سمجھا جائے تو ہم سب بحیثیت قوم فاصلوں کا شکار ہونگے ۔

پہلے اس کہانی کے ایک بنیادی کردار جسٹس وقار احمد سیٹھ کا پس منظر دیکھتے ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنتے ہی انھوں نے فوجی عدالتوں میں ہونے والے فیصلوں کی جانچ پڑتال شروع کی، وہاں کے لاپتہ افراد(missing persons) کے بارے میں تفصیلات مانگیں اور ساتھ ہی پشاور میٹرو کے بی آر ٹی پروجیکٹ میں ہونیوالے کرپشن کی معلومات کیلئے ایف آئی اے کو حکم دیااور یہ سارے وہ اقدامات تھے جنکی موجودہ وفاقی حکومت اور آرمی نے سخت مخالفت کی ۔ لہذا انکی شخصیت پہلے ہی سے سیکیورٹی اداروں کی طرف سے ہونے والے حالیہ اور سابقہ زیادتیوں سے بخوبی آگاہ تھی۔اب جبکہ انکے ذہنی صحت پر اعتراضا ت اٹھائے جارہے ہیں تو حکومت کو یہ بات یاد آنی چاہیے کہ کلبو شن یادو کے کیس میں عالمی عدالت انصاف میں جب انڈیا نے یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ کلبوشن کا ٹرائل پاکستان کے فوجی عدالتوں میں چلا ہے لہذا اسکے صحیح ہونے میں تردد ہے تو پاکستان کے نمائندہ وکیل نے اسکا دفاع اس دلیل کے ساتھ کیا تھا کہ یہاں فوجی عدالتیں بھی دیگر کورٹس کے ما تحت ہیں جسکا ثبوت یہ ہے کہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ایسے 74سزاؤں کو کالعدم قرار دیا تھا جو فوجی عدالتوں کی طرف سے دئیے گئے تھے۔

پرویزمشرف کی کہانی اور انکا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ اکتوبر ۱۹۹۹ میں ایک منتخب شدہ حکومت اور اسمبلی کو فوجی قوت کے ذریعے غیر آئینی طریقے سے گھر بھیجنے کے علاوہ انکے جرائم کی فہرست طویل ہے۔ اس فہرست میں نواب اکبر بگٹی کو شہید کرنا، لال مسجد کے معصوم بچیوں کو کیمیکل بموں کے ذریعے زندہ جلانا، ۱۲ مئی ۲۰۰۷ کو کراچی میں خون کی ہولی کھیل کر فرعونیت کا مکا لہرانا، افتخار چوہدری کو ایک بار فارغ کرنے میں ناکام ہوکے دوسری بار نومبر ۲۰۰۷ میں اپنے خلاف متوقع فیصلے کو روکنے کے لئے پرامن حالات میں آئین کا مذاق اڑاتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کرکے پوری عدلیہ کو فارغ کرکے گھروں میں محصور کرنا، میڈیا کا کئی دن تک blackout کرنا اور جعلی عدلیہ تشکیل کرکے غیر آئینی طریقے سے دوبارہ باوردی صدر بننا وغیرہ شامل ہیں۔

آرٹیکل 6 کے تحت انکے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ قائم کر کے سخت سے سخت سزا دینے کے لئے سب سے زیادہ عمران خان نے آواز اٹھائی اور انہی کے پراسرار زور پر ہی نواز شریف کے دور میں ان پر مقدمہ قائم کیا گیا، اس مقدمے کی تقریباً ۱۲۵ پیشیاں ہوئیں، 6 بار مشرف کو بیان ریکارڈ کرنے کا موقع دیا گیا مگر آپ جناب مفرور رہے اور آپ کے وکیل مقدمے کو طول دینے کی کوشش کرنے میں مصروف رہے۔۱۷ دسمبر کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سزائے موت کا فیصلہ دیا اور ۱۹ دسمبر کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار کے پیرا 66 نے دھوم مچا دی جس میں انھوں نے کہا کہ اگر پھانسی کے فیصلے سے پہلے مشرف کی موت واقع ہو جاتی ہے تو ان کی لاش سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک پر تین دن تک لٹکائی جائے۔ اس پیرا کا مقصد علامتی طور پر ان جرائم کی سنگینی بیان کرنا تھا جو مشرف نے کیے۔ مزید اس پیرا کا مقصد یہ تھا کہ جس مقدمے کا ۷۲ سال میں پہلی با ر ایک جراءتمندانہ فیصلہ ہوا اس کو انتہائی نمایاں طور پر بطور مثال دکھایا جائے اور تیسری بات یہ کہ اگر سزا سے پہلےمشرف صاحب کی موت واقع ہو جاتی ہے تو یہ نہ لگے کہ یہ فیصلہ صرف دکھانے کی غرض سے ہوا۔

اس فیصلے پر ردعمل انتہائی افسوسناک ہے۔ عمران خان جو اسطرح کے فیصلے کے سب سے بڑے حامی تھے انھوں نے تا حال خاموشی اختیار کی ہے اور کوئی بھی مناسب ردعمل نہیں دے سکےہیں۔ جبکہ انکےوہ ساتھی جو مشرف کی باقیات ہیں اور انکے ساتھ شریک جرم وہ اپنے کرتوت چھپانے کے لئے توہین عدالت کا ارتکاب کررہے ہیں اس ایما پر کہ فوج ہمارے پیچھے کھڑی ہے۔

ملک کی دو بڑی جماعتوں کا ردعمل بھی حیران کن طور پر خاموشی ہی کاہے اور وہ اب بھی اسی کوشش میں ہیں کہ یہ معلوم کرسکے کہ اس صورتحال سے انہیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے اور حتی الامکان یہ کوشش کی ہے کہ ردعمل ایسا ہو کہ جس سے فیصلے کو صحیح بھی سمجھا جائے اور فوج بھی ناراض نہ ہو ۔

عدلیہ کا ردعمل تفصیلی فیصلے میں سامنے آیا ہے اور انھوں نے اپنے پچھلے گناہوں پر اعتراف اور ندامت ان الفاظ میں کی ہے کہ اعلی عدلیہ کے نظریہ ضرورت ہی کی وجہ سے ملک میں یہ انتہائی غلط روایات جاری رہے ہیں۔

فوج نے ۲۰۰۸ کے بعد ھمیشہ سے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے مگر اس فیصلے پر انکا ردعمل فوج کو مزید متنازعہ اور کمزور بنانے کی طرف لے جارہا ہے۔ اس فیصلے کو غیر انسانی اور غیر مذہبی قرار دینے والے ٹویٹر جنرل شاید لال مسجد کی معصوم بچیوں کو کیمکل بموں سے زندہ جلانا انسانی فعل سمجھتے ہیں اور یا پھر وہ بھول رہے ہیں کہ اسی مشرف نے اکبر بگٹی کی لاش کے تابوت کا تالا بھی نہیں کھولنے دیا تھا۔ اور اگر انکی یادداشت کمزور ہے تو جنرل ضیاءالحق کی وہ ناشائستہ اور غیر انسانی حرکت یاد دلا دیتے ہیں کہ جب انہوں نے بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد برہنہ کرکے تصویریں بنوائیں اور یہ تک چیک کیا کہ انکا ختنہ ہوا تھا کہ نہیں اور یہ تو ہم یا د نہیں دلاتے کہ کسطرح سوات کے آپریشن میں زندہ انسانوں کو انہوں نے ہیلی کاپٹروں سے گرایا تھا اور بلوچستان اور قبائلی علاقوں کے مظالم کی تو الگ سی داستانیں ہیں۔

اس ایک مقدمے سے پاکستان کی تاریخ کے سیاہ چہرے سے یوں نقاب اتر جاتا ہے کہ جب بھی کچھ غلط ہوا اور جب بھی کسی مجرم کو سزا نہیں ملی اسکی بنیادی وجہ یہی تھی کہ اس مجرم کو کرپٹ سیاست دانوں، نظریہ ضرورت کے حامی ججوں اور سیاسی مداخلت کے شوقین فوجی مفاد پرستوں کی حمایت مل جاتی تھی۔ حال ہی میں یہ دیکھا گیا کہ جب بھی اختر مینگل کسی مسئلے پر ناراض ہو کر تھوڑا سخت لہجہ اپناتے ہیں اور حکومت سے الگ ہونے کا اشارہ دیتے ہیں تو بہت سارے لا پتہ افراد فوجی بیرکوں سے گھر پہنچائے جاتے ہیں۔ آگے اگر عدلیہ تھوڑا سا بھی سخت موءقف اپناۓ گی تو ہمیں بہت سارے راوء انوار، عامر باکسر، عزیر بلوچ اور MQM کے پرانے بدمعاش انہی بیرکوں سے نکلتے ہوئے دکھائی دینگے جنہیں استعمال تو سیاست دانوں اور سیکیورٹی اداروں نے کیا اور اب پناہ فوجی اسبلشمنٹ نے دی ہے تاکہ سیاسی جوڑ توڑ کے کسی مناسب موقع پر انہیں بلیک میلنگ کے لئے استعمال کیا جا سکے اور مزید قوت نظریہ ضرورت اور Whatsapp سے کنٹرول ہونے والے عدلیہ کی طرف سے ملی ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ عدلیہ کی طرح موجودہ حکومت اور فوج بھی اس اہم فیصلے پر کہتے کہ ہم قانون کی بالادستی کیلئے اس فیصلے کو مکمل احترام دیتے ہیں اور آئندہ فوج سے ایوبیت، ضیائیت، یحیییت اور مشرفیت کو جڑ سے اکھاڑتے ہیں جسطرح عدلیہ سے منیریت، ڈوگریت اور ثا قب نثاریت ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور ایسا کر کے اس حکومت اور فوج کا وقار کتنا بلند ہو جاتا۔

Muhammad Lal Babar
About the Author: Muhammad Lal Babar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.