مفت کا حج

حج ایک خالصتاً ذاتی مذہبی معاملہ ہے، جو صاحب ِ نصاب ہے ، اس پر فرض ہے ، یہ الگ بات ہے کہ معاشرے میں بے شمار صاحبانِ نصاب ”غیرنصابی “ سرگرمیوں میں زندگی گزار جاتے ہیں مگر حج جیسے اہم فرض کی طرف توجہ نہیں کرتے۔یہ بھی عجب بات ہے کہ بے شمار ایسے لوگ جو نصاب کی شرائط پوری نہیں کرتے ، اپنی سچی لگن کی بنا پر ان کی رات دن کی دعائیں اور حسرتیں کام آ جاتی ہیں، ان کی منظوری کے سرٹیفیکیٹ کا بندوبست خود ہی ہوجاتا ہے۔

حاجیوں کے قافلوں کی روانگی یا واپسی کا منظر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان میں بہت سے لوگ عمر رسیدہ اور کمر خمیدہ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی آنکھوں میں بلا کی چمک او ر دل میں خالقِ کائنات اور وجہ تخلیقِ کائنات ﷺ کی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے،ان کی نظروں میں یہاں کی کوئی چیز نہیں سماتی ، یہی وجہ ہے کہ اس کا دل ان سب چیزوں سے اچاٹ ہوتا ہے ، ان کی لو کسی اور جگہ لگی ہوتی ہے۔ ان لوگوں نے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کو انتظار کی سولی پر لٹکا کے یہ رتبہ حاصل کیا ہوتا ہے، پائی پائی جوڑ کر یہ رقم اس قدر بنتی ہے کہ حج کے اخراجات پورے ہوسکیں، ان کی زندگی کی اہم ترین حسرت یوں پوری ہوتی ہے۔

کچھ قافلے ایسے ہوتے ہیں ، جنہیں کوئی نہ جاتے ہوئے دیکھ سکتا ہے ، اور نہ اس مقدس سفر سے واپسی پر کسی کو ان کے آنے کی خبر ہوتی ہے،یہ خصوصی اور وی آئی پی لوگ خصوصی طیارے میں سب سے آخر میں جاتے ہیں اور اسی جہاز پر سب سے پہلے واپس لوٹ آتے ہیں، ان کا خرچہ قومی خزانے سے ادا کیا جاتا ہے، اور قومی خزانہ عوام کو نچوڑ کر ، ان کا خون چوس کر یا غیر ملکی امداد اور قرض حاصل کر کے بھرا جاتا ہے۔ مال ِ مفت ، دلِ بے رحم کے مصداق حکمران ، ان کے دوست احباب اور من پسند صحافی مفت حج کے مزے لوٹ آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہماری فاقہ مستی رنگ لائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے راستہ نکال لیا ہے۔

رواں سال میں حج کے موقع پر حکومتی سطح پر کرپشن کے قصے زبان زد عام ہوئے تو معاملہ عدالت عظمیٰ تک جا پہنچا، مفتے کے حاجیوں کی بد قسمتی کہ عدلیہ آزاد ہے ، اور اب کرپشن کی اس طویل داستان کے تمام کرداروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ وزیر مذہبی امور فی الحال اپنی وزارتی ذمہ داریوں کی جوابدہی کے لئے جیل میں موجود ہیں، عوام کی خواہش ہے کہ اس کہانی کے دیگر اہم کردار بھی جلد سامنے لائے جائیں تاکہ قوم اپنے مخلص رہنماؤں کے اصلی چہرے دیکھ سکیں۔ لیکن یہ مفت حج والا معاملہ دوسری کرپشن سے ذرا مختلف ہے۔ جیسے حج میں کرپشن شروع سے ہوتی آئی ہے ، ایسے ہی مفت کے حج کا کلچر بھی بہت پرانا ہے۔

مفتیان کرام سے معلوم کیا جاتا کہ آیا قومی خزانے سے مفت حج کرنا جائز ہے یا ناجائز ، مگر دل خود ہی مفتی بن بیٹھا ہے، کسی طرح اس عمل کو جائز ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا، حکمرانوں کے سرکاری حج سے لے کر ان کے پسندیدہ افراد تک کے یہ حج کیسے قبول ہوسکتے ہیں ، جس پر انہوں نے اپنی جیب سے خرچ ہی نہیں کیا۔ اب عدالت عظمیٰ نے حکم جاری کیا ہے کہ گزشتہ دو برس میں جن لوگوں نے بھی مفتہ لگا کر فریضہ حج ادا کیا ہے ، وہ دو ہفتے کے اندر اندر اس کے اخراجات کی ادائیگی کردیں۔ اب ان لوگوں کو ادائیگی تو کرنی ہی پڑے گی ، بہتر ہو کہ یہ فوری اور نیک ارادے سے یہ رقم ادا کردیں نہ کہ ایک جرمانہ یا مصیبت جان کر ،کیونکہ حج وہی ہے جو اپنے خرچ پر اور اپنی خوشی سے کیا جائے۔

ماضی میں جن لوگوں نے بھی عوام کے پیسوں سے عوام کی مرضی کے برعکس حج کیا ہے ، وہ خود ہی نیک نیتی سے رقوم خزانے میں جمع کروا دیں، تاکہ ان کا حج ان کے اپنے کھاتے میں لکھا جائے۔ ویسے بھی اگر عدالت میں 32سال پرانے کیس ری اوپن ہو رہے ہیں، جس کے اکثر گواہ اور جج وغیرہ اس عارضی دنیا سے کوچ کرچکے ہیں، تو جو لوگ مفت کے حج والے ابھی زندہ و سلامت ہیں وہ خود ہی سامنے آئیں اور اپنے حج والے سال کے حساب سے رقم قومی خزانے میں جمع کروا دیں،عدالت عظمیٰ کے کسی فیصلے سے قبل ہی اپنے ضمیر کا فیصلہ صادر کریں اور اس پر عمل کر گزریں۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ساری رقم سیلاب زدگان کی بحالی پر خرچ کردی جائے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 434010 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.