اسے دُشوار تر میں نے کیا

زندگی بہت آسان ہے بہت سادہ، اگر اسے اسی فطرت کے زیرِاثر گزارا جائے جو خالقِ فطرت نے ہماری روح میں گوندھ دی ہے۔ اپنی فطرت سے اور آپ سے دور آج کا انسان، لگتا ہے خود کو کہیں گم کر بیٹھا ہے ۔خود آگے بہت آگے نکل آیا ہے اور انسانیت کہیں پیچھے چھوڑ چھاڑ آیا ہے ۔جبھی تو خود کو پانے کی تڑپ ایک آہ بن کر اس کے لبوں سے سسکی کی طرح فضا ء میں منتشر ہوتی اور روح کو منتشر کر دیتی ہے

کب سے اپنی تلاش میں گم ہوں
میرے خدا مجھے مجھ پہ افشا کر

بات ہو رہی تھی آسانی کی تو یاد آیا کہ میرے خالق نے بھی اسے شریعت کا نام دیکر سمجھا دیا کہ یہ تو ہے ہی آسان۔
شریعت دراصل کہتے ہی آسان راستے کو ہیں ۔
ایک ایسا راستہ جو ہماری برداشت کی پکڈنڈی سے ہو کر گزرتا ہے۔
وہی برداشت کہ عام سے عام فرد بھی جس کا حامل ہوتا ہے۔ کسی کی برداشت سے زیادہ بوجھ لاد دے تو اس بے نیاز و بے عیب ذات کی زیبائی پر حرف جو آتا ہے۔اس کی ذات پہ حرف ائے اسے یہ کب منظور ہے ۔
اسی لئے تو سورہ بقرہ کی آخری آیات میں واضح اعلان فرما دیا کہ
'’لا یکلف اللہ نفس الا وسعاھا‘‘
(وہ کبھی برداشت سے زیادہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا)۔
یہی وجہ ہے کہ اس نے، جو سراسر حق ہے سراسر حسن ،
فطرت کو دین اسلام کے سانچے میں ڈھال کر تخلیق فرماتا اور ہر مولو د کو اسی فطرتِ سلیمہ پر پیدا فرماتا ہے کہ شریعت کی پیروی حد درجہ آسان بن جائے اور یوں اپنے بندوں پر ایک بار پھر یہ ثابت کر دے کہ وہ اپنی مخلوق پر خود اس کے نفس سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔
اس سب کے باوجود بھی اگر کوئی یہ کہے کہ شریعت کی اتباع دشوار تر ہے تو اس میں سارا قصور اس کے فہم کا ہے۔اسی کم فہمی کے نتیجہ میں رہبانیت کو پنپنے کا موقع ملتا ہے تو کوئی مادیت پرستی کا اسیر بن جاتا ہے۔
اور تو اور تصوف کی کچھ منفی باتوں میں بھی یہی جذبہ پوری طرح کار فرما دکھائی دیتا ہے۔ جس سے یہ حقیقت ایک بار پھر روشن دن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ انسان فطرت کا مقلد ہے ہادی نہیں ۔
جب یہ بات مسلمہ بھی ہے اور طے شدہ بھی کہ زندگی کے راستے آسان ہیں تو پھر اس تاثر کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے کہ

’’ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے ‘‘
اور
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے

ساری کی ساری شاعری اور سارے کا سارا ادب
’’کوئی اسکی شکایت کرتا ہے کوئی اس سے شکایت کرتا ہے‘‘ کے علاوہ اور ہے ہی کیا ۔
جس کے کندھے کو ہلاؤ وہی جلا بیٹھا ہے۔
کوئی اسی جینے کے ہاتھوں مرچلا ،جو بچ رہا واویلا کرتا پایا گیا۔
آپ کا بھی ایسے لوگوں سے اکثر سابقہ ضرور پڑتا ہو گا جن کی باتیں آپ کے اندر سوئے درد جگا دیتی ہوں گی اور پھر
نوبت با ایں جا رسید

وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ شخص مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے
اکثر لوگ حالات، بیماری، مہنگائی ، بدامنی وغیرہ جیسے مسائل کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔
کم از کم مجھے تو کوئی ایسا مجاہد نہیں ملا جس نے
’’ جیون عذاب ہے یارو ‘‘
کا دعوی نہ کیا ہو۔
ابھی چند پہلے ایک صاحب اپنا بجلی کا بل دکھا کر باقاعدہ آبدیدہ دکھائی دیئے۔
تین ہزار کا بل انکے لئے کسی عذاب سے ہرگز کم نہ تھا۔
انہیں فرار کی کوئی راہ سجھائی نہ دیتی تھی ۔جب راقم نے
’’الیکٹریکل ہوم اپلائنسز‘'
کا حساب لگایا تو مجموعہ پانچ لاکھ کے لگ بھگ بنا ۔
اور اسے بجلی کا میٹر کٹوا دینے کا مشورہ دے ڈالا ' تو بجائے ممنون ہونے کے مغموم ہو کر رہ گئے۔
میرا ایک جاننے والا اکثر شکوہ کرتا ہے
’’کیا فائدہ اس ماسٹری کا کہ ایک استاد ہو کر بھی ہم اپنے خرچے پورا نہیں کر پاتے ۔اس سے تو بہتر ہے ہم چھولوں کی ریڑی لگا لیں۔کم از کم گھر تو چلا لیں گے‘‘۔
مجھے اشتیاق ہوا کہ دیکھوں تو سہی اس نے اپنی زندگی کیسے اجیرن کر رکھی ہے۔
دو ہی دن میں اندازہ ہوا کہ آنجناب کی خوش خوراکی اس ساری مصیبت کی جڑ ہے۔محجوب انداز میں ان کے گوش گزار بھی کیا مگر وہ قائل ہی نہ ہو پائے کہ یہ مشکل اپنی پیدا کردہ تھی اور خود کو غلط کہتا کون ہے؟
ایسی ہی کئی مثالیں ہمارے ارد گرد بکھری ہوئی ہیں جو چیخ چیخ اور پکار پکار کر یہ اعلان کرتی ہیں کہ ہمارے ’’خالق‘‘ ہمیں ’’اون‘‘نہیں کرتے۔
ہم خود ساختہ ہیں بالکل دیسی ساختہ‘‘۔۔۔
پتہ نہیں ہمیں غلطی کے اعتراف اور اظہارِندامت سے اس قدر خوف کیوں آتا ہے ؟
چھوٹی چھوٹی بات
’’ ناک کا مسئلہ‘‘بن جاتی ہے اور اپنی ناک بچانے کیلئے حق کی ناک رگڑنا شاید ہماری قومی عادت ہے۔
اشفاق احمد مرحوم تحریر و تقریر کے بادشاہ تھے۔
اکثر کہا کرتے کہ زندگی کی تمام تر سہولیات و لوازمات آج بھی سستی ہیں ۔ہم نے تعیشات میں پڑ کر انہیں خود سے دور کر دیا ہے۔ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں ناں کہ
زندگی دشوار بھی ہو۔آخر’’ایڈونچرازم‘‘بھی کوئی چیز ہے اور ہماری پوری قوم’’ چیلنجگ ٹاسک‘‘پر جان دیتی بلکہ جان چھڑکتی ہے
(اور جان سے جاتی ہے)۔
جب چیلنج سر سے چمٹتا ہے تو پھر ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں
’’کیا کریں بے ایمانی کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا،جتنا بڑا کاروبار اتنی بڑی بے ایمانی،ایک تنخواہ دار،دیہاڑی دار،دکانداراور بال بچے دار اتنے پیسے کہاں سے لائے کہ اپنے درجن بھر بچوں کا پیٹ پال سکے۔لامحالہ اس نے بے ایمانی ہی کرنی ہے ناں ‘‘۔
درجن بھر بچوں سے آپ نے تو سارا معاملہ جان لیا اب پتہ نہیں وہ کب سمجھیں گے جن کا سمجھنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔
سچ بولنے والوں کا حال پوچھیں تو انکے منہ کا زاویہ بگڑ جاتا ہے۔
’’یار کیا بتاؤں یہ دنیا بڑی ظالم ہے۔مجال ہے جو یہاں سچ کی کوئی قدر ہو۔سچ بول کر ایک بار دیکھ لیا تو سب سمجھ میں آگیا۔اسی دن پکی توبہ بھی کر ڈالی ۔سچ بول کر کھیل بگاڑنے سے بہتر ہے مصلحتِ وقت کے پیشِ نظر جھوٹ بول کر کھال بچالی جائے۔اور ویسے بھی یہ دنیا جھوٹ ہی تو ہے محض ایک بصری دھوکا‘‘۔اب یہ بات سن کر آپکا سر گھومے یا جھومے انکی بلا سے۔
نئے قلم کاروں سے بات ہوئی تو وہ تو ہاتھ دھو کر میرے پیچھے ہی پڑ گئے۔
’’آخر کیا کرے ایک نیا ادیب بھی کہ پرانے ادیب اور مدیران اپنے اپنے گروپ بنا کرادب کی جڑوں میں بیٹھ گئے ہیں۔کوئی معاوضہ دینا تو رہا ایک طرف ، انہیں تو بس کیڑے نکالنے سے غرض ہے۔اگر نہ ملیں تو خود سے ’’ایڈ‘‘کر دیا کرتے ہیں ۔بھولے سے کوئی تحریر لگ بھی جائے تو اتنے ناز اٹھواتے ہیں جیسے ہماری سات پشتوں پر احسان کر دیا ہو۔
اداکار ،صحافی،استاد،حکیم۔۔غرض ہر آدمی کی مجبوریوں کے قصے زبان زدِعام ہیں۔اپنی اپنی فیس سیونگ کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف اس لئے صرف کی جاتی ہیں کہ اپنی ساری ناکامیوں کو دشوار زندگی کے کھاتے میں ڈالا جا سکے۔اور ایسا کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے کوئی بہت بڑا تیر مار لیا ہے ۔کاش یہ کوئی محبت والا کام ہوتا تو کم از کم ہم تھکاوٹ کا شکار تو نہ ہوتے ۔
’’مشکل‘‘زندگی نے ہمیں تھکن سے چور چور کر دیا ہے ۔اندر کی صورتحال تو اور بھی ناگفتہ بہ ہے۔
جناب امیر کے فرمان کے بموجب روح بھی جسم کی طرح تھک جاتی ہے او ر جب ایسا ہو تو حکمت آمیز نکات تلاش کرو۔مگر ہمیں تو جسمانی تقاضے ہی چین نہیں لینے دیتے اور رو ح تو ویسے بھی ایک غیر مادی چیز ہے ۔
سو نہ وہ سامنے آتی ہے نہ اس کے تقاضے۔
ہماری نظرمیں جاننا نہیں ناچنا گانا روح کی غذا ہے سو لگے رہو’’ منابھائی‘‘۔
اور پیارے پڑھنے والے اگر ہم اپنی زندگی کو پھر سے آسان بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی اصل کی طرف پلٹنا ہو گا۔وہ مائل بہ کرم ذات ہمیں ظلمت سے نور کی طرف لانا چاہتی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اس سے اپنا معاملہ ٹھیک کر لو پھر دنیا جانے اور وہ جانے ۔
وہ کہتا ہے دین کو زبان کا چسکہ نہ بناؤ اپنی زندگی کا حصہ بناؤ۔تم دین میں داخل ہو جاؤ دین تم میں جذب ہو جائے گا۔رزق کے ہاتھوں اگر تنگ ہو تو مجھ سے تجارت کر لو ۔قرضدار ہو تو مجھے قرض دو ایک کے دس نہ لٹاؤں تو پھر کہنا۔
محتاجی کا خاتمہ چاہتے ہو تو محتاجوں کا حق انہیں سونپ دو۔
رزق کا وظیفہ اوروں سے مانگتے پھرتے ہو مگر مجھ سے کیوں شرماتے ہو ؟
رزق کا سب سے بڑا وظیفہ یہ ہے کہ تم شکر کرو میں نعمتیں بڑھاتا جاؤں گا۔
بچے کو جب ہوا میں اچھالا جائے تو بجائے ڈرنے کے وہ ہنستا ہے کیوں کہ اسے یقین ہوتا ہے اسے اچھالنے والا اسے کبھی گرنے نہیں دیگا۔
ہمارا یقین بھی اسی بچے جتنا تو ضرور ہونا چائیے ۔
جس نے ہمیں اس جہانِ رنگ و بو میں اچھالا ہے وہی سنبھالے گا ۔وہی سب کو سنبھالتا آیا ہے وہی سب کو سنبھالتا رہے گا۔

میں جہاں کہیں بھی پھسل گیا وہیں گرتے گرتے سنبھل گیا

مجھے ٹھوکروں سے پتہ چلا میرا ہاتھ ہے کسی ہاتھ میں

 

Safdar Ali Hyderi
About the Author: Safdar Ali Hyderi Read More Articles by Safdar Ali Hyderi: 77 Articles with 63545 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.