نیا پاکستان یا غریبوں کا قبرستان۔۔؟

سردیوں کاموسم تھا،شام ڈھلنے کے قریب تھی،باہریخ بستہ ہواؤں کے تھپیڑے ہرسوچلنے لگے تھے۔گرم اورآرام دہ محل میں داخل ہوتے ہی اچانک بادشاہ کی نظردروازے کے قریب بیٹھے دربان پرپڑی۔چادرنہ سویٹر،کوٹ نہ کوئی کمبل۔ان باریک اورپھٹے ہوئے کپڑوں میں یہاں بیٹھے آپ کو سردی نہیں لگتی۔۔؟بادشاہ کے یہ الفاظ سنتے ہی غریب اوربدقسمت دربان سرجھکائے دھیمے لہجے میں بولے۔بادشاہ سلامت ۔سردی توبہت لگتی ہے مگرمیرے پاس گرم کپڑے نہیں ۔میں اندرجاکرآپ کوگرم کپڑے بھیجتاہوں ۔یہ کہتے ہوئے بادشاہ محل کے اندرداخل ہوئے۔سردہواؤں سے گرم محل میں داخل ہونے کے بعدبادشاہ کوپھردربان یادرہا اورنہ ہی گرم کپڑے۔صبح جب بادشاہ محل سے نکلنے لگے تودروازے پراس دربان کی سکڑی ہوئی نعش پڑی تھی اورساتھ ایک پرچی۔پرچی پرلکھاتھا۔بادشاہ سلامت برسوں کی سردیاں میں نے انہی کپڑوں میں گزاریں۔سردسے سردہواؤں کے کئی تھپیڑے میرے جسم سے ہوکرگزرے پھربھی مجھے کوئی ذرہ سی تکلیف یاکوئی ہلکاسادردنہیں ہوا۔ لیکن رات کوآپ کے گرم کپڑوں کی آس اورامیدنے میری جان نکال دی ۔اسی دربان جیسامعاملہ یاقصہ آج کل اس ملک کے 21کروڑعوام کے ساتھ چل رہاہے۔اس ملک کے غریب عوام بھی گرم کپڑوں،برگروں اورشہدودودھ کی نہروں کے بغیر اچھی بھلی زندگی گزاررہے تھے لیکن جب سے اس دربان کی طرح ان بدقسمت عوام کا نئے پاکستان کے گرم کپڑوں والے بادشاہ سے واسطہ پڑاہے توان پربھی زمین تنگ بلکہ حدسے بھی زیادہ تنگ سی ہونے لگی ہے۔مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری کی دلد ل میں پھنسے بے گھروبے درعوام جب بادشاہ سلامت کی پچاس روپے لٹرپٹرول،ایک کروڑنوکریوں،پچاس ہزارگھر،مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری کے خاتمے کی آس وامیدکودیکھتے ہیں تواس دربان کی طرح ان کی بھی جان نکلنے لگتی ہے۔نئے پاکستان کے نام پرکتنے فریب دے کروزیراعظم عمران خان اقتدارمیں آئے لیکن حکومت ملنے کے بعدانہوں نے ایک سال میں عوام کے لئے کیاکیا۔۔؟اس سوال کاجواب ہمارے پاس کیاشائدنہیں یقنناًخودوزیراعظم عمران خان کے پاس بھی نہیں ہوگا۔جوشخص غریب عوام کو گرم کپڑوں،مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری کے خاتمے کی آس وامید دلاکر اقتدارکے محل میں داخل ہوئے حکومت سنبھالنے کے بعدوہ بھی بادشاہ سلامت کی طرح گرم کپڑے اورغریب دربان یکسربھول گئے۔مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری کے بوجھ تلے دبے یہ غریب عوام بھی شائدکہ کچھ دن ہنسی خوشی جی لیتے مگرانہیں نئے پاکستان کے بادشاہ نے ایسی ایسی امیدیں دلائیں کہ جن کودیکھ اورسن کرآج بیگانے کیاکہ اپنوں کی بھی جان نکلنے لگتی ہے۔چوکوں اورچوراہوں پرکھڑے ہوکرکہاگیاکہ نوازشریف اورآصف علی زرداری تودونوں چورہیں۔ان کوسیاست ،حکومت اورعوام کی خدمت کاکیاپتہ۔۔؟ڈالرکوان چوروں کی چوری کی وجہ سے پرلگتے ہیں ۔پٹرول کی قیمتیں ان کی کرپشن کی وجہ سے بڑھتی ہیں ۔غریب ان کی لوٹ مارکی وجہ سے غریب ترہوتے جارہے ہیں ۔ان ڈاکوؤں کی وجہ سے ملک کی معیشت تباہ اورقوم کابیڑہ غرق ہورہاہے مگراب تونہ نوازشریف چورکی حکومت ہے اورنہ ہی آصف زرداری ڈاکوکی ملک میں کوئی حکمرانی۔پھریہ ڈالرآج165کی رفتارسے زمین سے کوسوں دورپرپھیلائے ہماری بے حسی اوربے کسی پرکیوں ناچ رہاہے۔۔؟ اس مقام اورجگہ تک تویہ ڈالرچوروں اورڈاکوؤں کی ان حکمرانی میں بھی کبھی نہیں پہنچاتھا۔غریب عوام کوپچاس لاکھ گھروں کی تعمیرکاسپنادکھایاگیالیکن اقتدارمیں آنے کے بعدپہلے سے عمربھرکی جمع پونجی سے تعمیرہونے والے ہزاروں غریبوں کے غریب خانے یاواحدٹھکانے بھی گرادیئے گئے۔ایک کروڑنوکریوں کاچورن بیچنے والوں نے اقتدارہاتھ میں لینے کے بعدملک کے معاشی نظام پرایسی جاڑوپھیری کہ محض چندمہینوں میں کارخانوں،فیکٹریوں،ملز،شاپس،میڈیااوردیگر کاروباری وسرکاری اداروں سے ہزاروں افرادراتوں رات بیروزگارکردیئے گئے۔قوم سے گرماگرم پکوڑوں اورکپڑوں کاوعدہ کرنے والے نئے پاکستان کے بادشاہ کی حکمرانی میں تومہنگائی کاطوطاایک سال کے اندروہاں پہنچاجہاں وہ کبھی خواب میں بھی نہیں گیاتھا۔چوروں اورڈاکوؤں کی حکمرانی میں دس اوربیس روپے کلوملنے والے ٹماٹرنے چاراورپانچ سوکاہندسہ پکڑکرعوام کوبھی لال سے لال تر کردیاہے۔جوغریب عوام کے بدن ڈھانپنے اوربرسوں سے خالی پیٹ بھرنے آئے تھے انہوں نے خودغریبوں کے بدن سے کپڑے چھیننے اورپیٹ پھاڑنے کاکام شروع کیا۔اقتدارکی کرسی پربیٹھ کرغریبوں کاخون چوسنے والے ان ظالم حکمرانوں کے علاوہ اس وقت مغرب سے مشرق اورشمال سے جنوب تک ملک میں ایساکوئی طبقہ نہیں جومہنگائی،غربت اوربیروزگاری سے متاثرنہ ہومگرافسوس اس کے باوجودہمارے یہ ظالم حکمران ایک خاندانی میراثی اورمداری کی طرح مسلسل چین کی بانسری بجاتے جارہے ہیں۔پورے ملک میں دوسوسے لیکرپانچ سوتک ٹماٹرکی فی کلوفروخت جاری ہے مگریہ ظالم اورنکمے حکمران سترہ روپے کلوٹماٹراورپانچ روپے کلومٹرکے نعرے لگاتے پھررہے ہیں ۔یہ حکمران ٹماٹرسترہ،ٹماٹرسترہ اورمٹرپانچ روپے کلوکے جس طرح میڈیااورسوشل میڈیاپرنعرے لگارہے ہیں اس کودیکھ کرصرف گمان نہیں بلکہ پکایقین ہوتاہے کہ یہ نکمے اورشرم سے عاری حکمران حکومت اورملک چلانے سے زیادہ سبزی وفروٹ کی ریڑھیاں لگانے کے قابل ہیں۔ قوم کودوکی جگہ ایک روٹی کھانے اورٹماٹرکی جگہ مالٹے استعمال کرنے کے مشورے دینے والے مداری توہوسکتے ہیں مگرحکمران نہیں۔ حکمران وہ ہوتے ہیں جوخودتوبھوکے سوئے مگررعایاکوبھوک سے بلکنے اورتڑپنے نہ دیں۔اٹھتے بیٹھتے ملک کوریاست مدینہ بنانے کے نعرے لگانے والے کیایہ بتاناپسندکریں گے کہ کیاریاست مدینہ والے اپنی رعایاکے ساتھ اس طرح کاسلوک کرتے تھے جویہ آج اس ملک کے 22کروڑعوام کے ساتھ کررہے ہیں۔۔؟رعایاپرکیاگزررہی ہے۔۔؟غریبوں کی کیاحالت ہے۔۔؟سرکاری ادویات کے لئے تڑپنے والے بیماراورلاچارکس اذیت میں مبتلاہیں۔۔؟ملک میں مہنگائی اورگرانفروشی کی کیارفتارہے۔۔؟غریب کہاں کہاں نہیں لٹ رہے۔۔؟حقیقت تویہ ہے کہ آج کے ان حکمرانوں کورعایاکی کوئی خبرہے اورنہ ہی کوئی فکر۔زندگی بھرعوام کی خون پسینے کی کمائی اورٹیکسوں پرمفت پلنے والوں کوکیامعلوم ۔۔؟کہ ملک میں ٹماٹرکی کیاقیمت ہے۔۔؟مٹرکس طرح کلوہے ۔۔؟اورآٹے کی بوری کتنے کی ہے۔۔؟غریبوں،فقیروں،یتیموں اورمسکینوں کے کوٹے یافنڈسے جن کے گھروں میں راشن کے ٹرک بھربھرکرآتے اورجاتے ہوں یاجن کی حرام کی کمائی سے نوکرچاکرمہینوں کاراشن لاتے ہوں ان کوآٹا،چینی،دال،ٹماٹراورمٹرکے بھاؤکاکیاپتہ ۔۔؟ٹماٹرکی قیمت اس غریب سے پوچھیں جودن بھرگرمی اورسردی میں اپناپسینہ خشک کرکے پانچ سوکی دیہاڑی لگاتاہے۔آٹے کانرخ پوچھناہے تواس ریڑھی لگانے والے سے پوچھیں جودن بھرکی محنت مزدوری کے بعددوتین سوروپے کماتاہے۔۔؟آٹے کابھاؤمعلوم کرناہے توغریب کی کسی جھونپڑی میں ذرہ جھانک کربھوک سے بلکنے والے ان کے غریب بچوں کی چیخ وپکاراورآہ وبکاسنیں۔نرم گرم بستروں میں سونے اوربڑے بڑے محلات میں رہنے والوں کوکیاخبر۔۔؟کہ غربت کے دروازوں پرزندگی کے شب وروزگزارنے والے دربان کیسے جی رہے ہوتے ہیں ۔۔؟وزیراعظم صاحب یہ غریب عوام برسوں سے اب تک مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری کے سائے تلے زندگی گزاررہے ہیں ۔یہ آپ جیسے لاپرواہ اورنااہل حکمرانوں کے ظلم وستم سہنے کے عادی ہوچکے ہیں ۔آپ اگرنئے پاکستان کی صورت میں ان کوگرم کپڑوں کی آس اورامیدنہ دلاتے توشائدکہ یہ آج بھوک وافلاس،مہنگائی،غربت اوربیروزگاری کے ہاتھوں اس طرح تڑپ تڑپ کرنہ مرتے۔

 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 214 Articles with 137931 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.