کسی کو نہیں چھوڑوں گا

بہت دکھ جھیلے ہم نے،بہت دردسہے ہم نے… خون ہی خون اورآگ کاکھیل،بارود کی بو،شعلہ اگلتی ،انسانی خون چاٹتی بے حس بندوقیں…آٹادستیاب نہ خوردنی تیل…پٹرول چلئے رہنے یجئے…بھوک کے ستائے ہوئے معصوم انسانوں کی خودکشیاں، بیروز گار نوجوانوں کے مدقوق چہرے،گھروں میں جہیزنہ ہونے کی وجہ سے بوڑھی ہوجانے والی لڑکیاں،سرمایہ داروں کی چکی میں پستا ہوامزدور،سڑکوں پرکھلے عام لوٹ مار،اغوابرائے تاوان کی وارداتیں، معصوم بچیوں کی اجتماعی آبروریزی، پھول جیسے معصوم بچوں کواپنی بھوک کی بھینٹ چڑھانے والے درندے،آئین کاقتل،قانون وانصاف کاقتل، انسانیت کاقتل۔

قاتلوں،دہشتگردوں کاراج…پورے سماج کویرغمال بنانے والے سفاکوں کاٹولہ…خاک ہی خاک،خون ہی خون…زباں بندی کافرمان ،بے آسرابندگان خدااوران کاخون چوسنے والی جونکیں،جودن بدن فربہ ہوتی رہتی ہیں۔گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں زندگی وموت کا رقص بسمل،سسکیاں،ہچکیاں، چیخیں، ماتم،گریہ اورشام غریباں۔یہ ہے تبدیلی؟ایسے بنے گی مدینے کی ریاست؟

ہرآنے والانئے سازپرنیاراگ الاپتاہے۔ ہم دیوانوں کی طرح اس کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں اورپھروہی دھتکار،مایوسی اور شکستگی،ابلیس کھڑامسکراتاہے۔ ایسے حالات میں کوئی چھوٹی سی بھی خبر…خوشی کی خبر،مسرت کالمحہ سامنے آئے توجی بے اختیار کھل اٹھتاہے۔ ہاتھ فضامیں بلندہوتے ہیں اوربے خودی میں رقص کرنے لگتاہےبندہ بشیر۔

موٹروے کاافتتاح مگرخطاب اپوزیشن لیڈرجیسا… ۔اشتہارات منہ چڑارہے تھے۔”اب راج کرے گی خلق خدا…اورجوکچھ ہوگا ،آپ کے مطابق، میرے مطابق اورخلق خدا کے مطابق”کیاخوب اورپرفریب نعرہ۔بہت پرامیداورخوش کن الفاظ سے مزین ہے یہ بینر۔ اچھا! توآگیا ہے وہ سہانا وقت …اب دل کی ویرانی شگفتگی میں بدلے گی،خواب تعبیر پائیں گے،دل مردہ پھرسے جی اٹھے گا۔ مسرت رقص کناں ہوگی،نسیم صبح مژوۂ جاں فزاہوگی، قہقہے گونجیں گے،خوشحالی کے پھول کھلیں گے،کلیاں چٹکیں گی،دکھ ختم ہوجائیں گے،درددورہوجائے گا،ہربشرامان پائے گا،دل کی مرادبرآئے گی ، نغمۂ دل ربا سماعتوں میں رس گھولے گا،چین وآرام، سکون ہی سکون۔ ہاں ایساہوگا؟کیاواقعی خلق خداراج کرے گی؟

اگریہ لفظوں کی حدتک ہے توپھرہم عادی ہیں۔سنتے رہتے ہیں اورلگتایونہی ہے کہ بس کچھ دیرکیلئے بھولنے کی کوشش ایام تلخ،کوجیسے تھیٹر میں ڈراما، سینما میں فلم،ہم کچھ دیرکے لئے کھوجاتے ہیں،اس میں حقیقت کہاں بدلتی ہے۔سینما کے یخ بستہ ہال سے باہر نکلتے ہی لوکے تھپیڑے…حقیقت منہ چڑاتی ہے ۔ اشتہارسچ بولتے ہیں؟ہوسکتاہے آپ کومجھ سے اختلاف ہو،ضرور کیجئے یہ آپ کاحق ہے لیکن میراتجربہ ہے اشتہار صرف راغب کرنے کانام ہے۔ دعویٰ لاکھ سہی،حقائق کچھ اورہیں۔”جیسے چاہو جیو”جی نہیں سکتے”زندگی ہے مست”کون سی زندگی”ناچوگاؤجھومو” کیسے”ہم آپ کیلئے چشم براہ ہیں ” کیا واقعی!بس اسی طرح کا فریب…بجٹ میں ان قیمتوں کااثرغریبوں پرنہیں ہوگایاہرسرمایہ دارمجسم عاجزبن کرکہتاہے”ہم نے اپنی مصنوعات میں عوام کاخیال رکھاہے”کبھی ہواہے بھلاایسا۔

بس اشتہارات کی دنیا۔راغب کرنے کادھندا۔اوراسپانسر کویہ کہہ کر زیادہ پیسے بٹورنے کاکاروبار”سب سے زیادہ دیکھاجاتا ہے ہمارایہ پروگرام۔”بس یہی ہے،یہ جوہمارے گھرمیں ایک ڈبے نے جسے ہم ٹی وی کہتے ہیں،ہمیں غلام بنارکھاہے۔جی جناب!آگہی کے لئے سب سے مؤثرذریعہ۔ بجاارشاد فرمایا ۔لیکن بس بحث،تسلی،دلاسہ ایک آسرا…بس اورکچھ نہیں…کیا فلاحی ریاست پربحث کرنے سے بنتی ہے فلاحی ریاست؟کیا صرف یہ کہہ دینے سے کہ “اب راج کرے گی خلق خدا”واقعی راج کرنے لگتی ہے خلق خدا؟یہ توہم گزشتہ 72 برسوں سے سن رہے ہیں۔اقبال بانو نے بہت خوبصورت گایا ہے ۔کب بدلی تقدیر،ایک آیا،دوسراآیا،سب کے سب دعوے داراورپھروہی ٹائیں ٹائیں فش۔

یہ بحث مباحثے کسی بھوکے کاپیٹ بھرتے ہیں؟کسی برہنہ کاتن ڈھانپتے ہیں؟بتائیے ناں آپ،بس سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرتی رہتی ہیں۔بھوکے خود کشیاں کرتے رہتے ہیں اورٹی وی کاپیٹ مرتے مرتے بھی بھرجاتے ہیں ایک نئی خبر،پھرایک نئی بحث۔ معاشی پالیسیاں وہی رہیں گی،خارجہ پالیسی وہی رہے گی،تویاروپھرکیابدلا!آپ ملک کے وزیراعظم ہیں،قانون سازی توآپ نے کرنی ہے جس سے امیروغریب کافرق ختم ہوگا،عدلیہ کے ججوں نے نہیں جن سے آپ کوشکائت ہے۔اس وقت امیر غریب کافرق کہاں گیاتھاجب بنی گالامیں غریبوں کی جھونپڑیاں مسمارکرکے آپ کاوفاقی وزیرسینہ پھلاکرکارکردگی کی داد وصول کررہاتھالیکن آپ کے محل کاناجائز قبضہ قانونی قراردے دیاگیا۔آخرکارآپ کابھی تووہی جرم تھاجوان غریبوں سےسرزد ہواتھا۔فارن فنڈنگ کامقدمہ آپ کے گلے کاپھندابننے جارہاہے جس سے آپ کی ساری جماعت کے کالعدم ہوجانے پرساری بساط ہی لپیٹ دی جائے گی، علیمہ باجی کے مقدمے کوکس صفائی سے ختم کردیاگیا۔اپنےخطاب میں مطالبہ کیاکہ ججز اس تاثر کو ختم کریں کہ طاقتورکیلئے الگ اور کمزور کیلئے الگ قانون ہے لیکن آج فارن فنڈنگ ، پی ٹی وی اورپارلیمنٹ حملے میں استثنی مانگ لیااورآپ کے ناک کے نیچے سے میاں برادر ویسے ہی ملک سے رخصت ہوگئے جس طرح ان کے دورِ حکومت میں پرویزمشرف،جبکہ آپ نے عدلیہ کوانصاف کیلئے تمام وسائل مہیاکرنے کاوعدہ کرکے میاں نوازشریف کے مقدمے کی طرف اشارہ کیالیکن چیف جسٹس نے فوری طورپرقوم کومطلع کردیاکہ اس کی اجازت توخودآپ نے مرحمت فرمائی لیکن آپ اب بھی قوم کے سامنے سانس پھلاکر “کسی کو نہیں چھوڑوں گا”کی لکیرکوپیٹ رہے ہیں۔
کچھ دیرکی فلم ہے،مزے اڑائیے۔چلئے اچھاہے،کچھ لوگوں کاتوپیٹ بھرتاہے ناں،ان کے اثرورسوخ میں تواضافہ ہوتاہے ناں۔ وہ توہیروبنتے ہیں
ناں۔چلیے کسی کاتوبھلا ہو۔کربھلا توہوبھلا۔”اب راج کرے گی خلق خدا”۔
کب ہوش میں آئیں گے ہم،آخر کب۔چلئے بہت…کرلی میں نے۔لگے رہوبھائی…کچھ بھی تونہیں رہے گا،بس نام رہے گا اللہ کا۔
یہ دیکھئے آدھی رات گزرگئی ہے۔اس وقت ہم سب کے برادر بزرگ خواجہ رضی حیدرکہاں سے آگئے۔
سوال کرتے ہیں شاخوں سے کشتگانِ خزاں
کبھی بہاربھی آتی ہے درمیانِ خزاں
بس ایک ہجر سے آمیزہوگیاہے وصال
یہاں توموسم گل بھی ہے داستانِ خزاں
یہ کیاکہ آنکھ بہاروں کی آرزوسے نہال
یہ کیاکہ روح میں آبادہے مکانِ خزاں

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 318608 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.