کہ میرا صبر ترے جبر سے زیادہ ہے

لیبیا میں ناٹو کی فوجی کاروائی کا آغاز جس روز ہوا، اتفاق سے وہ عراق میں امریکی جارحیت کی آٹھویں سالگرہ بلکہ برسی کا دن تھا ۔ اسی لئے شاید امریکی صدراوبامہ نے اس حوالے سے اپنے بیان میں عراق کے ذکر سے دانستہ گریز کیا ۔اس تجاہل عارفانہ کی اپنی وجوہات ہیں ورنہ مغرب کا حال یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں کو خوشنما بنا کر پیش کر نے میں مہارت رکھتا ہے بلکہ دوسروں کی کامیابیوں کا سہرہ بھی اپنے سر باندھنے سے نہیں چوکتا۔ لیبیا کے معاملے میں امریکہ کا انتہائی محتاط رویہ دودھ کے جلے کا چھانچ کو پھونک پھونک کر پینے کے مترادف ہے ورنہ امریکی انتظامیہ اقوام متحدہ کے قرارداد کی پاسداری تو کجا اسکی منظوری کا انتظار بھی نہیں کرتا نیز کسی فوجی اقدام کی کمان دوسروں کے حوالے کرنا امریکہ بہادر کا شعار کبھی نہیں رہا ۔ فوجی کمان ناٹو کے حوالے کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا "اس کمان کے منتقل ہو جانے سے امریکی ٹیکس دہندہ کے اخراجات و خطرات میں غیرمعمولی کمی واقع ہوگی" صدر اوبامہ کو دو سال کے اندر دوبارہ انتخاب لڑنا ہے بشرطیکہ ان کی پارٹی انہیں دوبارہ اپنا امیدوار نامزد کر دے۔ اس لئےابھی سے اپنے رائے دہندگان کا خیال انہیں ستانے لگا ہے او بامہ کو پتہ چل چکا ہے کہ اس دگرگوں معاشی صورتحال میں عوام کو جنگ و جدال کے نشہ سے پھسلایا نہیں جاسکتا" اوبامہ نے اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ "ہم دنیا بھر کے فوجداری نہیں کر سکتے الا ّیہ کہ ہمارے قومی مفادات پر آنچ آئے" امریکی فکروعمل میں آنے والی حالیہ تبدیلی اس کا ایک ثبوت ہے کہ افغانستان اور عراق کے معرکہ میں پے در پے حاصل ہونے والی ناکامیوں نے مغرور و جابر حکمرانوں کا دماغ درست کر دیا ہے۔ کرنل قذافی کو بزور قوت اقتدار سے بے دخل کرنے میں اتحاد کے ریزہ ریزہ ہوجانے کے اندیشے کا اظہار امریکی صدر نے کیا۔لیبیا کے حریت پسندوں کو اسلحہ فراہم کرنے کے حوالے سے بھی اوبامہ تذبذب کا شکار نظر آئے "میں نہ تو اس کو خارج از امکان سمجھتا ہوں اور نہ ہی اس پر فیصلہ کر رہاہوں ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ قذافی کی افواج آگے چل کر کیا کرنے والی ہیں؟"

ان مدافعانہ کلمات کے پہلو بہ پہلو اوبامہ نےچند متضاد باتیں بھی کہیں مثلاً "کچھ اقوام دوسرے ممالک میں ہونے والے مظالم سے سے چشم پوشی کر سکتے ہیں لیکن امریکہ ان سے مختلف ہے ۔ہم ایسی صورتحال میں خاموش تماشائی نہیں بن سکتے جبکہ کوئی ظالم اپنی ہی عوام سے یہ کہے کہ ان کے ساتھ رحم نہیں کیا جائیگا اور اس کی فوجیں معصوم مردو خواتین کو اپنی درندگی کا نشانہ بنانے لگیں۔ جب اپنی آزادی کی خاطر جدوجہد کرنے والے لوگ خود اپنی ہی حکومت کے ذریعہ ہلاک کئے جانے لگیں تو ہمیں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا "اوبامہ تو کیا کسی بھی سربراہ مملکت کی زبان سے یہ باتیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں بشرطیکہ ان کا اطلاق بلاتفریق ظلم و جبر کیخلاف ہو لیکن افسو س ناک پہلو یہ ہے کہ اس معاملہ میں بڑی جانبداری برتی جاتی ہے۔تیونس اور مصر میں انقلاب سے پہلے کہی جانے والی بات بعد والے موقف سے مختلف ہوتی ہے۔ جس طرح کی تنقید کا نشانہ قذافی کو بنایا جاتا ہے ویسی تنقید بحرین اور یمن کے حوالے سے نہیں ہوتی بلکہ خاموشی برتی جاتی ہے جبکہ فلسطین کے حوالے سے علی الاعلان صہیونیوں ظالموں کی پشت پناہی کی جاتی ہے ۔ اس غیر مساویانہ رویہ نے مغرب کی منافقت کا پردہ چاک کر کے اسے لا اعتبار بنا دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کی ہر مثبت و منفی کاروائی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ لیبیا کے معاملے میں جب کرنل قذافی پر بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو خود امریکہ اسکی حمایت نہیں کر پاتا اس لئے کہ اس نے بین الاقومی فوجداری عدالت کو ابھی تک تسلیم کر کے اپنے آپکو اس کا تابع نہیں شاید اسے اندیشہ ہے کہ اس کے اپنے فوجی جرائم کو بنیاد بنا کر اس پر مقدمہ نہ دائر کر دیا جائے ۔

لیبیا میں ہونے والی تاخیر سے بہت سارے لوگ اس لئے پریشان ہیں کہ لیبیا کے زمینی حقائق سے خاطر خواہ واقفیت نہیں رکھتے ۔ لیبیا کی صورتحال مصر اور تیونس سے مختلف ہے ۔تیونس اور مصر کے آمر دیگر عرب سربراہان مملکت اور مغرب دونوں کے منظور نظر تھے ان کو نہ صرف ہمدردیاں حا صل تھیں بلکہ باہم مشترک مفادات بھی تھے ۔ اس لئے ابتدا میں یہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ وہاں انقلاب آئے ۔اس کے بر خلاف کرنل قذافی نے نہ صرف مغرب بلکہ عرب سربراہوں کو بھی ناراض کر رکھا ہےاور کسی کو اس سے ہمدردی نہیں ہے ۔ اس کے باوجود یہ لوگ کشادہ دلی کے ساتھ قذافی کی بے دخلی کے حامی نہیں ہیں جس کی اپنی وجوہات ہیں ۔ مثلاً عرب سر براہان کو اس بات کا خوف ہے کہ اگر لیبیا کی عوام نے فوج کا مقابلہ کرنے کے بعد کامیابی درج کروالی تو عوام کے دل سے ان کی خوف و دہشت کافور ہو جائیگی اور ان کے اپنے ملک کی عوام کو ایسا غیر معمولی حوصلہ حاصل ہو گا جس پر قابو پانا کسی کیلئے ممکن نہیں ہوگا ۔اس لئے یہ لوگ بیک وقت قذافی کا انجام بد بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے ا قتدار میں بنے رہنے کے بھی خواہاں ہیں۔ بیک وقت یہ متضاد باتیں ناممکن ہیں۔ اسی کے ساتھ بین الاقوامی مداخلت کی حمایت بھی ان کے اپنے لئے مستقبل میں خطرے کی گھنٹی ہے عرب سربراہوں کی پریشانی کا یہ دوسرا سبب ہے لیکن اب جو زمانہ آرہا ہے اس کی بہترین ترجمانی مقبول عامر نے اپنے اس شعر میں کی ہے ۔
اب کے نہ کوئی قصر،نہ ایوان بچے گا
اب کے جو چلی ہے وہ ہوا تیز بہت ہے

مغرب کے اندیشے عربوں سے مختلف ہیں ۔اہل مغرب کو پتہ ہے کہ کرنل قذافی کو اقتدار سے بے دخل کرنا اس لئے مشکل ہے کہ لیبیا میں اب بھی قبائلی نظام باقی ہے ۔فوج کی وفاداریاں چونکہ قبائلی عصبیت کے تحت منقسم ہیں اس لئے فوج مصر یا تیونس کی طرح کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔اس لئے مغرب کو لیبیا کے اندر پر امن اقتدار کی منتقلی ممکن نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ قذافی اور اس کا بیٹا سیف الاسلام علی الاعلان خانہ جنگی کی دھمکی دیتے دکھائی دیتے ہیں ۔اس خانہ جنگی پیشگی تیاری کرنل معمر قذافی نے پہلے ہی سے کر رکھی ہے ۔گزشتہ ۴۲ سالوں میں مختلف قبائل کو ایک دوسرے سے لڑا کر اپنا الو سیدھا کرنے کے فن میں قذافی ماہر ہے اس لئے لیبیا کی مقدر کا فیصلہ عوامی مظاہرے سے آگے بڑھ کر میدان جنگ تک پہنچ گیا ہے اور اس صورتحال میں حریت پسندوں کو اسلحہ فراہم کرنا ناگریز ہو گیا ہے۔ لیبیا کے اندر حریت پسندوں اسلحہ فراہم کی تدارک امریکہ کی خارجہ سکریٹری ہیلری کلنٹن لندن میں منعقد ہونے والی چالیس ممالک کی کانفرنس میں کر چکی ہیں لیکن امریکی ایڈمرل جیمس سفٹافریڈس نے سینٹ کے سامنے خفیہ اطلاعات کا حوالہ سے یہ کہہ کر ایک نئی مصیبت کھڑی کر دی کہ اس اسلحہ کے حزب اللہ اور القائدہ کے ہاتھ لگ جانے کا قوی امکان ہے ۔ یہ فطری بات ہے کیونکہ مجاہدین آزادی آپس میں کسی غیر فطری تفریق کے قائل نہیں ہوسکتے ۔ایسے میں مغرب اسلحہ فراہم بھی کرنا چاہتا ہے اور نہیں بھی جو بیک وقت ناممکن ہے ۔

لیبیا کی مزاحمت کے طول پکڑنے کا سبب وہاں کے قبائلی نظام میں مضمر ہے ۔لیبیا کی مقامی آبادی ۵۰ لاکھ ہے نیز وہاں ۱۵ لاکھ غیرملکی لوگ بستے ہیں اس طرح جملہ ۶۵ لاکھ ۔مقامی آبادی کی اکثریت عربی بولتی ہے ویسے ایک جدید تحقیق کے مطابق ان میں سے ۹۰ فیصد وہ مقامی بربر ہیں جنھوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد عربی زبان کو بھی اپنا لیا اور عرب کہلانے لگے ۔لیبیا میں ویسے تو تقریباً کل ۱۴۰ قبائل ہیں لیکن ان میں سے اکثر کسی نہ کسی بڑے قبیلے کی شاخ ہیں اس طرح جملہ۳۰ بڑے قبائل ہیں۔ملک کے مغربی علاقہ میں سب سے بڑا قبیلہ ورفلہ ہے جس کی آبادی ۱۰ لاکھ ہے اور جو ۵۲ ذیلی قبائل پر مشتمل ہے ۔وسیع و عریض ضلع مصراتہ میں یہ لوگ آباد ہیں۔ ان کا تعلق بنی ہلال سے ہے جس نے ۱۱ویں صدی عیسوی میں یہاں اسلام قائم کیا تھا۔ان کے علاوہ الزینتان، اولاد بوسیف،مصلعطہ،الرجبان اور مجرابہ وغیرہ وغیرہ دیگر قبائل بھی مغربی لیبیا میں آباد ہیں۔

کرنل قذافی کا تعلق وسطی لیبیا کے شہر صرط میں بسنے والے القذاقہ قبیلے سے ہے ۔ معمر قزافی کے اقتدار میں آنے سے قبل اس قبیلے کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں تھی بلکہ قذافی نے المغراعہ نامی بڑے قبیلے کے ساتھ مل کر شاہ سعید السنوسی کو ۴۲ سال قبل اقتدار سے بے دخل کیا تھا۔سابق وزیر اعظم عبدالسلام جلود اور لاکر بی دھماکے کا ذمہ دار عبدالباسط المغراعی دونوں اسی بااثر قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ الریاح، الحربہ اور الزوائد اس علاقے کے دیگر بڑے قبائل ہیں فی الحال یہی علاقہ متحارب قوتوں کے درمیان میدان کارزار بنا ہوا ہے ۔ملک کا مشرقی حصہ میں جہاں آزادی کی لہر بڑے زور شور سے چل رہی ہے الزاویہ سب سے بااثر قبیلہ ہے جو بنغازی اور اجدابیہ کے آس پاس آباد ہے۔ ان کے علاوہ بنو سلیم ہے جو بنی ہلال کے ساتھ فاطمی دور حکومت میں آیا یہاں آیاتھا لیکن مغرب کے بجائے مشرق میں آبسا۔ مصراتہ نام کا ایک قبیلہ بھی یہاں آباد ہے جو مغرب کے ضلع مصراتی میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے علاوہ الوقیر، تواجیر، رملہ ، کرغلہ اور العبادیات اس علاقے کے دیگر قبائل ہیں۔ قذافی سے بغاوت کرکے حریت پسندوں سے مل جانے والے جنرل سلیمان محمود اور میجر عبدالفتاح یونس کا تعلق العبادی قبیلے سے ہے ۔ ایک اور قبیلہ فرجان ہے جو اجدابیہ کے اطراف میں آباد ہے اور اس نے موجودہ کشمکش میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے ۔ان قبائل کے علاوہ خانہ بدوش بر بر قبیلے مثلاً طوارق جنوبی لیبیا میں آباد ہیں اور ہنوز قذافی کی حمایت کر رہے ہیں۔

کرنل معمر قذافی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس قبائلی عصبیت کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ پروان چڑھایا اور آپسی انتشار کے سائے میں اپنے اقتدار کو مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا گیا۔قذافی نے اس منتشر فوج کے ہوائی دستہ کو ہمیشہ ہی اپنے وفادار قبیلے کے پاس رکھا اسی لئے ساری دنیا نے دیکھا کہ لیبیائی ہوائی فوج نے اپنے ہی نہتے عوام پر بے دریغ بمباری کی یہ دراصل قبائلی عصبیت کا شاخسانہ تھا نیز جیسے ہی نو فلائی زون کی تجویز منظور ہوئی اپنے لوگوں کو بچانے کی خاطر آناً فاناً قذافی نے جنگ بندی کا اعلان بھی اسی لئے کر دیا۔سرکاری فوج کے علاوہ قذافی نے اپنی حفاظت کیلئے تین اور انتظامات کئے ایک تو عوامی ملیشیا کے نام پر ایک مسلح دستہ لیبیا میں موجود ہےجو ملک کی عوام کے بجائے قذافی خاندان کی وفاداری کا دم بھرتا ہے ۔ اس کے علاوہ قذافی کے بیٹے خمیس کی اپنی مسلح بریگیڈ ہے جو اس کے علاوہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے ۔کرنل قذافی کا چھوٹا بیٹا تو غنڈوں کی فوج کا سرغنہ ہے لیکن اس کا بڑا بیٹا سیف الاسلام جس نے ٹیلی ویژن پر خانہ جنگی دھمکی تھی اور آخری گولی تک لڑنے کے عزم کا اظہار کیا تھا لندن کے مشہورو معروف اسکول آف اکنامکس سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکا ہے ویسے یہ حسن اتفاق ہے اسکی تھیسس کا عنوان ‘‘ آمرانہ نظام حکومت میں جمہوریت کا فروغ ’’تھا۔

اپنے اقتدار کی حفاظت کیلئے تیسرا انتظام قذافی نے یہ کیا تھا کہ غیر ملکی جنگجو بھی مہیا کر رکھے تھے جنہیں عام طور پرمرسینری کہا جاتا ہے،اس دستہ میں بھرتی کا آغاز ویسے تو ۱۹۸۰میں ہوا تھا لیکن مصر اور تیونس میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اس کام بڑی تیزی آئی اور سیکڑوں غیر ملکی درندوں کو خود اپنی عوام کے خلاف استعال کی غرض سےدرآمد کیا گیا۔ یہ لوگ چونکہ دولت کی خاطر آئے ہیں اس لئے بلاکسی اخلاقی حدود و قیود کے سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں غیر قانونی باشندوں کی حیثیت یرغمال کی سی ہو گئی ہے ۔ جب قذافی کے ہاتھوں میں اقتدار کی ڈور کمزور ہوجائیگی اور ان کی تنخواہ بند ہو جائیگی تب یہ کہاں جائیں گے کوئی نہیں جانتا ۔حریت پسندوں کا کہنا ہے کہ ان پر بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمہ چلایا جائیگا۔قذافی کی جانب سے کئے گئے ان تمام انتظامات کے باوجود لیبیا کی آزادی کے متوالے اس شعر کو گنگناتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں
اب اس کے بعد ترا اور کیا ارادہ ہے
کہ میرا صبر ترے جبر سے زیادہ ہے

لیبیا کی سرزمیں سے وہاں کی جہاد آزادی کا آغاز ہوا اور اب اسکی کمان‘‘قومی کونسل’’ کے ہاتھوں میں ہے اس کا تعلق نہ امریکہ سے ہے اور نہ یورپ سے اس کے رہنما شلابی یاکرزئی کی طرح اوپر سے مسلط نہیں کئے گئے بلکہ عوام میں سے آگے آئے ہیں۔ اس ۳۰ رکنی کونسل میں سے کسی کو غیرملکیوں کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑنے کا شوق نہیں ہے۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم اپنی آزادی کی جنگ خود لڑیں گے لیکن اس کیلئے یا تو عالمی برادری ہمیں اسلحہ سے لیس کر کے قذافی کی فوج کے ہم پلہ کر دے یا اسکی فوج کو تکنیکی اعتبار سے ہمارے برابر کردے باقی کام خود کر لیں گے ۔ویسے برطانیہ نے اس بات کا پتہ لگانے کی خاطر کہ ان کو کس قدر مرعوب کیا جاسکتا ہے ان سے برطانوی خاتون پولس اہلکار ایوون فلیچر کی قتل کے ملزم عمر احمد سوڈانی کو حوالہ کرنے کا مطالبہ کیا لیکن کونسل نے اسے ٹھکرا یہ جتلا دیا کہ کوئی ان کی مجبوری کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔ اس فیصلے سے کونسل کی خودداری اور عزم وحوصلہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے لیبیا سے متعلق جو رابطہ کمیٹی بنائی گئی ہے اس کا آئندہ اجلاس قطر میں ہونے جارہا ہے ۔ اس کمیٹی میں اقوام متحدہ کے علاوہ افریقی اتحاد،عرب لیگ،رابطہ عالم اسلامی {او آئی سی}اور یورپین یونین شامل ہیں نیز اس بات کا بھی فیصلہ ہوا ہے کہ اس کی صدارت کسی ایک ادارے کے پاس نہیں ہوگی بلکہ مختلف اداروں کے درمیان گردش کرتی رہیگی۔اس سارے عمل سے اگر بالواسطہ کسی کو دور رکھا گیا ہے تو وہ امریکہ ہے۔ یہ عظیم تبدیلی مجاہدین اسلام کی برسوں کی محنت کا ثمر ہے جس کے عالم اسلام پردورس نتائج مرتب ہوں گے ۔ بقول شاعر
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ دفعتاً نہیں ہوتا
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1236400 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.