مجلہ تحصیل پر تبصرہ

مجلہ تحصیل۔ ادارت: ڈاکٹر معین الدین عقیل۔کراچی: ادارہ معارف اسلامی۔۱(۱):۳۳۲،۱۶۰۔جولائی۔دسمبر،۲۰۱۷ء
مبصرہ:ڈاکٹر نسرین شگفتہ
ادارہ معارف اسلامی، کراچی سے شائع ہونے والا علمی و تحقیقی مجلہ "تحصیل" کا پہلا ششماہی شمارہ ڈاکٹر معین الدین عقیل کی ادارت میں منظر عام پر آگیا ہے۔ نائب مدیران جاوید احمد خورشید اور کے۔اے۔انصاری ہیں۔ مجلس مشاورت میں جو افراد شامل ہیں ان کے نام یہ ہیں، اکرام الحق چغتائی(لاہور) انور معظم(بھارت) تنویر واسطی،سید(ترکی) حسن بیگ(انگلستان) رفیع الدین ہاشمی(لاہور) سویامانے(جاپان) شاہد ہاشمی،سید(کراچی) عارف نوشاہی(اسلام آباد) نگار سجاد ظہیر(کراچی) وقار احمد زبیری(کراچی)
ترتیب و تزئین غیاث الدین، محمد علیم الدین، فرقان ملک اور محمد جاوید قریشی نے کی۔مجلہ "تحصیل" کے پہلے صفحہ پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی خطاطی بہت خوبصورت انداز میں چھپی ہے۔(یہ خطاطی چیت رام نے کی مشمولہ ارژنگٍ چین ۱۸۷۴ء مطبع: منشی نول کشور، لکھنو۔ص ۵۸ سے لی گئی ہے۔) مجلہ میں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں تحریر کردہ مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔اردو فہرست مضامین کی ترتیب اس طرح ہے کہ اداریہ کے بعد مضامین کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جو درج ذیل ہے۔
۱۔ تحقیقی مقالات: اس میں تحریر کرنے والوں کے نام یہ ہیں، سلطانہ بخش، ظفر احمد صدیقی، افضل حق قرشی، محمد حمزہ فاروقی، نسیم فاطمہ، سید جمیل احمد رضوی اور عارف نوشاہی
۲۔ گوشۂ اقبال: رفیع الدین ہاشمی، سہیل عمر، نگار سجاد ظہیراور ارشد محمود ناشاد
۳۔مآخذ تحقیق: سید محمود حسن، خالد ندیم اور عطا خورشید
۴۔ تراجم: ذبیع اللہ صفا/سید حسن عباس اور مرکنڈے کٹجو/نیاز سواتی
۵۔ گوشۂ نوادر: مرزا خان
۶۔ وفیات: جاوید احمد خورشید
۷۔ تبصراتی مقالہ: جاوید احمد خورشید
زیر نظر مجلہ "تحصیل" کا تعلق کسی جامعہ سے نہیں بلکہ یہ ایک نجی علمی و مطالعاتی ادارے سے وابستہ ہے۔ اس مجلہ کے ذریعہ معیاری تحقیقات پیش کی گئی ہیں۔ مقالہ نگاروں کی محنت، لگن، جستجو اور عمدہ کاوش ہے۔ "تحصیل" کے موضوعات کا دائرہ معاشرتی علوم اور علمی دنیا کے گرد گھومتا ہے۔ اس کی اشاعت کا مقصد یہ بھی ہے کہ ایسے جو محققین اور مصنفین جن کا تعلق کسی جامعہ سے نہیں ان کی تحریریں بھی منظر عام پر آئیں۔ مدیران کا ارادہ اور کوشش ہے کہ ہر شمارے میں نادر و نایاب متون اور مآخذ پیش کئے جائیں جو اہل قلم کے لئے مفید و معاون ثابت ہوں۔
تحقیقی مقالات میں ڈاکٹر نسیم فاطمہ کی بہت اہم اور محققانہ طرز کی تحریر "شیخ المشائخ میاں جمیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی: علم پروری، کتاب دوستی اور کتب خانہ داری: کے عنوان سے شامل ہے۔انھوں نے تحریر کیا ہے کہ " میاں جمیل احمد شرقپوری کو خواتین کی علمی و دینی ضروریات کا بھی احساس تھا انھوں نے نہ صرف خواتین کو اہمیت دی بلکہ ان کی فکری رہنمائی کے لئے ایک جامعہ قائم کردی۔" "میاں جمیل احمد کا کتاب کے ساتھ گہرا رشتہ تھا اسی طرح وہ کتب خانوں سے بھی قریبی تعلق رکھتے تھے۔"
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کا مضمون گوشۂ اقبال میں "علامہ اقبال کے تصور تاریخ کے تشکیلی عناصر" کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔اظہار خیال کرتی ہیں کہ "اقبال کا نظریہ تاریخ بہت حد تک قرآن کی تعبیر و تفسیر ہے۔ تاریخ کے بارے میں ان کا سب سے بڑا دعویٰ کہ استقرائی عمل کا بہت بڑا مآخذ ہے۔ قرآن کے اصول تاریخ سے مستبنط ہے اسے اصطلاحاً تاریخی استقراء کہہ سکتے ہیں۔ اسے منطقی استقراء کی ایک عملی صورت سمجھنا چاہئے۔ دونوں سے مراد یہ ہے کہ کسی موضوع سے متعلقہ حقائق اس طرح درجہ بندی کی جائے کہ ان سے کسی نتیجے کا استخراج کیا جا سکے۔"
حصہ مآخذ تحقیق میں ایک مضمون بعنوان "مولانا آزاد لائبریری میں عہد قطب شاہی کے مخطوطات" شامل کیا گیا ہے اس مضمون کے مصنف ہیں ڈاکٹر عطا خورشید۔ انھوں نے اپنے مضمون میں کتب خانہ کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ "علی گڑھ کی مولانا آزاد لائبریری بالخصوص مشرقی ہندوستان کی لائبریریز میں نمایاں مقام حاصل ہے۔اس کا شعبہ مخطوطات، نادر قلمی کتابوں مطلاّو مذہب نسخوں، شیر خرما کی روشنائی سے لکھی ہوئی کتابوں، نامور خطاطوں کے ہاتھ کی وصلیوں، علماء اور مشاہیر کے اہم اور دلچسپ خطوط، مسلم سلاطین کے فرامین اور ان کے سکوں سے معمور ہے۔"
"بھارت میں اردو کا المیہ" یہ مضمون حصہ تراجم میں شامل ہے اس کے مصنف مرکٹجو/نیاز سواتی ہیں۔ لکھتے ہیں کہ"بھارت میں اردو کے ساتھ برتا جانے والا رویہ ناگفتہ بہ ہے۔ یہ سلوک اس عظیم زبان کے ساتھ ہورہا ہے جو جدید بھارت میں بہترین شاعری پیش کر چکی ہے جس نے میر(۱۷۳۲ء۔۱۸۱۰ء)، غالب(۱۷۹۷ء۔ ۱۸۶۹ء)، فراق(۱۸۹۶ء۔۱۹۸۲ء)اور فیض(۱۹۱۱ء۔۱۹۸۴ء)کی لازوال شاعری کی شکل میں ظہور کیا۔ اردو ہندوستان کی روشن ثقافت کے خزانے کا نظر انداز کردہ انمول موتی ہے جسے مشکوک نظروں سے دیکھا جا رہا ہے میں اس بڑی حماقت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔"
مرزا خان نے گوشۂ نوادر میں مضمون "تحفۃالہند: اردو زبان کی اولین لغت" میں تحریر کیا ہےکہ"اردو زبان کی اولین لغت کے تعلق سے،دستیاب شواہد کی روشنی میں، اس بات پر محققین کا اب قریب قریب اتفاق ہے کہ یہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت سےمتعلقہ موضوعات پر مشتمل قاموسی نوعیت کی ایک فارسی تصنیف "تحفتہ الہند" میں شامل کی گئی تھی اس کے مصنف کا تین طرح سے (۱) میرزا خان بن فخرالدین محمد،(۲) میرزا محمد خان بن فخرالدین محمد ، (۳) میرزاجان بن فخرالدین محمد جیسی قدرے مختلف صورتوں میں ملتا ہے۔ اس کا تعلق عہد جلال الدین اکبر کے مدبر و دانشور عبدالرحیم خانخاناں (۱۵۵۶ء۔۱۶۲۷ء)کے اخلاف سے تھا۔"مزید لکھتے ہیں کہ"تحفۃ الہند متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی ہے اور اس کے لکھے جانے کے کافی عرصے بعد اس میں بطور مقدمہ اردو زبان کے ایک ابتدائی روپ 'برج بھاشا' 'کھڑی بولی' یا 'ہندوستانی' کی قواعد کو ایک نصابی ضرورت کے تحت بالارادہ لکھا اور شامل کیا گیا تھا۔"
زیر نظر مجلہ"تحصیل" میں مقالہ نگاروں کے لئے تفصیلی سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں۔
انگریزی حصہ میں فہرست کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1.Research Articles, 2.Archival Annexure, 3.Book Review, 4.Obituary
حصہ اول میں جو مصنفین شامل ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں۔
ایم۔اکرام چغتائی، سید تنویر واسطی، انوار معظم، حسان بیگ، سہیل عمر، سید منیر واسطی، سناگا ایف مکو۔ دوسرے حصہ میں نجیبہ عارف کو شامل کیا گیا ہے۔ کتابی تبصرہ سید منیر واسطی کا ہے۔چوتھے حصہ میں بھی سید منیر واسطی کا نام شامل ہے۔
زیر نظر مجلہ 'تحصیل" کا سر ورق سادہ اور پر کشش ہے۔ جلد مضبوط اور کاغذ عمدہ ہے۔ یہ مجلہ مقالہ نگاروں کے لئے مفید و معاون ثابت ہوگا۔ مدیران قابل تحسین اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اللہ رب العزت اس مجلہ کو مزید خوبصورت اور پر کشش بنائے اور اس کی اشاعت کوقائم رکھے، آمین۔