کلیدی عہدوں پر قادیانی

کسی بھی حکومت میں سرکاری مشینری کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے کہ حکومت کو بہتر اور احسن طریقے سے چلانے میں سرکاری افسران کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر یہ اہلکار دیانت دار، محنتی، قابل، شائستہ اور قانون پسند ہوں تو حکومت کا ڈھانچہ نہ تو کبھی شکستہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی لحاظ سے کمزور۔ لیکن اگر اہلکار بدکردار، بددیانت، راشی، نااہل، بداطوار اور نظریاتی طور پر ملک کے مخالف ہوں تو حکومت کا قائم رہنا ناممکن اور سیاسی استحکام زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اہلکاروں کے انتخاب میں ہمیشہ تعلیم، اہلیت، شہرت، نظریاتی پاکیزگی، اسلام اور پاکستان سے وفاداری جیسے عوامل کو بطور خاص ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں کرتے وقت ایسے لوگوں کے ناموں پر غور نہ کیا جائے، جن کی اسلام، پاکستان اور آئین کے ساتھ وفاداری مشکوک ہو، کیونکہ اگر چور، چوکیدار بن گئے اور راہزنوں نے راہبروں کی جگہ لے لی تو پھر قانون اور آئین کے تحفظ کی ضمانت کون دے سکے گا؟ قادیانیوں کے بارے میں حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ نے تاریخی جملہ فرمایا تھا کہ ’’قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں‘‘ اور یہ بات پاکستان کے گزشتہ 60 سالوں میں بار بار ثابت ہو چکی ہے کہ قادیانی پاکستان دشمنی اورآئین و قانون شکنی میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ ان حالات میں یہ بات نہایت قابل افسوس ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ مناصب پر قادیانی عناصر کو ایک خاص سازش کے تحت فائز کیا جا رہا ہے۔

سرکاری محکموں میں مرزائیوں کااپنی آبادی سے بدرجہا بڑھ کر قبضہ کرنے پر مسلمان بجا طور پر بے چین ہیں۔ ان کی سابقہ روش کو دیکھ کر اگر وہ یہ مطالبہ کرتے کہ آئندہ دس سال میں ملک کے ہر محکمے میں کسی بھی مرزائی کی بھرتی بند کر دی جائے تب بھی یہ مطالبہ عین قرین انصاف تھا۔ مگرمسلمان اس سے کم تر مطالبہ یعنی قادیانیوں کو کلیدی مناصب سے ہٹانے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ جس کی معقولیت کی بنیاد صرف یہ مذہبی نظریہ نہیں کہ کسی اسلامی سٹیٹ میں قرآن و سنت کی واضح ہدایات کی بناء پر کسی بھی غیر مسلم کو کلیدی مناصب پر مامور نہیں کیاجا سکتا بلکہ اس کے علاوہ یہ مطالبہ اس لیے بھی کیا جا رہاہے کہ:
(1) یہ لوگ پچھلے انگریزی دور میں مسلمانوں کی غفلت اور انگریزوں کی غیر معمولی عنایات سے ناجائز فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے نام پر مسلمانوں کی ملازمتوں کے کوٹہ کا استحصال کرتے آئے ہیں۔
(2) قیام پاکستان کے بعد حکمرانوں کی غفلت یا بے حسی سے فائدہ اٹھا کر اس معمولی اقلیت نے شرح آبادی کے تناسب سے بدرجہا زیادہ ملازمتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
(3) اس گروہ سے تعلق رکھنے والے اہم مناصب پر فائز افراد نے اپنے ہم مذہبوں کو بھرتی کر کے اور اپنے ماتحت اکثریتی طبقہ مسلمانوں کے حقوق پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھائی۔
(4) اس کے نتیجے میں ملک کے تمام اہم شعبوں فوجی، صنعتی، معاشی، اقتصادی، انتظامیہ، مالیات، منصوبہ بندی، ذرائع ابلاغ وغیرہ پر انہیں اجارہ داری حاصل ہوگئی اور ملک کی قسمت کا فیصلہ ایک مٹھی بھر غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں چلا گیا۔
(5) اس گروہ کے سرکردہ افراد نے اپنے دائرہ اثر میں اپنے عہدہ اور منصب کو قادیانیت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے استعمال کیا اور انہی ہدایات پر عمل کیا جو ان کے خلیفہ گاہے بگاہے انہیں دیتے ہیں۔
(6) کلیدی مناصب پر فائز مرزائیوں کے ذمہ دار افراد ملک و ملت کے مفادات سے غداری کے مرتکب ہوتے رہے۔

ان چند وجوہات کی بناء پر مرزائیوں کا کلیدی مناصب پر برقرار رہنا صرف مذہبی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ ملک کی اکثریت کے معاشی، سماجی، معاشرتی مفادات کے تحفظ اور ملک و ملت کی سالمیت کا بھی تقاضا ہے۔

قادیانیوں نے جب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نوزائیدہ پاکستان پر دھاوا بولا، تو سب سے پہلے سر ظفر اﷲ خان قادیانی کوپاکستان کا وزیر خارجہ بنوایاگیا کہ اس سے مرزائیوں کودوہرا فائدہ حاصل ہونا تھا۔ اوّل: پاکستان میں اعلیٰ مناصب کے لیے مرزائیوں کے لیے وزیر خارجہ کی سفارش پر خصوصی چناؤ۔ دوم: بیرونی دنیا میں قادیانی تبلیغ اور تعلقات کے فوائد جی بھر کر حاصل کرنا۔ اور یوں قادیانی دونوں طرح کے فوائد میں خوب آگے نکل گئے۔ اصولی طور پر ظفر اﷲ کا وزیر خارجہ پاکستان بننا ہی غلط تھا کہ یہ ایک کلیدی یعنی محفوظ منصب تھا۔ مگر بہ امر مجبوری اس کو قبول کیا گیا کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انگریز وائسرائے نے اس (ظفر اﷲ) کی تقریری پر بہت اصرار کیا اور دھمکی دی کہ جب تک (اس کو وزیر خارجہ پاکستان ہونے کا ) اعلان نہیں کیا جاتا، اختیارات کی منتقلی نہ ہو سکے گی۔ سر ظفر اﷲ خاں 27 دسمبر 1947ء سے 24اکتوبر 1954ء تک تقریباً 7سال تک وزیر خارجہ کے عہدے پر رہے۔

ایک موقع پر قادیانی خلیفہ مرزا محمود نے اپنے پیروکاروں کو تلقین کرتے ہوئے کہا: ’’جب تک سارے (سرکاری و غیر سرکاری) محکموں میں ہمارے آدمی (مسلط) نہ ہوں، ان (محکموں کے اثر و رسوخ) سے جماعت (مرزائیہ) پوری طرح کام نہیں لے سکتی۔ مثلاً موٹے موٹے محکموں میں سے فوج ہے، پولیس ہے، ایڈمنسٹریشن ہے، ریلوے ہے، فنانس ہے، اکاؤنٹس ہے، کسٹمز ہے، انجینئرنگ ہے، یہ آٹھ دس موٹے موٹے محکمے ہیں جن کے ذریعے جماعت (مرزائیہ) اپنے حقوق محفوظ کرا سکتی ہے۔ ہماری جماعت کے نوجوان فوج میں بے تحاشا جاتے ہیں اس کے نتیجے میں ہماری نسبت فوج میں دوسرے محکموں کی نسبت سے بہت زیادہ ہے اور ہم اس سے اپنے حقوق کی حفاظت کافائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ باقی محکمے خالی پڑے ہیں۔ بے شک آپ لوگ اپنے لڑکوں کو نوکری کرائیں لیکن وہ نوکری اس طرح کیوں نہ کرائی جائے جس سے جماعت فائدہ اٹھا سکے۔ اور پیسے بھی اسی طرح کمائے جا سکتے ہیں کہ ہر محکمے میں ہمارے آدمی موجود ہوں اور ہر طرف ہماری آواز پہنچ سکے۔‘‘ (روزنامہ الفضل ربوہ جلد نمبر40 شمارہ نمبر10 صفحہ 4، 11جنوری 1952ء)

یہی وجہ ہے کہ وزارت خارجہ، وزارت داخلہ، وزارت دفاع، وزارت خزانہ، وزارت پانی و بجلی، وزارت مواصلات، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، وزارت صحت ، پی آئی اے، احتساب بیورو، وزارت تعلیم، پبلک سروس کمیشن، ایٹمی توانائی کمیشن، بیرونی ممالک سفارت خانے، سی بی آر وغیرہ میں قادیانیوں کی بھرمار ہے۔ مُلکِ عزیز پاکستان میں سابق وزیر خارجہ سر ظفر اﷲ خان کے دور میں حساس عہدوں پر قادیانیوں کو تعینات کیا گیا۔ حساس اداروں کے کلیدی عہدوں پر قادیانیوں کا براجمان ہونا ملکی سالمیت اور بقاء کے لیے حد درجہ خطرناک ہے۔ اس لیے کہ ہر قادیانی نے اپنے مذہب کی تبلیغ و تشہیر کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے۔ اس سلسلہ میں سر ظفر اﷲ خان کی زندگی ہمارے سامنے ہے کہ وہ پہلے قادیانی جماعت کے مبلغ اور بعد میں حکومت پاکستان کے ملازم تھے۔ اسی طرح جہاں کہیں بھی کوئی قادیانی موجود ہے، وہ اس ادارہ کا ملازم بعد میں ہے قادیانیت کا مبلغ پہلے ہے۔ قادیانی غیر مسلم اقلیت ہیں، آبادی کے تناسب سے قادیانیوں کو ملازمتیں ضرور ملنی چاہئیں کہ اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری از حد ضروری ہے جبکہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ آبادی کے تناسب سے بڑھ کر کئی گنا زیادہ قادیانی سرکاری حساس اداروں میں ملازم ہیں۔ تقریباً 22 کروڑ آبادی میں 20 لاکھ کے قریب قادیانی ہیں۔ یعنی کل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں۔ لیکن جب عملی میدان یا بیورو کریسی میں نظر دوڑائی جائے تو پیپلز پارٹی کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو کا وہ تاریخی جملہ 100% سچ نظر آتا ہے جو انہوں نے کرنل رفیع الدین کو کہا تھا کہ ’’یہ لوگ (قادیانی، مرزائی) چاہتے تھے کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے‘‘ (بھٹو کے آخری 323 دن، صفحہ 167)

امریکہ میں جو مقام یہودیوں کو حاصل ہے وہی قادیانیوں نے پاکستان میں حاصل کرنا چاہا۔ اپنے غلبہ و اقتدار کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قادیانی قیادت نے اپنے کارکنوں کو سرکاری محکموں میں بھرتی کرنے کا منصوبہ بنایا اور پھر اپنے اس سرکاری اثر و رسوخ کو قادیانیت کے فروغ اور استحکام کے لیے استعمال کیا۔ وزیر خارجہ سرظفراﷲ خاں قادیانی اپنی سرکاری حیثیت سے ناجائز فائدے اٹھانے میں اس حد تک بدنام ہوا کہ 1953ء میں اس کے خلاف ملک بھر میں زبردست احتجاج ہوا اور عوامی سطح پر اس کی برطرفی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس تحریک کے دوران معلوم ہوا کہ سر ظفر اﷲ خاں کا وزیر خارجہ کی حیثیت سے تقرر برطانوی سامراج کے دباؤ کا نتیجہ تھا اور اس کے عرصۂ وزارت میں اسے اسلام دشمن طاقتوں کا مکمل تحفظ حاصل رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سر ظفر اﷲ خاں کے دور وزارت میں بیرون ممالک تمام پاکستانی سفارت خانوں میں ان کی سفارش پر یہودی لڑکیوں کو ملازم رکھا گیا جس سے اسلامی ممالک میں پاکستان کی بہت جگ ہنسائی ہوئی۔ اس وجہ سے بعض عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ رہے۔علاوہ ازیں بیرونی دنیا میں پاکستانی سفارتخانوں کے ذریعے اس قدر قادیانی لٹریچر تقسیم کیا گیا کہ قادیانیت کو ہی پاکستان کا سرکاری مذہب سمجھا جاتا تھا۔ سرظفراﷲ خاں نے اپنے خلیفہ مرزا محمود کے حکم پر بیرون ممالک تمام سفارتخانوں میں چن چن کر قادیانیوں کو بھرتی کیا جو قادیانیت کی تبلیغ کے لیے دن رات کام کرتے تھے۔ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے بانی جناب حمید نظامی مرحوم نے کہا تھا کہ غیر ممالک میں پاکستان کے ’’سفارت خانے‘‘ تبلیغ مرزائیت کے اڈے اور ان کے جماعتی دفاتر معلوم ہوتے ہیں۔ سر ظفر اﷲ نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے جب جزائر عرب الہند کا دورہ کیا تو اس نے مختلف تقریبات میں جھوٹے مدعی نبوت آنجہانی مرزا قادیانی کا آخر الزمان نبی کی حیثیت سے تعارف کرایا۔ سر ظفر اﷲ خاں کی انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ 1950ء میں تقریباً 40 ممالک میں قادیانیوں کے 126 مشن کام کر رہے تھے، ان میں سے ایک اسرائیل میں بھی ہے۔
حال ہی میں حکومت پاکستان نے معروف قادیانی نبیل منیر شیخ کو اقوام متحدہ میں مستقل نائب مندوب تعینات کیا ہے۔ یہ شخص قادیانی جماعت کے حلقہ گارڈن ٹاؤن لاہور کا صدر اور قادیانی تنظیم انصار اﷲ کا زعیم تھا۔ نبیل منیر شیخ کی بیوی صائمہ منیر قادیانی خواتین کی تنظیم لجنہ کی سرکردہ راہنما ہے۔ اس نے اپنا وصیت نامہ قادیانی مرکز ربوہ میں جمع کروا رکھا ہے جس کے تحت اس کی موت کے بعد اس کی جائیداد کا 1/10 حصہ قادیانی فنڈ میں جمع کر دیا جائے۔ یاد رہے یہ فنڈ قادیانی مذہب کی تبلیغ و اشاعت میں خرچ ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ایسا افسر نہیں جسے اس حساس عہدہ پر تعینات کیا جا سکے؟

پاکستان میں کلیدی عہدوں پر قادیانیوں کی تعیناتی کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ ملاحظہ کیجیے:
’’اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے قادیانیوں کی ریاستی اداروں اور کلیدی عہدوں بشمول اعلیٰ آئینی عہدوں پر تعیناتی اور گھس بیٹھنے کے عمل کی موثر درستگی ہونی چاہئے تھی لیکن اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے اگرچہ قوم کا مطالبہ اور دوسری آئینی ترمیم کی منشا یہی ہے۔

ریاست ِپاکستان مخصوص طریقہ کار اور نئے سائنسی اقدامات کے ذریعے اس اقلیت کی اصل تعداد کا پتہ چلائے۔ یہ ایسی صورت حال میں مزید ضروری ہوجاتا ہے جب اس ا قلیت کی ایک بڑی تعداد اصل شناخت چھپاتی ہے اور مسلمان ہونے کا غلط تاثر دیتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں ، ہر کسی نے قادیانیوں کی جانب سے طاقت کی راہداریوں تک رسائی کو محسوس کیا تھا اور یہ تشویش کا باعث بنتا رہا ہے۔ طارق عزیز (ایک سرکاری افسر جو قادیانی تھا) نے صدر جنرل پرویز مشرف کے پرنسپل سیکرٹری ہونے کے ناطے اپنا کردار ادا کیا اور مختلف محکموں میں قادیانیوں کی شمولیت کو یقینی بنایا ۔ ان میں آئینی عہدے بھی شامل ہیں اور اس وجہ سے مختلف اہم حساس نوعیت کے معاملات میں قادیانیو ں کو مشاورت کا حصہ بنادیا۔ یہاں دوبارہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتنے پاکستانی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کا پرنسپل سیکرٹری آئین پاکستان کے آرٹیکل260(3)(a)(b)کے تحت مسلمان تھا یا غیر مسلم تھا۔ حال ہی میں واجد شمس الحسن نے قادیانیوں کے سرپرست ملک برطانیہ میں قادیانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنے قادیانی عقیدے کو افشا کیا ہے ۔

یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کا ہر شہری بلا امتیاز نسل، ذات، عقیدہ یا مذہب کے زندگی کا حق رکھتا ہے اور آئین کی حدود میں اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ تاہم، چونکہ قادیانیوں کو پہلے ہی غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے ، اس لئے ان کو دیگر اقلیتوں کی طرح ہی تصور کیا جانا چاہئے جن کو بآسانی شناخت کرلیا جاتا ہے اور اپنے ناموں سے اپنے مذہب کو چھپانے کا اہتمام نہیں کرتے۔

ملک کے وسیع تر مفاد میں عدالت ایسے افراد کے نام ظاہر کرنے سے باز رہے گی جو قادیانی عقائد رکھتے ہیں مگر انھوں نے اپنی مذہبی شناخت چھپا کر بیوروکریسی، عدلیہ، فوج، نیوی، ایئرفورس اور دیگر حساس اور اہم اداروں میں اعلیٰ عہدے حاصل کئے ہیں کیونکہ اس سے بدمزگی پیدا ہوگی مگر اس روش کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ ملک کے ہر شہری کا حق ہے کہ وہ ایسے افراد کے بارے میں جانے جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں وہ کس مذہبی برادری سے تعلق رکھتے ہیں ، جو لوگ ان کے بچوں کے لئے نصاب ترتیب دیتے ہیں کن مذہبی عقائد کے حامل ہیں، جو لوگ ان کی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں ان کے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو کیا تکریم دیتے ہیں ، وہ لوگ جو سفیر ہیں اور ان کے اسلامی نظریے کے نمائندہ ہیں اور دنیا بھر میں اس کا پرچار کرنے کے لئے تعینات ہیں کون سے نظریے کی تشہیر کرتے ہیں اور کس کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور سب سے آخر میں لیکن اتنی ہی اہم بات ہے کہ وہ لوگ جن کے ذمے پاکستان کا دفاعہے وہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟ یہ ریاست کی ذمہ داری تھی اور بالخصوص وفاقی حکومت کی لیکن یہ اس سے عہدہ برآ ہونے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے جس وجہ سے عدالت احکامات جاری کرنا ضروری سمجھتی ہے۔

پاکستان میں رہنے والی اکثر اقلیتیں اپنے ناموں اور پہچان کے اعتبار سے علیحدہشناخت رکھتی ہیں لیکن آئین کے مطابق ان اقلیتوں میں سے ایک اقلیت اپنے ناموں اور ظاہری لباس کے اعتبار سے علیحدہ شناخت نہیں رکھتے جس سے بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اپنے ناموں کی وجہ سے وہ آسانی سے اپنا عقیدہ چھپاسکتے ہیں اور ایک مسلم اکثریت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، وہ مکرم اور حساس عہدوں تک رسائی بھی پاسکتے ہیں اور جملہ مفادات حاصل کرسکتے ہیں۔

اس صورت حال کو سنبھالنا اہم ہے کیونکہ ایک غیر مسلم کی آئینی عہدوں پر تعیناتی ہمارے مقامی قانون اور رسومات کے منافی ہے۔ اسی طرح ، غیر مسلم مخصوص آئینی عہدوں کے لیے منتخب بھی نہیں ہو سکتے ہیں۔ اکثر اداروں / شعبوں بشمول پارلیمنٹ کی ممبرشپ ، اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں ہیں۔ اسی لیے جب کسی اقلیتی گروہ کا کوئی رکن اپنے اصل مذہبی عقیدے کو دھوکہ دہی سے چھپاتا ہے اور اپنے آپ کو مسلم اکثریت کا حصہ ظاہر کرتا ہے تو وہ آئین کے الفاظ اور روح کی نفی کر رہا ہوتا ہے۔ اس پامالی سے محفوظ بنانے کے لیے ریاست کو فوری اقدامات کرنے چاہیے‘‘۔
(PLD 2019 Islamabad 62, Mulana Allah Wasaya vs Federation of Pakistan)
 

Mateen Khalid
About the Author: Mateen Khalid Read More Articles by Mateen Khalid: 17 Articles with 25443 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.