کیا سلمان تاثیر بے قصور ہے؟

انعام الحق صاحب کا کالم پڑھا تو ذہن میں کچھ سوالات اٹھ کھڑے ہوئے سوچا کہ ان کا جواب مل جائے تو تسلی ہوجائے گی لیکن بات تھوڑا طول پکڑ گئی تو پھر ایک مستقل کالم لکھنا پڑا۔

انعام الحق صاحب نے بڑی پیاری اور صحیح بات کی ہے کہ ظلم پھر ظلم ہے جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ لیکن میں انعام الحق صاحب اور دوسرے اُن دوستوں سے چند سوالات ضرور پوچھنا چاہوں گا جو اُن کے خیالات کی نہایت خوشدلی سے حمایت کرتے ہیں۔

۱) کیا اسلام نے کہیں بھی اقلیتوں کے حقوق پامال کیے ہیں یا کرنے کی تعلیم دی ہے؟ اگر نہیں تو پھر سلمان تاثیر صاحب کونسے اقلیتوں کے حقوق کی بات کرنے جا رہے تھے؟
۲) جولوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ اُس نے تو ضیاء کے قانون کو کالا کہا تھا تو پھر وہ لوگ یہ بتائیں کہ کیا جنرل ضیاء نے یہ قانون خود سے تیار کرلیا تھا؟ اگر ایسا ہی ہوا تھا تو اُس وقت کے تمام علماء نے اس کے خلاف کیوں فتویٰ نہیں جاری کیا اسلیے کہ اُس نے خود سے ایک نیا قانون بنا کر اسے شرعی حیثیت دی تھی۔
۳) کیا سلمان تاثیر نبی اکرم ﷺ سے زیادہ انسانیت جانتے تھے؟
۴) ہمارے ملک میں دین کی تعلیم دینے والوں کے دماغ الٹ ہیں تو پھر کیا امریکہ اور اسرائیل میں موجود پادری اور پوپ جیسے لوگوں کے دماغ بلکل سیدھے ہیں؟
۵) کیا اللہ تعالیٰ کو ماننے والا اللہ عزوجل اور اس کے پیارے حبیبﷺ کے بنائے ہوئے قانون کو کالا قانون کہہ سکتا ہے تو پھر امریکہ کی عدالت میں عافیہ کو دی جانے والی سزا جو کسی بھی لحاظ سے موت کی سزا سے بھی بڑھ کر ہے بتاؤ یہ کتنا اچھا اور بہترین قانون ہے؟
۶) اگر توہین رسالت کے قانون کا لوگ غلط استعمال کرتے ہیں تو ایسا کوئی دوسرا قانون بتائیں جس کا غلط استعمال نہیں ہو سکتا۔
۷) اکثر دیکھا ہے کہ قتل کوئی کرتا ہے اور پھنسا کسی اور کو دیا جاتا ہے، چوری کوئی اور کرتا ہے تو پھنس بیچارہ کوئی اور جاتا ہے اسی طرح اور بھی دوسرے بہت سارے قوانین میں ایسا ہوتا ہے تو کیا ان سب قوانین کو ختم کر کے معاشرے کو بالکل لا قانونیت والا معاشرہ نہ بنا دیں۔ نہ کوئی قانو ن ہو گا نہ کوئی اِس کا غلط استعمال کرے گا اور پھر دیکھیں پورا معاشرہ کتنا بہترین مثالی معاشرہ بنے گا۔ جس کا جو جی چاہے گا کرے گا۔ نہ کسی کی عزت محفوظ ہوگی اور نہ ہی مال و دولت بلکہ کسی کی جان کی بھی کوئی قیمت نہیں ہوگی۔ (واہ کتنا خوبصورت معاشرہ ہوگا اس کی مثال تو ڈھونڈے سے بھی نہی ملے گی)۔

میرا آخری سوال صرف اور صرف انعام الحق صاحب سے ہے

۸) آپ نے اپنے کالم کو آخر میں سیاسی رنگ دے کر کیا حاصل کیا ہے؟

گستاخ رسول کی سزا صرف اور صرف موت ہے اور اسی پر سب مکتب فکر کے علماء کا اتفاق ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی احادیث موجود ہیں لیکن میں انتہائی اختصار سے لکھوں گا۔

حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ''میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا،آپ کسی شخص سے ناراض ہوئے، تو وہ شخص درشت کلامی پر اتر آیا۔ میں نے کہا : اے خلیفہ رسول! آپ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں؟ میرے ان الفاظ سے ان کا سارا غصہ جاتا رہا، وہ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے، اور مجھے بلا لیا اور فرمایا:'' اگر میں تمہیں اجازت دیتا تو تم یہ کر گزرتے ؟ میں نے کہا: کیوں نہیں ؟ ضرور کرتا ؛ آپ نے فرمایا: '' اللہ کی قسم یہ حضرت محمدﷺ کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیںـ( یعنی بدکلامی اور گستاخی کی وجہ سے گردن اڑا دی جائے ۔)
الصارم المسلول ٢٠٥۔ ابو داؤد ٢/٢٥٢۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :'' بنی خطمہ کی ایک عورت نبی کریمﷺکی ہجو کیا کرتی تھی؛ آپﷺ نے فرمایا:'' مجھے کون اس سے نجات دلائے گا،اس کی قوم کا ایک آدمی کھڑا ہوا، اور اس نے کہا: اس کام کے لیے میں ہوں اے اللہ کے رسولﷺ ! اور اس نے جاکر اس عورت کو قتل کردیا۔ ''
! مسند شہاب للقضاع ٢/ ٤٦۔

واقدی نے اس واقع کی تفصیل لکھی ہے کہ یہ عورت عصما بنت مروان، یزید بن الخطمی کی بیوی تھی، بدر سے واپسی پر آپﷺ نے حضرت عمیر بن عدیﷺ کو اس عورت کو قتل کرنے کیلئے بھیجا۔انہوں نے جاکر اس عورت کو دیکھا کہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی تھی، انہوں نے بچے کو علیحدہ کر کے تلوار اس کے پیٹ سے پار کر دی۔ پھر فجر کے بعد انہوں نے رسول کریمﷺ کواس واقعہ کی اطلاع دی تو رسول اللہﷺنے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: '' اگر تم ایسے شخص کودیکھنا چاہو جس نے اللہ اور اس کے رسولﷺکی غیبی مدد کی ہے تو عمیر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لو ۔''

اور جب حضرت عمیر رضی اللہ عنہ واپس آئے تو دیکھا کہ اس عورت کے بیٹے لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ اسے دفن کر رہے تھے۔ جب سامنے آتے دیکھا تو وہ لوگ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کی طرف آئے،اور کہا : اے عمیر !اسے تو نے قتل کیا ہے؟ عمیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : '' ہاں، تم نے جو کرنا ہے کر لو،اور مجھے ڈھیل نہ دو؛ مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگر تم سب وہ بات کہو جو وہ کہا کرتی تھی، تو میں تم سب پر اپنی تلوار سے وار کروں گا، یہاں تک کہ میں مارا جاؤں یا تمہیں قتل کردوں۔''اس دن سے اسلام بنی خطمہ میں پھیل گیا،قبل ازیں کچھ آدمی ڈر کے مارے اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھتے تھے۔''

‘‘کیا سلمان تاثیر بے قصور ہے؟ ’’

میں اس کا جواب کیا دوں؟

اس کا جواب تو بچہ بچہ جانتا ہے۔ اس کے باوجو بھی اگرکوئی اسے بے قصور یا شہید سمجھتا ہے تو وہ جانے اور اُس کا کام۔
Akhtar Abbas
About the Author: Akhtar Abbas Read More Articles by Akhtar Abbas: 22 Articles with 58488 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.