رئیس احمد صمدانی کی تخلیقی نثر تحقیقی و تنقیدی مقالہ برائے ایم فل (اردو)، مقالہ نگار محمد عدنان

لاہور یونیورسٹی، سرگودھا کیمپس کے شعبہ اردو میں محمد عدنان نے شعبہ کے استاد محمد تنویر مظہر کی نگرانی میں ایم فل مقالہ لکھا ان کی تحقیق کا موضوع معروف استاد، مصنف و مولف پروفیسرڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی تخلیقی نثر ہے ۔ اس مقالے پر محقق کو ایم فل اردو کی ڈ گری تفویض ہوئے۔

مرئیس احمد صمدانی کی تخلیقی نثر
تحقیقی و تنقیدی مقالہ برائے ایم فل (اردو)، مقالہ نگار محمد عدنان
جائزہ و تبصرہ ۔۔۔۔حافظہ مریم خان
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں اصلیت معلوم کرنا، دریافت کرنا، کھوج لگانا، تفتیش کرنا، حقیقت کو ثابت کرنا، نیا مواد سامنے لانا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سوچنے سمجھنے اور تحقیق و جستجو کی فطری صلاحیت سے نوازا ہے۔ بہتر سے بہتر کی تلاش میں سرگرداں رہنا بھی انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی تحقیق پر عمل پیرا ہوئے بغیر ممکن نہیں، جس قوم نے اس میدان میں جس قدر جدوجہد کی اسے اتنی ہی ترقی و عروج حاصل ہوا۔ تحقیق انسانی زندگی کے تمام تر شعبوں میں بہتر سے بہتر کی راہ دکھاتی ہے۔ معاشرہ میں زندگی بسر کرنے والے جن مسائل اور مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں تحقیق انہیں مسائل اور مشکلات کا حل نکالنے کی عملی قوت رکھتی ہے۔ تحقیق کسی بھی ایس موضوع پر جس پر مواد پہلے سے موجود ہو، اس پر لکھا جاچکا ہویا کسی بھی موضوع پر مختلف انداز سے اظہار خیال کردینا تحقیق نہیں بلکہ تحقیق نام ہے نئی دریافت، نئی ایجاد، نئے موضوع پر قلم کاری کرنے کا۔ محمد عدنام کے ایم فل مقالے کا عنوان اردو ادب کی ایک معروف شخصیت،ادب کی مختلف اصناف پرگزشتہ پانچ دہائیوں سے لکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدنی کی تخلیقی نثر ہے۔یہ مقالہ لاہور یونیورسٹی، سرگودھا کیمپس کے شعبہ اردو میں پیش کیا گیا جس پر مقالہ نگار کو اردو میں ایم فل کی ڈگری تفویض ہوئی۔

اردو تحقیق کے حوالے سے ڈاکٹر طارق محمود ہاشمی نے اپنے مضمون ’اردو تحقیق کا بیانیہ اور عصری معنویت‘ شائع شدہ سہ ماہی ’عطا‘ سالنامہ 2018ء میں لکھا ہے کہ ”اردو تحقیق کا عمل کئی ایک سنگ میل عبور کرتے ہوئے اب تک ایک طویل سفر طے کرچکا ہے اور اس دائرے میں جامعات کے توسط سے ایک وسعت بھی آئی ہے“۔ جامعات میں اردو زبان و ادب کے مختلف موضوعات پر تحقیق کا دائرہ وسیع تر ہوچکا ہے، خاص طور پر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے تحقیق کو ایک نئی سمت دی، معیار قائم کیا اور تحقیق میں وسعت پید ہوئی۔ تحقیق نئے حقائق، نئی دریافت، نئے سے نئے موضوعات کی تہہ بہ تہہ کھوج لگانے اور مستقبل کے محقق کے لیے راہ ہموارکی۔لاہور یونیورسٹی کو نجی جامعات میں سب سے وسیع علمی نیٹ ورک کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے ذیلی کیمپسز مختلف شہروں میں بھی کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح اس یونیورسٹی کا ایک کمیپس سرگودھا میں بھی قائم ہے جہاں شعبہ اردو درس وتدریس میں فعال ہے اور ایم فل و پی ایچ ڈی تحقیق کا عمل بھی جاری ہے۔ مقالہ نگار محمد عدنان نے اسی جامعہ سے ایم فل کی سطح پر تحقیق کا آغاز کیا اور تحقیق کا موضوع اپنے ایک محترم استاد پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی نثری تخلیق منتخب کیا۔ تحقیق کے نگراں شعبہ اردو کے استاد جناب محمد تنوری مظہر صاحب تھے۔ تحقیق کا موضوع ”رئیس احمد صمدانی کی تخلیقی نثر: تحقیقی و تنقیدی مقالہ برائے ایم فل (اردو)“ ہے،ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی علمی و ادبی خدمات کا دائرہ 45 سالوں پر محیط ہے گویا قلم و قرطاس سے جڑے پانچویں دہائی ہوچکی ہیں اب تک 36 کتب تصنیف و تالیف کرچکے ہیں، مضامین کی تعداد آٹھ سو سے زیادہ ہے۔ ان کے موضوعات میں شخصیات سر فہرست ہیں، وہ سو سے زیادہ علمی، ادبی، سیاسی، معاشرتی، صحافتی شخصیات پر مضامین و کالم تحریر کر چکے ہیں۔ کالم نگار بھی ہیں، کالموکو مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے، خاکہ نگار بھی ہیں خاکوں کا مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ مختصر یہ کہ ڈاکٹر صاحب کی علمی و ادبی خدمات بہت وسیع اور اپنے اندر گہرائی و گیرائی لیے ہوئے ہیں۔ پیش نظر تحقیق میں ڈاکٹر صمدانی کی صرف
پانچ تصانیف کو تحقیق کی بنیاد بنایا، ان تصانیف میں حسب ذیل شامل ہیں۔
۱۔ یادوں کی مالا
۲۔ جھولی میں ہیرے اور موتی
۳۔ شیخ محمد ابراہیم آزادؔ شخصیت و شاعری
۴۔ رشحات قلم (کالمو ں کا مجموعہ)
۵۔ وہ جو اب ہم میں نہیں
مقالہ چار ابواب، ضمیمہ جات اور کتابیات پر مشتمل ہے۔ ابتداء میں مقالہ نگار نے پیش لفظ کے عنوان سے اپنی تحقیق کا مختصر تعارف بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”اس مقالہ میں ڈاکٹر صمدانی کی غیر افسانوی نثرکا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے“۔ باب اول کا عنوان ’رئیس احمد صمدانی شخصیت، زندگی اور تصانیف“ ہے۔ اس باب میں رئیس احمد صمدانی کے خاندانی پس منظر، پیدائش اور ابتدائی تعلیم، ادواجی زندگی، پیشہ ورنہ زندگی، تصانیف جن میں یادوں کی مالاکے موضوعات کی تفصیل، جھولی میں ہیرے اور موتی کے موضوعات کی تفصیل،تیسری تصنیف ’شیخ محمد ابراہیم آزادؔ۔ شخصیت و شاعری“، کالموں کا مجموعہ ”رشحاتِ قلم“کے موضوعات کی تفصیل۔ آخر میں پانچویں تصنیف ”وہ جو اب ہم میں نہیں“ کے موضوعات کی تفصیل جس میں 34شخصیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اسی باب میں ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی شخصیت اور فن پر مشاہیر اور معاصرین کی آرا ء شامل ہیں۔ حوالہ جات پر پہلے باب کا اختتام ہوتا ہے۔

مقالہ کا باب دوم ”رئیس احمد صمدانی کی سوانحی نثر“ کا احاطہ کرتا ہے۔ اس باب میں خاکہ نگار نے خاکہ نگاری کے بارے میں تفصیلی اظہار خیال بھی کیا۔ عید قدیم سے موجودہ عہد کے خاکہ نگاروں کے بارے میں تفصیل فراہم کی گئی ہے۔ اس کے بعد رئیس احمد صمدانی کی خاکہ نگاری کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ جھولی میں ہیرے اور موتی میں شامل خاکوں کو الگ الگ تجزیاتی مطالعہ کیا گیا۔ اس کتاب کا حصہ دوم ’یادوں کے دریچے“ ہے اس حصہ میں شامل مضامین جو ایک اعتبار سے ڈاکٹر صمدانی کی آپ بیتی کا کچھ حصہ ہے کا مطالعہ بھی کیا گیا ہے۔ اسی باب میں ان کی کتاب ہندوستان کے معروف شاعر شیخ محمد ابراہیم آزاد ؔ کی شخصیت و شاعری پر مرتب کتاب کا تجزیاتی مطالعہ بھی شامل ہے۔ اسی باب میں ڈاکٹر صمدانی کی تصنیف یادوں کی مالا کا بھی تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔

مقالہ کا باب سوم رئیس احمد صمدانی کی صحافتی نثر کا مبنی ہے۔ اس باب میں کالم نگار نے کالم نویسی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور رئیس احمد صمدانی کی کالم نویسی کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ان کی تصنیف ’رشحات ِقلم’اور’وہ جو اب اب ہم میں نہیں‘ میں شامل کالموں کا الگ الگ تجزیہ کیا ہے۔ باب چہارم رئیس احمد صمدانی کی تخلیقی نثر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ہے۔ آخر میں مقالہ نگار لکھتا ہے کہ ”ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے اردو ادب کی نثری اصناف میں طبع آزمائی کی اور اس میں کامیاب بھی رہے۔ ان کی کتب کے دیباچے اور فلیپ ڈاکٹر سلیم اختر اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری جیسے اردو ادب کے معروف ناموں نے تحریر کیے۔ ان کی کالم نویسی کے حوالے سے ملکی اور غیر ملکی کالم نویسوں نے اپنی ّراء کا اظہار کیا ہے۔ اس طرھ ان کے تحریر کردہ خاکوں کا تعارف شاہد حنائی کی کتاب ”اردو خاکہ نگاری“ میں بھی ملتا ہے۔ یہ تمام نکات ان کا ادبی مقام و مرتبہ وضع کرتے ہیں“۔

 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1285397 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More