حضرت اسماء بنت عمیسؓ

 اسوہ صحابیات

اسلام کے ہر دور میں اگرچہ عورتوں نے مختلف حثیتوں سے امتیاز حاصل کیا ہے۔لیکن ازواجِ مطہرات ،بنات طبعیات اور اکابر صحابیات ان تمام حثیات کی جامع ہیں۔ہماری عورتوں کے لئے انہی کے مذہبی اخلاقی معاشرتی اور علمی کارنامے اسوہ حسنہ بن سکتے ہیں۔موجودہ دور کے تمام معاشرتی اور تمدنی خطرات سے ان کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔لطافت طبع رقت قلب اور اثر پذیری ایک نیک سرشت انسان کا اصلی جوہر ہیں۔ان ہی کے ذریعے سے وہ ہر قسم کی پندو موعظمت ،تعلیم و تربیت اور ارشاد و ہدایات کو قبول کر سکتا ہے۔

پھولوں کی پنکھڑیاں نسیم صبح کی خاموش حرکت سے مل جاتی ہیں۔لیکن تناور درخت کو بادِ صرصر کے جھونکے بھی نہیں ہلا سکتے۔شعاع نگاہِ آیئنہ کے اندر سے گزر جاتی ہے۔لیکن پتھروں پر تیر بھی اثر نہیں کرتے۔لطیف الطبع آدمی دعوت حق کو آسانی سے قبول کر لیتا ہے۔لیکن مُہرِ دل پر بڑے بڑے معجزات بھی اثر نہیں کرتے۔

اسلام کی قدیم ترین تاریخ ہمارے سامنے مسلمان عورتوں کا بہترین اوراصل نمونہ پیش کرتی ہے۔اگر ہماری عورتوں کے سامنے اسلام کی برگزیدہ عورتوں کی حیات کا نمونہ رکھا جائے تو ان کی فطرتی لچک ان سے اور بھی زیادہ متاثر ہو سکے گی۔موجودہ دور کے موثرات سے بیزار ہو کر خالص اسلامی اخلاق ،اسلامی معاشرت اور اسلامی تمدن کا نمونہ بن جائے گی۔

انہی اکابر صحابیات میں حضرت اسما بنت عمیسؓ بھی ہیں ۔یہ قبیلہ ختعم سے تھیں۔ان کانکاح حضرت جعفرؓ سے ہوا جو حضرت علیؓکے بھائی تھے۔آنحضرتﷺ کے خانہ ارقم میں مقیم ہونے سے قبل مسلمان ہوئی تھیں۔حضرت جعفرؓ بھی اسی زمانے میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔یہ حبشہ کی ہجرت میں شامل تھیں اور کئی سال وہیں مقیم رہیں۔۸ ہجری میں جب خیبر فتح ہوا تب مدینہ آئی تھیں۔جب حضرت حفضہ ؓ کے گھر گئیں تو وہاں حضرت عمرؓ بھی موجود تھے۔
سوال کیا۔’’ یہ خاتون کون ہیں۔؟‘‘
حضرت حٖفضہؓ نے بتایا ۔’’ یہ اسماؓ ہیں۔‘‘
حضرت عمر بولے۔’’ ہاں یہ حبش والی ہیں سمندر والی۔‘‘
حضرت عمرؓ نے ان سے کہا۔
’’ ہم کو تم پر فضیلت ہے اس لئے کہ ہم مہاجر ہیں۔‘‘
یہ سُن کر حضرت اسماؓ کو نہایت صدمہ اور غصہ آیا ۔وہ ناراضگی سے بولیں۔’’ تم آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے۔آپ ﷺ بھوکوں کو کھانا کھلاتے اور جاہلوں کو پڑھاتے تھے۔لیکن ہماری حالت بالکل جدا تھی۔ہم دور دراز مقام میں خدا کی خوشنودی کے لئے پڑے رہے اور بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھائیں۔‘‘
ٓآنحضرت ﷺ تشریف لائے تو سارا واقعہ سنایا گیا۔آپ ﷺ نے فرمایا۔
’’ اُنہوں نے ایک ہجرت کی اور تم نے دو ہجرتیں کیں ۔اس لئے تم کو زیادہ فضیلت ہے۔‘‘
حضرت اسماؓ اور دوسرے مہاجرین کو اس سے اتنی تقویت اور خوشی ملی کہ دنیا کی تمام فضیلتیں ہیچ ہو گئیں۔مہاجرین حبشہ جوق درجوق حضرت اسمائءؓکے پاس آتے اور یہ واقعہ دریافت کرتے تھے۔غزوہ موتہ میں حضرت جعفرؓ نے شہادت پائی تھی۔آنحضرت ﷺ کو خبر ہوئی تو
آپﷺ بے انتہا غمزدہ ہوئے۔اسماؓ اسی حالت میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپﷺ غمگین تھے۔حضرت اسماؓ نے عرض کی۔
’’ یا رسول اﷲﷺ ! آپﷺ اتنے غمگین کیوں ہیں؟ کیا جعفر ؓ کے متعلق کوئی خبر ہے؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا۔’’ جعفرؓ شہید ہو گئے ہیں۔‘‘
آپ ﷺ نے بچوں کو اپنے پاس بلایا اور اپنے اہل بیت سے فرمایا۔’’ جعفرؓ کے بچوں کے لئے کھانا پکاؤ کیونکہ وہ رنج و غم میں مبتلا ہیں۔‘‘
آپﷺ نے مسجد میں اعلان کیا اور غم زدہ رہے۔اسی حالت میں ایک شخص نے آکر اطلاع دی۔
’’ جعفرؓ کی مستورات ماتم کناں ہیں۔‘‘
آپ ﷺ نے اُن کو منع فرمایا۔اس واقعے کے تین دن بعد ان کے گھر تشریف لے گئے اور سوگ کی ممانعت فرمائی۔تقریباً چھے مہینے بعد آپ ﷺ نے ان کا عقدثانی حضرت ابوبکرؓ سے کر دیا۔اُن کے بیٹے محمد ذو الحیفہ میں پیدا ہوئے تھے۔آنحضرت ﷺ کے مرض الموت میں حضرت ام سلمہؓ اور حضرت اسماؓ نے ذات الجنب تشخیص کر کے دوا پلانی چاہی ۔کیونکہ آپ ﷺ کو گوارا نہیں تھا۔اس لئے آپﷺ نے منع فرما دیا۔اسی ممانعت میں آپﷺ پر غشی طاری ہو گئی۔انہوں نے دوامنہ کھول کر پلا دی۔افاقے کے بعد احساس ہوا تو فرمایا۔
’’یہ اسما نے مشورہ دیا ہوگا۔وہ حبشہ سے اپنے ساتھ یہی حکمت لائی ہیں۔‘‘
تیرہ ہجری میں حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد آپ ؓ حضرت علیؓ کے نکاح میں آئی تھیں۔محمد بن ابوبکر بھی ساتھ آئے تھے۔ایک دن محمد بن جعفرؓ اور محمد بن ابوبکرؓ نے باہم فخرً کہا۔
’’ہم تم سے بہتر ہیں۔اس لئے کہ ہمارے ماں باپ تمہارے باپ سے بہتر ہیں۔‘‘
حضرت علی ؓ نے حضرت اسماؓ سے کہا۔’’ان دونوں میں فیصلہ کرو۔‘‘
حضرت اسماؓ نے فرمایا۔
’’ تمام نوجوانوں پر جعفرؓ اور تمام بوڑھوں پر ابوبکرؓ کو فضیلت حاصل ہے۔‘‘
محمد بن ابوبکر مصر میں قتل ہوئے تھے۔ان کی لاش کو گدھے کی کھال میں جلایا گیا تھا۔حضرت اسماؓ کے لئے اس سے زیادہ تکلیف دہ واقعہ کیا
ہو سکتا تھا۔20ہجری میں حضرت علیؓ نے شہادت پائی اور انکے بعد حضرت اسماؓ کا بھی انتقال ہو گیا۔آپؓ نے براہ راست آپﷺ سے تعلیم حاصل کی تھی۔آپ ؓ کو خوابوں کی تعبیر کا بھی علم تھا۔حضرت عمرؓ اکثر آپؓ سے خوابوں کی تعبیر پوچھتے تھے۔

 

Nayab Jilani
About the Author: Nayab Jilani Read More Articles by Nayab Jilani: 5 Articles with 3468 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.