گیلانی ، منموہن ملاقات، اتنی خوش فہمیاں کیوں؟

تیس مارچ کو موہالی میں ہونے والے پاک بھارت کرکٹ معرکے کا نتیجہ جو بھی رہا، بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی دعوت پر چند گھنٹے سرحد پار گزارنے کے بعد وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے وطن واپس پہنچتے ہی جہاں حسب توقع دورے کی کامیابی کا نعرہ لگا دیا ہے وہیں قوم کو دونوں ملکوں کے درمیان جلد تعلقات معمول پر لانے کا مژدہ بھی سنایا گیا ہے۔ باتیں ، دعوے اور نعرے اپنی جگہ لیکن ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ وزیر اعظم نے چونسٹھ سالوں سے تصفیہ طلب مسائل کے حل پر آخر اپنے بھارتی ہم منصب کو محض چند گھنٹوں میں کیسے راضی کر لیا؟ یہ سوال اس لئے بھی الجھا ہوا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بارہا بات چیت کے ذریعے تنازعات کے خاتمے اور اس سلسلہ میں پہل کی گئی لیکن اس کے باوجود ہر بار برقرار رہنے بلکہ مزید شدت اختیار کرنے والا دہلی کا ”بغل میں چھری اور منہ میں رام رام“ والا رویہ اور سرحد پار کے حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کرکٹ سیمی فائنل کے دوران چٹکی بجاتے کیونکر ختم ہوگئی؟بات دراصل یہ نہیں کہ موہالی میں کوئی بڑا بریک تھرو ہوا ہے یا گیلانی من موہن ملاقات مستقبل میں روایتی حریفوں کو حلیف بنا دے گی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی ”حلیم طبعی“ اور کچھ”بڑوں“کے دباؤ پر ہونے والی ملاقات کے بعد اپنے گیلانی صاحب دورہ بھارت کو جواز فراہم کرنے کے لئے بلندوبانگ دعوے کر رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے پہلے وزیر اعظم گیلانی کی موہالی سے رخصت کے وقت دونوں وزرائے اعظم کی بات چیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے اور اسی بات چیت کے دوران من موہن سنگھ کی جانب سے کچھ غیر متوقع شبدوں کو امیدوں کا محور قرار دیا جارہا ہے ۔ امن کی خواہش یقیناً اس خطے کے ہر باسی کے دل میں ہے کہ جنوبی ایشیاء کے استحکام اور معاشی ترقی کا راز اسی میں مضمر ہے لیکن موہالی ملاقات کے بعد من موہن سنگھ کے الفاظ سے امیدیں باندھنے والے خود من موہن سنگھ کے اختیارات کو بھی مد نظر رکھیں۔ پاکستان کی بات کریں تو یقینی طور پر حکومت کے ساتھ ساتھ یہاں کے عوام بھی پڑوسیوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن سرحد کے اس پار صورتحال قطعی مختلف ہے۔ ہمارے ہاں کی سیاسی جماعتوں میں کیسے بھی اختلافات ہوں ایک بات طے ہے کہ ملکی مفاد اور نیک نامی پر سب کا موقف ایک ہی ہوتا ہے اور ہر کڑے وقت میں حکومت کو تمام تر سیاسی مخالفتوں کے باوجود سپورٹ کرنا ہماری جمہوری تاریخ کا حصہ ہے لیکن بھارت میں حالات اس کے بالکل متضاد ہیں اور وہاں کی انتہا پسند جماعتیں تو ایک طرف خود سیاستدان بھی پاکستان کے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں ۔باالفرض اگر من موہن سنگھ کی باتوں اور مستقبل میں قیام امن کے لئے ظاہر کردہ عزم کو دیکھیں تو اپنی باتوں پر عمل بھارتی وزیر اعظم کے لئے ممکن ہی نہیں جس کا ایک ثبوت پاکستانی ہم منصب کی جانب سے دورہ پاکستان کی دعوت کے جواب میں مکمل خاموشی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

اس بات سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ خطہ میں مستقل قیام امن کی خاطر پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت میں پڑوسی ممالک والے دوستانہ مراسم قائم و استوار ہونے چاہئیں مگر ان دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کی بنیاد ختم کئے، تمام بنیادی تنازعات طے کئے، اپنے اپنے قومی ہیروز کی تقدیس و تعظیم کو ملحوظ خاطر رکھے اور ایک دوسرے کی آزادی و خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے احترام کے تمام تقاضے بروئے کار لائے بغیر ”امن کی آشا“ کو حقیقت کے قالب میں کیسے ڈھالا جاسکتا ہے۔ اگر دلوں میں کدورتیں بھری ہوں تو محض چہرے پر مسکراہٹیں دکھا اور سجا کر ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے گا تو اسے منافقت کے سوا اور کیا کہا جائے گا۔ چونسٹھ سالوں سے جاری یہ بھارتی فلسفہ تو ”نیائے“ اور ”انیائے“ کو ایک دوسرے میں خلط ملط کرنے کا ہے اور اسی بنیاد پر بدھ کے روز ہونے والی پیش رفت سے امیدیں باندھنے والوں اور حقائق کے تناظر میں حالات پر نظر رکھنے والوں کے نظریات میں بنیادی فرق ہے۔امن کی آشا کا راگ الاپنے والے تو اپنی ڈگر پر قائم حقائق کی تمام تر تلخی کو امرت بنانے پر تلے بیٹھے ہیں اور اس سلسلہ میں بارہا دونوں ہی اطراف کروائے گئے عوامی سرویز کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے لیکن ان دیوانوں سے کوئی پوچھے کہ ملکی سالمیت جتنے ہی اہم دیرینہ تنازعات کے حل کے بغیر یہ کیونکر ممکن ہے؟

جس طرح بھارت میں موجودہ پاکستان مخالف جماعتیں ہمیشہ ہی ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے کی سازشیں کرتی رہی ہیں اسی طرح پاکستان میں کچھ ایسے احباب بھی ہیں جو محض اپنے مقاصد کی خاطر پاک بھارت دوستی کے لئے ایک عرصہ سے بے چین ہیں اور وہ اپنی اس خواہش کی تکیمل کے لئے نظریہ پاکستان تک کو بھول جاتے ہیں۔ ہم تعلقات کی بحالی کے مخالف نہیں لیکن یہ تعلقات برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں لیکن سر دست صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے ۔سب سے پہلے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کی جغرافیائی اور نظریاتی بنیادوں پر اپنی اپنی آزاد اور خودمختار حیثیت کو تسلیم کیا اور کرایا جائے اور تقسیم ہند کے فارمولے کی بنیاد پر حیدر آباد دکن، جونا گڑھ، مناوادر کی طرح کشمیری عوام کو بھی رائے دہی کا حق دے کر جس پر اقوام متحدہ نے اپنی دو مختلف قراردادوں کے ذریعہ مہر تصدیق ثبت کی ہوئی ہے، تقسیم ہند کا ایجنڈا مکمل کیا جائے جو ”پاکستان“ کے لفظ ”ک“ کی موجودگی و استواری کی صورت میں ہی پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ کشمیر ہی وہ واحد تنازعہ ہے جس پر بھارت اپنے اکھنڈ بھارت کے فلسفہ توسیع و تحریص کے تحت پاکستان پر تین جنگیں مسلط کر چکا ہے۔ہمارے وطن عزیز کے ایک بڑے حصے کو ہم سے جدا کر چکا ہے اور باقی ماندہ پاکستان کی بھی جڑیں کاٹ کر اسے کمزور بنانے کی سازشوں میں مصروف ہے تاکہ آسانی کے ساتھ اسے ہڑپ کیا جاسکے، اس مقصد کیلئے ہی وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنائے رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کے راستے پاکستان آنے والے دریاﺅں کا پانی روک کر اس کی زرخیز دھرتی کو بے آب و گیاہ ریگستان میں تبدیل کیا جاسکے اور پھر اس کی شہ رگ پر اپنا خونیں پنجہ مضبوط بنایا جاسکے، جس ثقافت اور اقتصادیات کی بنیاد پر متذکرہ میڈیا گروپس امن کی آشا کی تحریک چلانے کا عزم رکھتے ہیں۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ انہی دو ایشوز کے نتیجہ میں دو قومی نظریے کے تحت تقسیم ہند کی بنیاد رکھی گئی تھی اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا کہ مذہبی بڑائی کے تعصب میں مبتلا ہندو بنیاء ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود برداشت ہی کرنے کو تیار نہیں تھا جنہیں اقتصادی غلامی کے شکنجے میں بھی کسا گیا اور ان کی مذہبی آزادی بھی سلب کرلی گئی۔ متذکرہ احباب اور گیلانی من موہن سنگھ ملاقات پر ضرورت سے زیادہ شیخیاں بگھارنے والوں کو آیا یہ حقیقت پیش نظر نہیں رکھنی چاہئے کہ متعصب ہندو بنیاء کی یہ سوچ اور ذہنیت آج بھی قائم و برقرار ہے جو آج بھی بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام کی نوبت لاتی رہتی ہے اور بھارتی ذہنیت کے تابع وہاں کی حکومتوں کو بال ٹھاکرے جیسے شرپسندوں کو قابو کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوپاتی۔ ممبئی حملوں کے خود ساختہ ڈرامے کے بعد بھارت کا دورہ کرنے والے پاکستانی فنکاروں اور کھلاڑیوں کے ساتھ ہندو بنیاء ذہنیت کی برتری والا جو برتاﺅ کیا گیا، اس کی روشنی میں متذکرہ گروپس ثقافتی، تہذیبی اور تجارتی بنیادوں پر بھی پاکستان بھارت کے مابین ”امن کی آشا“ کو کیسے حقیقت کے قالب میں ڈھال سکتے ہیں اور ہر معاملے میں متعصب بھارتی حکمران اور سیاستدان صرف چند گھنٹے کی ملاقات ہی کے بعد کیونکر”رام“ ہوسکتے ہیں کہ وہ تو لاتوں کے بھوت ہیں جنہیں باتوں سے منانا قطعی ممکن نہیں۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54178 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.