جائیں کہاں دیوانے لوگ

( پوپ کہانی-8 )

اس نے اپنے بیڈ روم کی کھڑکی پر لگے پردے کو زرا سا سرکا کر درز سے باہر جھانکا۔ اسکی توقع کے عین مطابق آمنے سامنے والے دونوں فلیٹوں کی بالکونیوں میں طوطا مینا کا کھیل زور و شور سے جاری تھا۔

ایک بالکنی سے وہ خوشکل نوجوان مسلسل سامنے والی بالکنی میں کھڑی نوجوان و حسین لڑکی کو اشاروں و کنایوں سے اپنی جانب متوجہ کرنے میں مشغول تھا اور دوسری جانب کے رد ِعمل سے بھی یہ ہی ظاہر ہورہا تھا کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔

ہاں البتہ اتنا ضرور تھا کہ وہ دونوں ہی تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد بڑے ہی محتاط انداز میں اِدھر اٌدھر دیکھ کر یہ اطمینان کرلیتے کہ کوئی انہیں یہ آنکھ مچولی کا کھیل کھیلتے دیکھ تو نہیں رہا۔

اسنے پردہ دوبارہ برابر کردیا اور اپنی آرام کرسی پر آ بیٹھا۔ اسکے چہرے پر ایک آسودہ سی مسکراہٹ رقصاں تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اسے یہ سب دیکھ کر بہت اطمینان حاصل ہوا ہو۔ وہ ہر روز ہی اپنے بیڈ روم کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھا کرتا تھا اور اب اس سلسلے کو چلے کچھ چار پانچ ماہ ہونے کو آئے تھے۔

ان دونوں کو دیکھ کر اسے ایک بار پھر یہ یقین ہو چلا تھا کہ اب بھی اس خود غرص دنیا میں نا تو محبت ہی ختم ہوئی ہے اور نا ہی محبت کرنے والے! ان دونوں کو آنکھوں ہی آنکھوں سے سلام و پیام کا تبادلہ کرتے دیکھ کر اسے عجیب سی خوشی محسوس ہوتی اور وہ انہیں نا جانتے ہوئے بھی انکے ملن کی دعائیں مانگا کرتا تھا۔ شاید اسے اِن دونوں میں اپنا ماضی نظر آتا تھا ۔ ۔۔ !!!۔

وہ اور مہتاب بھی تو ابتداء میں اسی طرح سے اپنے اپنے گھروں کی بالکنیوں سے ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں سلام و پیام بھیجا کرتے اور پھر بات بالکنی سے آگے بڑھ کر ریستورانوں، سنیماؤں اور پارکوں میں ہونے والی ملاقاتوں تک جا پہنچی تھی۔

کھائیں تو دونوں ہی نے زندگی بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں تھیں لیکن اب یہ اور بات ہے کہ دونوں ہی کے گھر والے اٌس محبت کے شدید مخالف ثابت ہوئے اور صنف ِنازک ہونے کے ناطے مہتاب اپنے گھر والوں کے دباؤ کے سامنے زیادہ دنوں تک ٹھر نہ سکی اور یوں اسکی پریت پرائی ہوگئی۔

اٌس بات کو آج دو عشرے بیت گئے تھے لیکن نا تو وہ اسے بھول سکا تھا نا ہی پھر اسنے کسی اور طرف دیکھنا ہی گوارا کیا، شاید وہ محبت میں بھی وحدانیت کا قائل تھا۔ وہ آج بھی گھنٹوں اٌن راستوں اور جگہوں پر جا کر گزارتا جہاں کبھی وہ مہتاب کے ساتھ اپنی زندگی کے حسین ترین لمحات گزار چکا تھا اور اب وہ اس نوخیز جوڑے کو محبت کی اٹکھیلیاں کرتے دیکھ اپنی ناآسودہ محبت کے جذبے کی تسکین ہی تو کررہا تھا۔

ان دونوں کی اس معصوم محبت میں اسے اپنی گم گشتہ محبت کی پرچھائیاں نظر آتیں تھیں اور وہ بے اختیار دعائیں کرنے لگتا کہ انکا بھی جنوں ناکام نہ ہو۔

نہ جانے سوچتے سوچتے کتنا وقت گزر گیا اور اسے تو اسکا احساس اس وقت ہوا جب شام کے ٹہلتے سائے نے اسکے کمرے کی تاریکیوں میں اصافہ کرنا شروع کردیا۔ "اوہ شام ہوگئی اور مجھے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مکینوں کی انجمن کی سالانہ تقریب ِ ملاقات میں شرکت بھی تو کرنی ہے"۔

وہ کوئی دو گھنٹوں بعد سوسائٹی کے کمیونٹی ہال جہاں تقریب کا اھتمام کیا گیا تھا پہنچا۔ ہال کے داخلی دروازے ہی پر اسے انجمن کے عہدراران نے خوش آمدید کہا اور سیکرٹری آگے بڑھ کر اس سے معانقہ کرتے ہوئے بولا: " آخاہ، زہے نصیب! مسعود احمد صاحب تشریف لائے ہیں، جناب آپ تو بس عید کا چاند ہوئے جاتے ہیں، دیکھ لیں پورے ایک سال بعد اس تقریب میں ہی نظر آئے ہیں"۔

سیکرٹری نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما اور یہ کہتے ہوئے اسے ہال میں بیٹھے مہمانوں کی جانب چل دیا: "چلیئے میں آپ کا تعارف سوسائٹی میں نوآمدہ مکینوں سے کروا دوں"۔

سامنے نشستوں پر بیٹھے لوگوں میں اسے وہ دونوں بھی نظر آئے لیکن یہ کیا؟ وہ دونوں تو ایک دوسرے سے دور اور یکسر لاتعلق سے بنے بیٹھے ہوئے تھے۔ فوراً ہی اسے اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ ٹھیک ہی تو تھا، بھلا اب یہاں سب کی موجودگی میں وہ ایک دوسرے سے اپنا تعلق ظاہر کر کے لوگوں کی نظروں میں تو آنے سے رہے۔

ان سے سے ملیئے"۔ سیکریڑی نے اسی بالکنی والے نوجوان اور اسکے ساتھ کھڑی معمولی صورت کی ایک نوجوان خاتون" کا تعارف کرواتے ہوئے کہا: "یہ ہیں جناب اور بیگم عدنان"۔اور پھر انکی پچھلی نشستوں پر بیٹھی بالکنی والی خوبرو لڑکی اور اسکے پہلو میں بیٹھے ایک قدرے بڑی عمر کے شخص کی جانب اشارہ کرتا ہوا لولا: "اور یہ ہیں جناب اور بیگم مشکور"۔

اور پھر سیکرٹری نے اسکی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اور خواتین و حضرات یہ ہیں جناب مسعود احمد" اور مسعود احمد صاحب کا حال یہ تھا کہ اگر کاٹو تو بدن میں چھٹانک پھر خون بھی نا نکلے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 51149 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.