حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہما پر اہل سنت کا نقطۂ نظر

اﷲ رب العزت جل جلالہ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاء و رسل بھیجے اور یہ سلسلہ حضور نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ختم ہوا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد رشدو ہدایت کا یہ منصب صحابہ کرام ، اہلِ بیت اور علماء کرا م کو تفویض ہوا۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ وعلیہم اجمعین نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوکر امت کی کشتی کو سنبھالا۔ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام صحابہ رشد و ہدایت کے پیکر تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کسی صحابی پر کسی قسم کی طعن و تشنیع جائز نہیں ۔ اسی طرح حب صحابہ میں اہل بیت پر بھی طعن و تشنیع جائز نہیں۔ بحیثیتِ مسلمان جملہ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام سے محبت اور عقیدت رکھنا ضروری ہے۔ ان میں سے کسی ایک سے بھی بغض و عناد رکھنا یا دشمنی رکھنا اہلِ ایمان کا طریقہ نہیں ہے۔ بعض لوگ اہل بیت کی محبت میں صحابہ پر زبان درازی شروع کردیتے ہیں اور بعض لوگ صحابہ کی محبت میں اہلِ بیت کو برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ دونوں طریقے غلط ہیں۔ اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ دونوں سے محبت کا اظہا رکیا جائے۔

دورِ حاضر میں بعض لوگ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے اپنی زبانیں دراز کررہے ہیں اور ان کے معاملے میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑا کر یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ امیر معاویہ نے حضرت علی سے جنگ کی تھی اور وہ جنگ حق وباطل کی تھی اور امیر معاویہ باطل پر تھے۔ اس لیے حضرت امیر معاویہ کے مناقب نہیں بیان کرنے چاہئیں (معاذ اﷲ) ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ صحابی رسول تھے۔ ان کا صحابی رسول ہونا ہی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ان کا ادب و احترام ضروری ہے۔ مقام افسوس یہ ہے کہ مسلکِ اہل سنت جو کہ ایک اعتدال کی راہ پر گامزن ہے ، اس میں بھی حضرت امیر معاویہ کے حوالے سے طعن و تشنیع کا بازار گرام ہے۔حالانکہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہما کے متعلق مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زبانوں کو قابو میں رکھیں۔ ان کے درمیان جو بھی معاملات اور مشاجرات ہوئے ان پر خاموشی اختیار کریں کیونکہ تمام صحابہ سے اﷲ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ اور جس سے اﷲ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ فرمالیا ہے تو کسی کی کیا جرأت کہ وہ صحابہ پر طعن کرکے اور انہیں باطل ٹھہرائے اور لوگوں کو بتاتا پھرے کہ کون حق پر تھا اور کون باطل پر تھا۔ حالانکہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ مبارک میں ہی ارشاد فرمادیا تھا : قریب ہے کہ میرے اصحاب سے کچھ لغزش ہوگی جسے اﷲ تعالیٰ بخش دے گا اس سابقہ کے سبب جو ان کو میری سرکار میں ہے پھر ان کے بعد کچھ لوگ آئیں گے جن کو اﷲ تعالیٰ ناک کے بل جہنم میں اوندھا کردے گا۔(یعنی جو لوگ صحابہ پر طعن کریں گے اﷲ تعالیٰ انہیں عذاب میں گرفتار فرمائے گا)۔ علماء کرام نے یہ بھی واضح کردیا کہ یہ خطاء اجتہادی تھی اور اس پر طعن کرنا ناجائز و حرام ہے کیونکہ جو صحابہ پر طعن کرے گا وہ اﷲ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق ہوگا۔ جیساکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو میرے صحابہ کو برا کہے اس پر اﷲ کی لعنت ہے۔(تاریخِ دمشق)۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے حوالے سے مزید فرمایا: جو میرے صحابہ کو برا کہے اس پر اﷲ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔(کنزالعمال)۔ ایک اور مقام پر فرمایا: جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا کہتے ہوں تو کہو: تمہارے شر پر اﷲ کی لعنت ہو۔ (کنزالعمال) ۔ صرف یہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کو برا بھلاکہنے والے کو امت کا بدترین شخص کہا، چنانچہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کے بدترین وہ ہیں جو میرے صحابہ پر جرأت کرنے والے ہیں۔ (کنزالعمال) ۔ صحابہ کرام کا ادب و احترام کتنا ضروری ہے؟ اس کے متعلق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اﷲ سے ڈرو ! انہیں میرے بعد نشانہ نہ بنالینا، جو ان سے محبت کرتا ہے میری محبت سے ان سے محبت کرتا ہے، اور جو ان سے بغض رکھتا ہے میری عداوت سے ان کا دشمن ہے، جس نے میرے صحابہ کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اﷲ کو ایذا دی اور جس نے اﷲ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اﷲ اسے (عذاب میں) گرفتار کرے۔ (کنزالعمال) ۔ امام بشر بن حارث حافی رحمہ اﷲ جو کبار اہل اﷲ میں شمار ہوتے ہیں ، فرماتے ہیں: میرے نزدیک میرا سب سے پختہ عمل محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے محبت ہے۔(الحلیۃ) آپ مزید فرماتے ہیں: میں نے دین کے معاملے میں غور کیا تو یہ بات معلوم ہوئی کہ تمام لوگوں کے لیے توبہ ہے مگر جو صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین پر حرف گیری کرتا ہے اس کی توبہ نہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اس سے توبہ کی تقفیق سلب کرلی ہے۔ (المجالسۃ للدینوری)امام احمد رضا قادری رحمہ اﷲ فرماتے ہیں جو حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ عنہ پر طعن و تشنیع کرتا ہے وہ جہنم کے کتوں میں سے ایک کتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ)

درج بالا احادیث مبارکہ اور اقوال علماء کی روشنی میں اہلِ سنت کا یہ عقیدہ واضح ہے کہ صحابۂ کرام کا جب بھی ذکر ہو تو خیر ہی کے ساتھ ہونا چاہیے۔اس ضمن میں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ حدیث کے مطابق عام لوگ جب فوت ہوجائیں تو ان کا ذکر خیر کے ساتھ کرنا چاہیے ، برائی کے ساتھ ان کا ذکر نہیں کرنا چاہیے۔ جب یہ اصول ایک عام مسلمان کے لیے ہے تو صحابہ کے معاملے میں کس قدر احتیاط کی ضرورت ہوگی ، ان کا ذکر کس طرح خیر کے شر کے ساتھ کرنا چاہیے۔ لہٰذا حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے معاملے غایت درجہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود آپ رضی اﷲ عنہ کے لیے دعا فرمائی : اے اﷲ انہیں ہدایت پانے والا بنادے اور ان کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے۔(سنن ترمذی)

خدارا! ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ۔ ویسے ہی چاروں طرف سے امت مسلمہ متعدد مسائل میں جکڑی ہوئی ہے۔ حب علی میں بغض معاویہ یا حب معاویہ میں بغض علی کرنے کے بجائے دونوں سے محبت او ر عقیدت کا اظہار ضروری ہے۔ محبت صحابہ ہر حال میں ضروری ہے کیونکہ یہی ایمان کی علامت ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اﷲ تعالیٰ میری امت کے کسی شخص سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے دل میں میرے صحابہ کی محبت ڈال دیتا ہے۔ (کنزالعمال)۔

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 76365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.