کم عمری کی شادی

(فوائد و نقصانات)

کم عمری کی شادی ایک اہم شرعی اور سماجی مسئلہ ہے، جس پر بحث و مباحثے کا سلسلہ پچھلے کافی عرصے سے جاری ہے - فریقین دو طرفہ دلائل سے اپنے مؤقف میں جان ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں ،اس معاملے کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے حق اور مخالفت میں اٹھنے والی آوازیں اب پارلیمنٹ کے ایوانوں میں بھی گونجنا شروع ہو گئی ہیں - پچھلے دنوں سینٹ میں کم عمری کے شادی کے خلاف ایک بل بھی منظور ہوا جس میں بچے یا بچی کی کم عمر میں شادی کو جرم قرار دیتے ہوئے سزا کا بھی تعین کر دیا گیا-

اس مسئلے پر اگر مذھبی حلقوں کی رائے کا جائزہ لیا جائے تو وہ بالکل واضح ہے اور روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام کم عمری کی شادی کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)، خلفائے راشدین اور بڑی بزرگ ہستیوں کی زندگیوں کے اس سلسلے میں عملی ثبوت بھی موجود ہیں -

لیکن یہاں آج ہم اسلامی عقائد و نظریات کو کچھ دیر کیلئے بالائے طاق رکھتے ہوئے اس اہم سماجی مسئلے کو عقل و منطق کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کریں گے - تا کہ اس مسئلے پر مذھبی سوچ کے غلبے اور چھاپ کے خیال کا تدارک کیا جا سکے ،اور اس معاملے میں تذبذب کے شکار افراد کو اس کے فوائد و نقصانات کے دو طرفہ تجزیے سے آزاد اور غیر جانبدرانہ نتائج اخذ کرنے کا موقعہ مل سکے-
ہمارے یہاں ایک بڑا طبقہ کم عمری کی شادی کو ظلم قرار دیتا ہے -ان کی دانست میں کم عمری کی شادی بچوں سے تعلیم وتعلّم کا حق چھین لیتی ہے ، جس سے بچہ جدید دور کے تقاضوں سے مکمل ہم آہنگ نہیں ہو پاتا ،ان کی ذھنی نشونما رک جاتی ہے اور بالخصوص بچیاں گھرداری،خاندانی مسائل، اور بچے پیدا کرنے اور پالنے جیسے جھنجھٹوں میں گھِر کر رہ جاتی ہیں-

اس کے علاوہ احساس ذمہ داری کا نہ ہونا، فرائضِ زندگانی سے ناآشنائی، قوت فیصلہ سے محرومی جیسے مسائل ایسے بچوں کی پہاڑ جیسی زندگی کو گزارنے میں مشکلات کے اسباب پیدا کرتے ہیں- دوسرا یہ کہ کھیل ،کود کی عمر میں ہی بچے عائلی الجھنوں کا شکار ہو کر مثبت سرگرمیوں سے محروم رہ جاتے ہیں، جس سے انکی شخصیت اور کردار سازی پر منفی اثرات پڑتے ہیں -مزید یہ کہ کم عمری کی شادی بچوں کیلئے بہت سے نفسیاتی مسائل کا باعث بنتی ہے ،جو ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور شخصی خوبیوں کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے -اس سے کسی بھی معاشرے میں غیر صحت مند اور منفی سوچ کو پروان چڑھنے میں مدد ملتی ہے-

اس کے علاوہ اس طبقے کی نظر میں کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا سائیڈ ایفکٹ، بچیوں کے زچگی کے مسائل ہیں ،جو کم عمری میں اولاد کی پیدائش کی وجہ سے نہ صرف بچیوں کے جسمانی عوارض کا باعث بنتے ہیں ،بلکہ دوران زچگی انکی ہلاکت کا سبب بھی بنتے ہیں- یہ طبقہ کم عمری کی شادی کو آبادی میں اضافے کی بھی ایک بڑی وجہ گردانتا ہے ،اور یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ کثرت آبادی سے زمینی وسائل دن بدن محدود ہوتے جا رہے ہیں ،جو مستقبل میں خطۂ ارض پر کسی بڑے غذائی بحران کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں-

ادھر دوسری طرف کا بڑا طبقہ کم عمری کی شادی کو نہ صرف جائز سمجھتا ہے بلکہ اسے بہت سارے معاشرتی اور سماجی مسائل کا حل بھی قرار دیتا ہے- اس طبقے کے نزدیک معاشرے میں پھیلی جنسی انارکی، بے راہ روی ،بدکاری و بداخلاقی کا طوفان اور حیاسوزی کے واقعات کی ایک بڑی وجہ شادیوں میں تاخیر اور جنسی جذبات میں گھٹن کا عمل ہے- اس کے علاوہ نوجوان نسل میں بے راہ روی،اخلاق باختگی ،شراب ،نشہ ،منشیات وغیرہ کے استعمال کی بھی بڑی وجہ ان کی فطری خواہشات کے وسائل کی عدم دستیابی ہے-

یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ نوجوان نسل میں پائی جانے والی ان تمام بیماریوں کا واحد علاج بروقت شادیوں کے رجحان میں ہی مضمر ہے-

کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہی جنسی خواہشات انسانی حواس پر غالب آنا شروع ہو جاتی ہیں ، اور ایک وقت آتا ہے جب انسان اپنی اس فطری جبلّت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ناجائز راہوں کی تلاش میں بھٹکنا شروع ہو جاتا ہے- جنسی جذبات ،عاشقی معشوقی،حرص و ہوس ٹین ایجز کو انتہائ قدم اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں اور نتیجے میں نوجوان خودکشیوں کے مرتکب ہو کر اپنے لئے اور اپنے گھر والوں اور معاشرے کیلئے اذیت کا باعث بنتے ہیں - روزانہ اخباری واقعات اس امر کے بخوبی گواہ ہیں -

اس کے علاوہ موجودہ دور میں اسقاطِ حمل کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ،جو کہ ایک بہت بڑا المیہ اور انسانیت سوز ظلم ہے ، مانع حمل اور اسقاطِ حمل ادویات کے بے جا استعمال سے کم عمر بچیوں کو شدید عوارض لاحق ہو رہے ہیں ،جن میں ہارمونز کی خرابی ، دائمی بانجھ پن اور بعض صورتوں میں اموات تک واقع ہو جاتی ہیں -جس کی موجودہ میڈیکل سائنس بھی بخوبی گواہ ہے -
کم عمری کی شادی میں تعلیم سے محرومی کے سوال پر ان کا بڑا ٹھوس اور مدلل جواب یہ ہوتا ہے کہ تعلیم کیلئے انسانی زندگی کا کوئی مخصوص وقت مقرر نہیں، انسان مرتے دم تک سیکھنے ،سکھانے کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے ،لہذا یہ کہنا کہ کم عمری میں شادی سے تعلیم کا عمل رک جاتا ہے ،فضول اور بے معنی بحث ہے- ویسے بھی ہمارے معاشرے میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو شادی کے بعد بھی سیکھنے سکھانے کے عمل کو جاری رکھتے ہیں-

رہی بات کم عمری میں ذمہ داریوں کے بوجھ کی تواس طبقے کے مطابق اس کا زیادہ تر انحصار ان بچوں کے ماحول اور تربیت پر ہے ،اگر والدین شروع سے ہی اپنے بچوں کی تربیت میں ان کو ایک ذمہ دار معاشرتی فرد کی حیثیت کا احساس کا دلائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ سنِ بلوغت کے بعد وہ بچہ معاشرے کے ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے اپنا بوجھ خود نہ اٹھائے-

ان تمام دو طرفہ دلائل کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی صاحبِ عقل اندازہ لگا سکتا ہے کہ کم عمری کی شادی والے مسئلے پر کس کے دلائل میں وزن ہے - اور ایک صحت مند ،پاکیزہ ،صاف اور شفاف معاشرے کا قیام کے لئے ہمیں کس طرح کا نظامِ زندگی درکار ہے-
 

Tahir Ayub
About the Author: Tahir Ayub Read More Articles by Tahir Ayub: 22 Articles with 15384 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.