کیا ہم مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے تیار ہیں ․․!

عمران خان کو بطور پاکستان وزیر اعظم 74ویں جنرل اسمبلی میں خطاب کا موقع ملا۔ویسے تو بہت سے وزراء اعظم اسی جنرل اسمبلی سے خطابات کر چکے ہیں ،مگر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا تاریخی خطاب ہمیشہ یادگار رہا ہے ۔محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،لیکن بعد میں آنے والے سربراہان جنرل اسمبلی میں کوئی کارہائے انجام نہیں دے سکے ۔عمران خان نے عرصے بعد اس عالمی پلیٹ فارم کا صحیح استعمال کیااور یہاں اپنے تاریخی خطاب کے دوران دنیا کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کر کے رکھ دیا۔انہوں نے اپنی تقریر میں چار نکات کو فوکس کیا۔جس کے پہلے نکتے میں موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات،دوسرا کرپشن اور منی لانڈرنگ کے منفی اثرات،تیسرا اسلاموفومیا کے مضمرات اور چوتھا مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی بربریت کو عالم پر آشکارکیا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے بلاشبہ دو ٹوک انداز اور بہادری سے مفصل اور مدلل باتیں کی ہیں ۔اس تقریر کی حد تک وہ مدبر قومی لیڈر کی حیثیت میں قدآور شخصیت لگے ہیں۔ویسے انہیں اپنی تقریر کا آغاز کشمیر سے شروع کرنا چاہیے تھا،کیونکہ وہ جنرل اسمبلی میں اسی غرض سے گئے تھے ،لیکن خیر کشمیر کا ذکر آخر میں بھی ہوا،مگر خوب ہوا ،اس لئے کوئی فرق نہیں پڑا۔موسمیاتی تبدیلی دنیا کے لئے خطرناک مسائل لے کر سامنے کھڑی ہے ۔دنیا اس مسئلہ پر متوجہ نہیں،جیسا کہ اسے ہونا چاہیے تھا۔عمران خان نے اپنے درخت لگاؤ مہم کا ذکر کیا ۔خیر اس مہم پر بہت سے تحفظات اور کرپشن بھری پڑی ہے ۔دوسرا نکتہ غیر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غیر ضروری تھا ۔وہاں پر اپنے سیاسی لیڈروں کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کی باتیں کرنا ۔یہ ہمارے اندرونی معاملات ہیں ۔جس کیس کو لڑنے کے لئے آپ وہاں کھڑے تھے ،وہاں اندرونی مسائل کا ذکراہم کیس کمزور کر سکتا ہے ۔اسلاموفومیا مغربی ممالک کا نائن الیون کے بعد سازش کے تحت پھیلایا گیا ۔حالانکہ اس کے مضمرات خود مغرب بھگت رہا ہے ۔کیونکہ دنیا میں نفرت پھیلانے کا کاروبار عروج پر ہے ۔جس سے بڑی طاقتوں کے اسلحے کا کاروبار اور طاقت کا سکہ چلتا ہے ۔ کیونکہ جنرل اسمبلی ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں پر تقریر کرنے والا نہ صرف دنیا بلکہ اپنی قوم سے بھی بے یک وقت مخاطب ہوتا ہے ۔عمران خان نے درمیان کے دونوں نکتے اپنی قوم کو سنانے کے لئے رکھے ۔کیونکہ کرپشن اور منی لانڈرنگ اپوزیشن کو دبانے اور اسلامو فومیا مولانا فضل الرحمٰن کے لئے تھا تاکہ وہ ان کے خلاف مذہبی کارڈ نہ کھیل سکیں ۔منی لانڈرنگ اور فنڈنگ کا کیس تحریک انصاف کے خلاف یکم اکتوبر سے شروع ہو رہا ہے ۔چار سال سے تحریک انصاف اپنی بیرونی فنڈنگ کا جواب نہیں دے سکی ہے اور قانون کے پیچھے چھپتی رہی ہے ۔تحریک انصاف کے لئے اکتوبر بھاری پڑنے والا ہے ۔خیربات دوسری جانب چلی گئی ۔اپنے موضوع کی جانب آتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں کامیابی سے اجاگر کر دیا گیا۔عمران خان کی دنیا بھر میں واہ واہ بھی ہو گئی ،لیکن امتحان یہیں سے شروع ہوتا ہے ۔یہ ورلڈ کپ جیتا نہیں ابھی شروٖعات ہوئی ہے۔اتنے بڑے فارم پر مدلل تقریر کر لینا بڑی بات ہے ،مگر یہاں بہت تاریخی تقاریر ہو چکی ہیں ،لیکن اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا رہا ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو نے دلیرانہ ،مدبرانہ اور جارحانہ تقریر کی ،پھر اس تقریر کا ردِ عمل کے طور پر اسلامی ورلڈ بنک اور اسلامی کانفرنس کر کے دنیا کوہلا کر رکھ دیا تھا۔ملک کی بے مثال دفاع کے لئے ایٹمی طاقت کی بنیاد رکھ دی ۔ذوالفقار علی بھٹو ایک دن بھی آرام سے نہیں بیٹھے تھے ۔انہوں نے دنیا کو باور کروا دیا تھا کہ ہم اپنی اہلیت سے اپنے آپ کو منوانا جانتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو اورآج کے حکمرانوں میں یہی فرق ہے کہ پاکستانی حکمران اپنی تقاریر اور بیان بازی کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔انہیں اس بات کا زرا اندازہ نہیں کہ ان کے مقابل دشمن کون ہے ؟نریندر مودی ایک شاطر انسان ہے ۔نریندر مودی کے بارے میں کوئی خبر نہیں کہ یہ کتنا تعلیم یافتہ ہے ۔مودی خود کہتا ہے کہ میں نے کئی برس تک چائے بیچی ہے ،کہیں کہتا ہے کہ میں 35 برس تک گداگری کرتا رہا ہوں ۔لیکن آج وہ ایک سو تیس کروڑ آبادی کے ملک کا سربراہ ہے ۔ایک گداگری اور چائے کے کھوکھے سے وزارتِ عظمیٰ کی کرسی کے سفر میں کتنے گھٹیا پن کئے ہوں گے ۔اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔عمران خان ایک مہذب فیملی سے تعلق رکھنے والی شخصیت ہیں ۔کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق ہے ۔اچھے سکول کالجوں میں پڑھائی کی ۔انگلینڈ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔کرکٹ کی دنیا میں نام کمایا۔پاکستان کی ٹیم کے نامور کپتان رہے اور دنیائے کرکٹ کی کپتانی میں بھی مقام حاصل کیا ۔ان کی سوچ کبھی بھی مودی جیسی نہیں ہو سکتی ۔

عمران خان 22کروڑ عوام کے وزیر اعظم ہیں۔انہیں ملک و قوم کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔یہ ملک کی سالمیت کا معاملہ ہے ۔ہمارا مقابلہ جس دشمن سے ہے۔وہ ایک شاطر کھلاڑی ہے ۔اس کی چالوں کو بڑی گہرائی سے سمجھ کر جواب دینے کی ضرورت ہے ۔یہاں عمران خان کے سامنے میاں نواز شریف جیسا شریف النفس آدمی نہیں،نریندر مودی ہے ۔جس کی گھٹیا چالوں کو اُن کے اپنے نہیں سمجھتے ۔کہنے کو وہ ایک غریب طبقے کی نمائندگی کرتا ہے ،لیکن اپنے بیرونی دورے پر دن میں مہنگے ترین پانچ پانچ سوٹ تبدیل کرتا ہے ۔

نریندرمودی کی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں کشمیر اور پاکستان کے معاملے پر مکمل خاموشی کو کئی پہلوؤں سے دیکھنا چاہیے ۔جو شخص ہر وقت پاکستان کے خلاف آگ اگلتا رہتا ہو ،اپنا پورا الیکشن پاکستان دشمنی میں لڑا ہو۔چند دن پہلے ہیوسٹن میں پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ رکھتا ہوبلکہ ڈونلڈٹرمپ کو اسی محاذ پر استعمال کررہا ہو۔اس کا اتنے بڑے پلیٹ فارم پر پاکستان کے خلاف ایک بیان نہ آنا، تشویش کا باعث ہونا چاہیے ۔مسئلہ کشمیر پر فی الوقت عمران خان کا بیانیہ بہت شہرت اختیار کر چکا ہے ،لیکن اس کے باوجود مودی نے اپنے سرپرست قوتوں کے کہنے پر کشمیریوں کے خلاف عملی اقدام ترک نہیں کئے ۔امریکہ اور دیگر ممالک کے بیانات کے باوجود مودی نے کوئی دباؤ نہیں لیا۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے نہتے شہریوں پر وحشیانہ مظالم بدستور ڈھائے جا رہے ہیں ۔یاد رہے مودی بیانات سے زیادہ عمل کا قائل ہے اور ہمارے ہاں ’’یو ٹرن اور بیان بازی ‘‘چلتی ہے ۔

عالمی قیادتیں اپنے اپنے مفادات اور مصلحتوں میں جکڑی ہوئی ہیں ،لیکن مودی سرکار جنگ وجدل کے راستے پر اترتی نظر آ رہی ہے ۔کسے خبر نہیں کہ پاک بھارت کی جنگ اس کرۂ ارض کی تباہی کا دوسرا نام ہے ۔اس صورت حال میں امریکی صدر ٹرمپ اپنی دہری پالیسی سے ظاہر کروا رہے ہیں کہ وہ اس معاملے پر سنجیدہ نہیں ہے ۔ہم امریکہ سے ثالثی کی امید لگائے بیٹھے ہیں ،لیکن ٹرمپ نے ہیوسٹن میں اپنا سارا وزن مودی کے پلڑے میں ڈال کر اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے مشترکہ طور پر لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ان باتوں سے عام لوگوں کو سمجھ آ جاتی ہے کہ ہوا کا رخ کس جانب ہے،حکمرانوں کو سمجھ کیوں نہیں آ رہا ۔حکومت کو بھارت کے ساتھ معاملات پراپنے لائحہ عمل میں تبدیلی لانا ہو گی ۔مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کو نو گو ایریا بنا رکھا ہے ۔گزشتہ آٹھ ہفتوں سے نماز جمعہ کی ادائیگی نہیں ہو سکی۔اس جبر کا رد عمل سامنے تو آئے گا۔اس لئے ہمیں اپنے مخلص دوست ممالک سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے ۔جو اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں ۔وہی مسئلہ کشمیر حل کروانے کے لئے پاکستان کا ساتھ دے سکتے ہیں ۔اسی طرح دنیا کو ممکنہ تباہی سے بچایا جا سکتا ہے ۔کیونکہ جنرل اسمبلی کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے اجلاس با مقصد ثابت نہیں رہے ہیں ۔اس بار بھی اگر ایسا ہی رہا تو نتیجہ لا محالہ دنیا کی تباہی کی صورت میں ہی برآمد ہو گا۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 96421 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.