مشتاق احمد یوسفی

دوستانِ بزم ا سلام علیکم ۔ زیر نظر مضون عالمی مشاعرہ کراچی کلب 2011کے موقعہ پر پڑھا گیا ۔ مشاعرہ میں تابش دہلوی،عادل لکھنوی، امید فاضل، حمایت علی شاعر، محن بھوپالی، ضیا الحق قاسمی، جون ایلیا، نقاش کاظمی، پیر زاد ہ قاسم ، ساقی امروہی کے علاوہ پاکستان کے نامور شعرا نے شرکت کی۔

مشتاق احمد یوسفی

خدا جانے تقریر کے اختتام تک التفاتِ دلِ دوستاں کا یہ عالم رہے نہ رہے لہذہ ابتدا ہی میں اس عزت افزائی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تہہِ دل سے سپاس گزار ہوں اور اس تقریر کی پیشگی معذرت بھی قبول کیجیے جس کا عذاب اب آپ کو جھیلنا ہوگا۔ ہوا یوں کہ کراچی کلب کے انتہائی فعال اور گورننگ باڈی کے معتبر ممبر جناب کوثر مرزا اور جناب سلمان صالح یہ حکم نامہ لے کر تشریف لائے کہ آپ کو صدارتی تقریر بھی کرنی ہوگی۔ یہ دونوں حضرات پیشے کے لحاظ سے بینکرس ہیں۔ مدلل بحث کرنی Defaulters سے سیکھی ہے۔صورتاً اور سیرتاً اتنے معصوم اور مرنجا مرنج کہ ’تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ سود خوار ہوتا‘ ۔یہ دونوں حضرات نہ جانے کب سے کسی تیسرے سود خور کی تلاش میں تھے وہ ہاتھ نہ آیا تو مجبوراً ایک بے ضرر سابق و تایب سود خور پر اکتفا کیا۔ہم تینوں میں سود خوری کے علاوہ ایک اور قدرِ مشترک نکلی وہ ہے شعر و ادب کا چسکہ۔ گمان غالب ہے کہ ان کی نظر ِالتفات اس گنہگار پر اس لیے پڑی کہ میں مقابلتاً زیادہ طویل عرصے سے ان دونوں دلگداذ علتوں کا شکار رہا ہوں۔پہلی سے عاقبت خراب ہوتی ہے اور دوسری سے دنیا ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔آدھی رات اِدھر آدھی رات اُدھر ہر چیز روا اور گوارہ ہے اور بارہ بجے ہر بات بجا ہے، سوائے تقریر کے بالخصوص ایسے موقعہ پر جہاں اربابِ ذوق خوب صورت اشعار سننے کے لیے آئے ہوں اور مشاعرے کے آغاز کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہوں ۔مگر کیا کیا جائے آپ کے خوب صورت اشعار کے درمیان نثری رکاوٹ بننا میرے صدارتی فرائض میں داخل ہے۔لندن اور امریکہ میں تھیٹرس کا ایک دستور یہ بھی ہے کہ اصلی کھیل شروع ہونے سے پہلے ایک چھوٹا سا skit یا فکاہیہ پیش کرتے ہیںجو curtain raiser کہلاتا ہے جس کے دو مقاصد ہوتے ہیں۔اول ناظرین کو اصل کاروائی کے لیے نرمایا اور گرمایا جاتا ہے۔ دوم تب تک تاریک ہال میں late آنے والے غلط سیٹ اور صحیح گود میں بیٹھ کر غلط فہمی اور حسرت پوری نہ کر لیں اسٹیج پر کچھ نہ کچھ ہلہ گلہ ہوتا رہتا ہے۔ میری تقریر کی حیثیت در اصل ایسے ہی curtain raiser کی سی ہے۔ میں نے اپنے ہمدمِ دیرینہ مرزا عبد الودود بیگ سے پوچھا کہ ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟۔ انہوں نے کہا کہ سادہ و پُرکار تقریر پڑھیں جس میں چار باتوں کا خیال رکھا جائے۔اول سنجیدہ لوگوں سے سنجیدہ گفتگو کرنے سے پرہیز کرو دوم اختصار سے کام لو۔ سوم بیٹھ جاؤ قبل اس کے کہ بٹھائے جاؤ۔ چہارم آنکھیں بند رکھو تاکہ حاضرین کا ردِ عمل نہ دیکھ سکو۔ مشاعرے سے قبل طویل خطبہ صدارت حاضرین پر ایسے ہی گراں گزرتا ہے جیسے طویل خطبہ نکاح بے صبرے دولہا پر۔ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ صدارت کے لیے کوئی وزیر، سفیر، کبیر دستیاب نہ ہو تو مجھ جیسے نا موزوں شخص کا انتخاب کرنے سے پہلے پوری تفتیش کر کے یہ اطمینان کر لیا جاتا ہے کہ اس نے کبھی کوئی شعر نہیں کہا اور آئندہ بھی اس کا احتمال نہیں ہے، بلکہ سخن فہمی کا بھی اندیشہ نہیں ۔ داد کو بھی قرض سمجھتا ہے مطلب یہ کہ داد نا دہندہ ہے۔ گو کہ عاجز ان تینوں شرائط پر پورا اترتا ہے مگر معذرت پر بوجوہ مجبور ہے۔ میں نے عرض کیا کہ تکلف برطرف کہ اگر فرشی نشست ہو تو میں دو زانو نہیں بیٹھ سکتا۔فرمایا چار زانو بیٹھ جائیے۔عرض کیا میں اپنی تکلیف کو دو سے ضرب نہیں دے سکتا پھر ارشاد ہوا فرمائے کہ آپ ہی فرمائیے گا کہ اونٹ۔۔۔ میرا مطلب ہے کس کروٹ بیٹھیے گا؟ میں نے بیٹھ کر دکھایا تو کہنے لگے’ اس طرح بیٹھ کر تو گھریلو خواتین آٹا گوندھتی ہیں۔ صدارت کے لیے یہ گرہستی پوز نا مناسب ہوگا۔
Najeeb Ahmed
About the Author: Najeeb Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.