خارش ، سوشل میڈیا اوردو نمبر صحافی

اب اپنی اصلی بات پر آتے ہیں کہ آج سے دو تین دہائی قبل شعبہ صحافت میں آنیوالوں کی باقاعدہ تربیت ہوتی تھی۔ اخبار میں مانیٹرنگ کے شعبے میں بندے کو رکھا جاتا وہاں سے نکلنے کے بعد پروفنگ کے شعبے میں رکھا جاتا اس کے بعد ایڈیٹوریل شعبے اور آخر کار ایڈیٹنگ میں تربیت ملتی او ر وہ بھی پرانے اپنے وقت کے گاگڑ یعنی تجربہ کار صحافیوں کیساتھ .. ان سے سوال کرنے کے طریقے سیکھتے ، سینئر کیساتھ احترام کا ایسا تعلق بن جاتاکہ آج بھی اس دور کے جتنے لوگ ہیں ایک دوسرے کیساتھ عزت و احترام کا تعلق رکھتے ہیں لیکن پھر.. ہمارے شعبہ صحافت میں بھی ڈول کے ذریعے پانی پی کر صحافت میں آنیوالے زیادہ ہوگئے بس جو دو نمبر بندہ ہے. بلیک میلنگ کرتا ہے ، دلالی کرتا ہے یا پھر خوشامد . یہ وہ صفات ہیں جو آنیوالے بیشتر نئے افراد میں شامل ہیں جو کام تو جز وقتی طور پر صحافت میں کرتے ہیں لیکن اپنے کاروبار خواہ وہ دلالی ہو ، دھندہ ہو یا بلیک میلنگ اس کو زیادہ وقت دیتے ہیں لیکن جزو قتی صحافت کو فل وقتی صحافت ظاہر کرکے ہر جگہ پر پہنچ جاتے ہیں اور یہی لوگ اس شعبے میں نمایاں ہیں اس لئے زندگی کے ہر شعبے کے لوگوں سے اگر پوچھا جائے تو کہا جاتا ہے کہ شعبہ صحافت سے وابستہ لوگ بلیک میلر اور ڈرامہ باز ہیں اور یہی حقیقت بھی ہے کیونکہ یہ اپنے مقصد کیلئے ایسی جگہ خارش کرتے ہیں جو انہیں کھجانے کی ضرورت بھی نہیں۔

پشتو زبان کی ایک مثل مشہور ہے کہ چہ کوم زائے دے نہ گریگی ھغہ بہ نہ گرے. یعنی جس جگہ پر خارش )کھجلن ) نہ ہو اسے کھجانا نہیں چاہیے. اپنے آرٹیکل کا آغازاس مثل سے اس لئے کررہا ہوںکہ صحافی واحد مخلوق ہے جو اس ایشو کو سامنے لاتے ہیں جہاں سے کچھ نیا مل جائے اور قارئین کو خبریں ملتی رہے. ہمارے بعض صحافیوں کی عادت بن گئی ہے کہ ایسی چیز کو ہاتھ لگاتے ہیں جہاں سے لفافہ ملنے کی امید ہو یا پھر حرام کی کمائی کاکوئی آسان طریقہ مل جائے.اور تقریباً اس شعبے میں آنیوالے نئے مختلف کاروباری حضرات کا یہی طریقہ کار ہے.جس کے ذریعے وہ اپنا کاروبار بھی چلارہے ہیں اور ساتھ میں پریس کا کارڈ رکھ کر سرکاری اداروں اور عام لوگوںکو بلیک میل اور دھمکاکر ان سے پیسے بٹورتے ہیں.

آج سے تقریباً تیس سال قبل والد کا ٹرانسپورٹ کا کاروبار تھا ۔چونکہ داجی گل خود نوجوانی سے اپنے ٹرک کیساتھ وقت گزارکر ڈرائیور بنے تھے اس لئے گاڑیوں کی دیکھ بھال بہت کرتے تھے اور اس معاملے میں بہت سخت تھے ۔میں نے بچپن میں بیٹری کو چیک کرنا ، پانی ڈالنا ، گاڑی کی صفائی کرنا ، موبائل آئل چیک کرنا ، ٹائروں کی ہوا چیک کرنا اور ایمرجنسی کی صورت میں گاڑیوں کو اٹھانے والے جیک اور ڈنڈا کو گاڑی گھر سے نکالنے سے قبل والد کی ہدایت سنی تھی اور اس پر بارہا داجی گل سے مارص بھی کھائے. اس لئے ابھی تک یہ چیزیں یاد ہے یہ الگ بات کہ ڈرائیونگ نہ سیکھ سکا اور نہ ہم صحافت کے شعبے میں رہتے ہوئے اپنے لئے گاڑی خرید سکے. لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ حلال کی رزق سے میرا گھر چل رہا ہے.خیر باتیں کہیں اور نکل گئی.

داجی گل گاڑیوں کیلئے ڈرائیور رکھنے میں بہت محتاط ہوتے تھے جس ڈرائیور کو گاڑی دیتے شام کو گاڑی چیک کرتے کہ کہیں لگی تونہیں ڈرائیور کیسا ہے اس سے گاڑی کی صورتحال کے بارے میں پوچھتے. بہت کم ایسے ڈرائیور مستقل رہے جو گاڑیوں کی چیکنگ روزانہ کرتے اور انہیں پتہ ہوتا کہ گاڑی کے کس حصے سے آواز آرہی ہے اور کس حصے میں مسئلہ ہے.ایک دفعہ ایک صاحب گاڑی لیکر گئے شام کو جب گاڑی واپس لیکر آئے تو میں اپنے حجرے میں کھڑا تھا ۔ داجی گل اسے کہہ رہے تھے کہ کل سے آنے کی ضرورت نہیں اور تم نے ڈول سے پانی پیا ہے اور ڈرائیور بنے ہو اس لئے تمھیں کسی چیز کا پتہ نہیں.یہ بات مجھے عجیب سی بھی لگی کہ ڈول سے تو سارے پانی پیتے ہیں لیکن یہ کیابات ہوئی کہ ایک کام والے بندے کو داجی گل نے نکال دیا. مجھ میں اتنی ہمت تونہیں تھی کہ والد سے پوچھتا کہ ڈول سے پانی پی کر ڈرائیور بننے کا کیا قصہ ہے .. لیکن پھر جب شہر میں آکر کامرس کالج میں داخلہ لیا اور کچھ عقل آئی تو پتہ چلاڈول سے پانی پی کر ڈرائیونگ کرنے والے کن ڈرائیوروں کو کہتے ہیں. اب تو سڑک پر گاڑی کی ڈرائیونگ سے پتہ چلتا ہے کہ کون صحیح ڈرائیور ہے اور کون ڈول کے ذریعے پانی پیکر ڈرائیور بن کر روڈ پر گاڑی چلا رہا ہے.

اب اپنی اصلی بات پر آتے ہیں کہ آج سے دو تین دہائی قبل شعبہ صحافت میں آنیوالوں کی باقاعدہ تربیت ہوتی تھی۔ اخبار میں مانیٹرنگ کے شعبے میں بندے کو رکھا جاتا وہاں سے نکلنے کے بعد پروفنگ کے شعبے میں رکھا جاتا اس کے بعد ایڈیٹوریل شعبے اور آخر کار ایڈیٹنگ میں تربیت ملتی او ر وہ بھی پرانے اپنے وقت کے گاگڑ یعنی تجربہ کار صحافیوں کیساتھ .. ان سے سوال کرنے کے طریقے سیکھتے ، سینئر کیساتھ احترام کا ایسا تعلق بن جاتاکہ آج بھی اس دور کے جتنے لوگ ہیں ایک دوسرے کیساتھ عزت و احترام کا تعلق رکھتے ہیں لیکن پھر.. ہمارے شعبہ صحافت میں بھی ڈول کے ذریعے پانی پی کر صحافت میں آنیوالے زیادہ ہوگئے بس جو دو نمبر بندہ ہے. بلیک میلنگ کرتا ہے ، دلالی کرتا ہے یا پھر خوشامد . یہ وہ صفات ہیں جو آنیوالے بیشتر نئے افراد میں شامل ہیں جو کام تو جز وقتی طور پر صحافت میں کرتے ہیں لیکن اپنے کاروبار خواہ وہ دلالی ہو ، دھندہ ہو یا بلیک میلنگ اس کو زیادہ وقت دیتے ہیں لیکن جزو قتی صحافت کو فل وقتی صحافت ظاہر کرکے ہر جگہ پر پہنچ جاتے ہیں اور یہی لوگ اس شعبے میں نمایاں ہیں اس لئے زندگی کے ہر شعبے کے لوگوں سے اگر پوچھا جائے تو کہا جاتا ہے کہ شعبہ صحافت سے وابستہ لوگ بلیک میلر اور ڈرامہ باز ہیں اور یہی حقیقت بھی ہے کیونکہ یہ اپنے مقصد کیلئے ایسی جگہ خارش کرتے ہیں جو انہیں کھجانے کی ضرورت بھی نہیں۔

غالبا ً2012 کی بات ہے پشاور کے جی ٹی روڈ پر نشتر آباد کے قریب مین روڈ پر کسی نے بم رکھ دیا تھا ۔کسی وی آئی پی کی آمد متوقع تھی ۔تھانہ گلبہار کی پولیس کو اطلاع ملی اس وقت اس تھانے میں عتیق شاہ نامی ایس ایچ او تھا بم کی اطلاع ملتے ہی میں ڈی ایس این جی کیساتھ موقع پر پہنچا اور ایک کلومیٹر دور گاڑی کھڑی کرکے کیمرے سے فلم بنانے کی کوشش کی ا س دوران ایس ایچ او ایک بندے کو چیخ مار رہا تھا کہ سائیڈ پر ہو جائو مر جائو گے کیونکہ بم ڈسپوزل یونٹ نے بم کو ناکارہ بنا نا تھا . لیکن وہ صاحب ہاتھ میں سٹل کیمرہ لیکر کھڑا تھا اور نزدیک ہونے کی کوشش کرتے ہوئے تصویر لے رہا تھا ۔میں نے اس وقت بم ڈسپوزل یونٹ کے انچارج جو بعد میں متنی میں بم ناکارہ کرتے ہوئے شہید ہوگیا تھا کو آواز دی کہ دومنٹ دے دو میں کوشش کرتا ہوں کہ اس بندے کو پیچھے لے جائوں. میرے نزدیک جانے پر پتہ چلا کہ ایک صاحب.جو ڈول کے ذریعے پانی پی کر صحافی بنے تھے سٹل کیمرہ ہاتھ میں لیکر تصویر اتارنے کی کوشش کررہے تھے چونکہ وہ نیا تھا اس لئے میں نے اپنے سینئر ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے کہا کہ بے وقوف مت بنو ، صرف پندرہ ہزار روپے کی خاطر اپنی موت کو آواز مت دو اور پیچھے ہٹ جائو. ساتھ میں میں نے اسے اپنا کیمرہ مین بھی بتا دیا کہ ٹی وی سے وابستگی کے باوجود پیچھے کھڑا ہے کہ ہم ہیں تو خبر ہے اس لئے پیچھے ہٹ جائو. اس صاحب نے منہ تو بہت بنایا لیکن میرے چیخنے چلانے اور ساتھ میں پولیس افسر کے برا منانے پر وہ پیچھے ہٹ گئے اور پھر بم ڈسپوزل سکواڈ نے نشتر آباد کے جی ٹی روڈ پر وہ بم ناکارہ بنا دیا.بم ناکارہ بنانے کے بعد ایس ایچ او عتیق شاہ آئے اور کہا کہ یار شکر ہے کہ تم نے اس پاگل کو پیچھے کردیا ورنہ ہماری تو بات نہیں مان رہا تھا اگر کچھ کہتا تو یہ کہتے ہیں کہ صحافی کیساتھ بدتمیزی کی اور اگر خدانخواستہ کچھ ہو جاتا تو پھر بھی ہمارے گلے پڑ جاتا.اس وقت اس ایس ایچ او جو آج کل ڈی ایس پی ہیں نے کہا تھا کہ یہ اخبار والے بھی ایسی جگہ پہنچتے ہیں جہاں پر ان کی ضرورت نہیں ہوتی ..

یہی بات گذشتہ روز لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے باہرگذشتہ روزآنسو گیس کی شیلنگ اور پھر اس سے متاثر ہونیوالی کچھ صحافیوں کی نظر آئی . صحافی حالات کا پہلے سے ادراک رکھتے ہیں اور ایسی صورتحال میں پولیس کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں کہ خدانخواستہ اگر کہیں لاٹھی چارج ہو تو وہ اپنے آپ کو او رکیمرے کو بچا سکیں لیکن گذشتہ روز ہسپتال کے باہر دیکھنے میں آیا کہ ایک سینئر صحافی چیخیں مار رہا ہے کہ پیچھے آجائو لیکن ... کچھ نیا کردکھانے کی چکرمیں بہت ساروں کو آنسو گیس اور ساتھ میں لاٹھیاں بھی کھانی پڑ گئیں.اور یہ سب اس لئے ہو کہ وہ ایسی جگہ پر کھجا رہے تھے جس میں خارش نہیں تھی ..

لیکن پھر کچھ لوگوں نے اس کا فائدہ یہ بھی اٹھایا کہ اپنی علاج کرنے والوں کو کہہ دیا کہ میری ویڈیو بناتے رہو تاکہ ہم بعد میں اسے سوشل میڈیا پر ڈال کر اپنے آپ کو صحافت کے ہیرو ثابت کرسکیں... اللہ معاف کرے . لکھنے اورکہنے کوبہت کچھ ہیں لیکن اب.ڈو ل کے ذریعے پانی پی کر صحافت میں آنیوالوں کے بار ے میں لکھتے ہوئے گھن آتی ہے. سو. پڑھنے والو.سارے صحافیوں کو گالیاں مت دو.. کچھ لوگ ہیں جو ایسی جگہ کو کھجاتے ہیں جہاں خارش بھی نہیں ہوتی لیکن. یہ ان کی اپنی خارش ہے.. اس میں شعبہ صحافت سے وابستہ تمام لوگوں کا کوئی قصور نہیں..

 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 422368 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More