اسلام میں حلا ل وحرام کے اصول

حلال کی تعریف :
شریعت میں حلال وہ ہے جسےاللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت نے مباح قرار دیا ہو ۔یعنی جس کی حلت اللہ کی طرف سے ثابت ہو۔( تعریفات الفقھیہ)

حرام کی تعریف :
حرام کے لغوی معنی “روکنے”کے ہیں اور“حریم ”اس احاطہ کو کہتے ہیں جو کنویں میں کسی چیز کو گرنے سے روکے ۔اور فقہ کی اصطلاح میں ان باتوں کہےہیں جن کے ارتکاب سے منع کردیا گیا ہو ۔

آمدی لکھتے ہیں:
جو بحیثیت اپنے فعل ہونے کے کسی بھی طرح شرعا مذمت کا باعث ہو۔( آمدی ،الاحکام فی اصول الاحکام ،جلد اول ،صفحہ 156)

حرام کے لیے کتاب وسنت کی تعبیرات :
مختلف اسالیب اور تعبیرات ہیں کہ نصوص میں ان کا استعمال حرمت کو بتلاتا ہے ۔اور وہ درج ذیل ہیں ۔
۱۔نہی اور ممانعت کا صیغہ ہو جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً﴾( آل عمران :1130)
“اے ایمان والوں! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ ”
۲۔حرام اور حرام سے نکلنے والے الفاظ سے خطاب ہو ۔جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيْحَةُ وَمَآ اَ كَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ﴾( المائدہ :3)
“حرام کر دیا گیا تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت، اور ہر اس چیز کو جس کو غیر اللہ (کی تعظیم و خوشنودی) کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو اور جو جانور مر جائے گلا گھٹنے سے، یا چوٹ لگنے سے، یا مر جائے گر پڑنے سے، یا سینگ لگنے سے، اور جس کو پھاڑ ڈالے کوئی درندہ، مگر (ان میں اسے) جس کو تم ذبح کر لو، نیز جسے ذبح کیا گیا ہو آستانوں پر اور یہ کہ تم باہم حصے معلوم کرو جوئے کے تیروں سے، کہ یہ سب گناہ ہیں ”
۳۔حلال اور جائز نہ ہونے کی صراحت جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ شَـيْـــًٔـا(البقرہ:229)
“اور تمہارے یے اس میں سے کچھ بھی لینا جائز نہیں جو تم نے انہیں دیا ہے۔”
4۔کسی فعل پر حد شرعی مقرر کی گئی ہو ۔مثلاً :
﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ﴾( المائدہ:38)
“اور چور خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کی کمائی کا بدلہ اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔”
۵۔کسی فعل پر کفارہ واجب قرار دیا گیا ہو ۔
۶۔کسی فعل پر عذاب اخروی کی دھمکی دی گئی ہو ۔مثلا :
﴿فَاَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَاُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۡ وَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ﴾(آل عمران :56)
“سو جو لوگ کافر ہوئے انہیں دنیا اور آخرت میں سخت عذاب دوں گا اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا”
۷۔کسی فعل کو گناہ قرار دیا گیا ہو ۔
﴿يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۭ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۡ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا﴾(البقرہ:219)
“لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے۔”
۸۔کسی فعل پر ایمان کی نفی کی گئی ہو ۔جیسا کہ حدیث میں ہے :
((لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ))( مسند احمد بن حنبل ،جلد19،صفحہ 376)
“اس شخص کا ایمان نہیں جو امانت میں خیانت کرے اور اس شخص کا دین نہیں جو عہد کی پاسداری نہ کرے۔”
۹۔کوئی بھی ایسی تعیبر اختیار کی گئی ہو جو ممانعت اور اجتناب کو بتا تی ہو جیسے ارشاد ربانی ہے ۔
﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ﴾( الحج:30)
“پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہیے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہیے ۔”
۱۰۔صیغہ نہی کی بجائے صراحتا نہی کا لفظ استعمال کیا گیا ہو۔مثلا :
((ان رسول اللہ ﷺ نھی عن ثمن الکلب ومہر البغی وحلوان الکاھن))(مشکوۃ ،صفحہ 241)
نبی کریم ﷺ نے کتے کی قیمت ،زانیہ کی اجرت اور کاہن کی کمائی سے منع کیا ہے

واضح رہے کہ بعض اوقات نہی کا صیغہ ،نہی کا لفظ ،اجتناب وممانعت کو بتلانے والی تعبیر یا کسی فعل کا گناہ قرار دینے کی عبارت کا مقصود حرمت کی بجائے “کراہت ”کا اظہار ہوتا ہے ۔جس کا اندازہ قرائن ،ممانعت کے اسباب اور شریعت کے مجموعی مزاج سے کیا جاتا ہے ۔گو کہ امر اصل میں کسی بات کو واجب قرار دینے کے لیے ہے ۔کہیں مباحات اور مستحبات کو بھی امر کے صیغہ سے تعبیر کردیا جاتا ہے ۔

مکروہ:
حرام سے قریب ایک اور لفظ“ مکروہ ”ہے ۔جن چیزوں کی ممانعت پر دلیل قطعی موجود ہوتی ہے ۔ان کے لیے فقہاء نے صریحا ً لفظ حرام کا استعمال کرتے ہیں ۔جن چیزوں کی ممانعت پر کوئی نص قطعی موجود نہیں ہوتی ان کو ازراہ احتیاط حرام کی بجائے مکروہ کہہ دیتے ہیں ۔( ردالمحتار ،جلد۵،صفحہ 214)مکروہ کا درجہ حرام کے مقابلہ میں ویسا ہی ہے جیسا کہ فرض کے مقابلہ میں واجب کا ہوتا ہے ۔جس کا ترک باعث گناہ ہوتا ہے ۔یہ حکم مکروہ تحریمی کا ہے اور جہاں فقہاء مطلق مکروہ کا لفظ بولیں وہاں “مکروہ تحریمی” ہی مراد ہوتا ہے اور اس کے مقابلہ میں مکروہ تنزیہی ہوتا ہے جو جائز کے قریب ہوتا ہے ،جو بات خلاف مستحب اور خلاف اولی ہو وہ فقہاء کی زبان میں مکروہ تنزیہی ہے ۔( درمختار،کتاب ،جلد5،صفحہ 214)

حلت وحرمت کے اہم اصول:
کچھ چیزیں تو ایسی ہیں کہ شریعت نے جن کو صراحت کے ساتھ حلال وحرام قرار دیا ہے لیکن بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں صراحتاً حکم موجود نہیں ہے تو وہاں شریعت کے اصول وقواعد جن کو قرآن و حدیث نے واضح بیان کیا یا جن کو فقہاء نے مستنبط کیا ہے ان سے حلت وحرمت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ بعض اہم ضروری قواعد درج ذیل ہیں ۔
۱۔اشیاء اصلا مباح وحلال ہیں :
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو انسان کے لیے پیدا کیا ہے ۔
ارشاد ربانی ہے :
﴿ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا﴾ (البقرہ :29)
“اللہ وہ ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا ہے۔”
جب کائنات انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے تو بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کو استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ چیزیں اس کے لیے مباح ہوں ۔اسی لیے فقہاء کا خیال ہے :
الاصل فی الاشیاء الاباحۃ (سیوطی ،جلال الدین ،الاشباہ ،صفحہ 133)
“اشیاء میں اصل اباحت ہے ۔”

جب تک کہ اس کے حرام ہونے پر کوئی دلیل نہ آجائے ۔اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے :
حضورﷺ نے فرمایا “اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو اپنی کتاب میں حلال قرار دیا وہ حلال ہیں ،جن اشیاء کو حرام قرار دیا وہ حرام ہیں ۔کچھ اشیاء ہیں کہ ان کے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے وہ ایسی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کے سلسلہ میں درگزر سے کام لیا ہے ۔”( ترمذی شریف)

لیکن گوشت میں اصل حرمت ہے جب تک شرعی طریقہ کے مطابق اس کا ذبح کرنا معلوم نہ ہوجائے یہ اہل کتاب کے حوالہ سے ہے وگرنہ مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے بشرطیکہ تسمیہ پڑھ کر جانور حلال کرے ۔

لہٰذا ایسے جانور جن کی حلت وحرمت کی قرآن وحدیث میں صراحت نہ ہو اور نہ کتاب وسنت کے بیان کئے ہوئے کسی اصول کے تحت وہ آتے ہو ں ،حلال سمجھے جائیں گے ۔یہی حکم اس قسم کے پودوں اور پھلوں کا بھی ہوگا ۔ ( الاشباہ للسیوطی ،صفحہ134)

۲۔عصمت انسانی میں اصل حرمت ہے :
انسانی عصمت وعفت اور عزت کے معاملہ میں اصل حرمت ہے ۔
الاصل فی الابضاع الحرم](ابن نجیم ،الاشباہ والنظائر،صفحہ 67)

مثلاً ایک آدمی کی چار بیویاں ہیں اس نے ایک طلاق دیدی لیکن کس کو دی یہ یاد نہیں ہے تو جب تک اس مطلقہ کی تعیین نہ ہوجائے سب بیویاں اس پر حرام ہوں گی ۔لیکن یہ اس وقت جب حرمت ثابت ہو اور اگر شک ہو تو اس سے حرمت ثابت نہ ہوگی ۔ (حوالہ سابقہ)

۳۔مجبوری ناجائز کو جائز کردیتی ہے :
مجبوری اور عذر کے وقت ناجائز اور حرام ،حلال ہوجاتا ہے :
الضرورات تیبح المحذورات(الاشباہ والنظائر ،صفحہ 85)
“ضرورتیں ،حرام اشیاء کو مباح کردیتی ہیں ۔ ”
اور قرآن مجید سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے :
﴿اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ﴾(البقرہ:173)
“تم پر مردہ اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے۔”

فقہ حنفی میں اس کی بہت ساری مثالیں جو اسی قاعدہ پر مبنی ہیں ۔

لیکن اس کا فیصلہ جید عالم ،مفتی موقع محل دیکھ کر کرے گا کہ کونسی ضروریات ایسی ہیں جہاں اس اصول سے فائد ہ اٹھا یا جاسکتاہے ۔

۴۔حرمت وحلت میں احتیاط :
جہاں حرام وحلال کے دونوں پہلو جمع ہوجائیں وہاں حرام ہونے کو ترجیح دی جائے گی ۔
مااجتمع الحلال والحرام الاغلب الحرام الحلال(الاشباہ والنطائر ،صفحہ9)
مثلاً تیر پھینکا اور جانور پہاڑ پر گرا اور پھر زمین گرا تو احتمال موجود ہے تیر سے موت واقع ہوئی اور یہ بھی احتمال موجود ہے کہ پہاڑ سے گرنے کی وجہ سے مرا لہٰذا وہ حرام سمجھا جائے گا ۔

۵۔ ذرائع حرام کا سدباب :
حرام کاموں تک پہچانے والے کام بھی ممنوع ہونگے ۔

اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔معبو دان باطل کی مذمت کی جائے تو ان کے پرستار اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرسکتے ہیں ۔اسی لیے قرآن مجید نے جھوٹے خداؤں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع فرمایاہے ۔( الانعام:108)
اسلام میں شراب نوشی کو حرام کیا گیا(المائدۃ:90)تو شراب کے بنانے والے ،بیچنے ،خریدنے اور کسی کو دینے کو بھی حرام قرار دیا گیا۔( الترمذی،السنن،بیروت، دار احیاء التراث العربی ،(ت ن) جلد۳،صفحہ 589)
قرآن کریم میں عورتوں کے لیے زیورات پہن کر زمین پر پاؤں مارنےکی ممانعت آئی ہے کہ ان کی مخفی زینت کا سننے والے کو حال معلوم نہ ہو(النور:31)،حالانکہ پاؤں مارنا فی نفسہ جائز ہے لیکن سننے والے کے دل میں خواہشات پید ا ہوسکتی ہیں اس لیے شریعت نے منع کردیا ۔

واضح رہے کہ اسبا ب وذرائع کا قرب وبعد کا سلسلہ ایک طویل سلسلہ ہےاگر علی الاطلاق اس پر پابندی لگائی جائے تو زندگی دشوار اور عمل میں تنگی پیش آئے گی جو شریعت کے مزاج کے خلاف ہے ۔

قرآن کریم کا واضح ارشاد ہے:
﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾( الحج:78)
“اور دین میں تم پر کسی طرح کی سختی نہیں”
ایسی صورت حال میں ان اسباب وذرائع کی رعایت کس طرح رکھی جائے گی ؟
اس سلسلے میں علامہ ابن قیم ؒ(م 751ھ)لکھتے ہیں:
لما كانت المقاصد لا يتوصل إليها إلا بأسباب وطرق تفضى إليها كانت طرقها وأسبابها تابعة لها معتبرة بها فوسائل المحرمات والمعاصي في كراهتها والمنع منا بحسب إفضائها الى غاياتها وارتباطاتها بها
(ابن قیم،ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر،اعلام الموقعین، بیروت ، ،دارالجیل ،1973،جلد۳،صفحہ135)
“اگر مقاصد ایسے ہوں جن تک صرف اسباب وذرائع سے رسائی ہوتی ہو اور وہ ان مقاصد تک پہنچاتے ہو تو ان مقاصد تک پہنچنے کے ذرائع اور اسباب ان کے تابع ہونگے اوروہ انہیں کے سبب سے معتبر ہوں گے ۔ حرام چیزوں اور معاصی تک پہنچانے والے وسائل مکروہ یا ممنوع ہونگے کیونکہ وہ اس حرا م مقصد تک لے جاتے ہیں اور اس مقصد کے ساتھ مربوط ہیں ۔”

مندرجہ بالا حوالہ سے دو چیزیں واضح طور پر سامنے آئیں۔
اسباب اور ذرائع “مقاصد”کے تابع ہیں،جس درجہ کا وہ “مقصد” ہوگا ،اسباب اور ذرائع پر حکم بھی اس درجہ کا لگے گا ۔
حرام چیزوں اور معاصی تک پہچانے والے اسباب اور ذرائع ،ممنوع ہونگےاس لیے کہ وہ حرا م مقصد تک لے جاتے ہیں ۔

۶۔معصیت میں تعاون:
وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ:2)
“اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو ”
اگر ایسا کام جس کا مقصود ہی گناہ ہے مثلاً ،گانے بجانے کے آلات ،فحش تصاویر اور لٹریچر کی اشاعت وطباعت یہ چیزیں خود بھی گناہ ہیں اور گناہ کا ذریعہ ہیں لہٰذا یہ تو حرام ہیں ۔
اگر ایسا کام جو بذات خود درست ہو اور اس کی نیت بھی صحیح ہو مگر حالات یا قرائن بتائیں اس سے گناہ اور معصیت کے عمل کو تقویت ہوگی۔مثلاً ایسے ملک کو اسلحہ فروخت کرنا جو عالم اسلام کا دشمن ہے یا دارلحرب ہے یہ صورت بھی معصیت میں اعانت ہے ۔

۷۔حیلہ کی شرعی حیثیت :
حیلہ کے لغوی معنی “مہارت تدبیر ”کے ہیں ۔اور فقہاء کی اصطلاح میں حرمت ومعصیت سے بچنے کے لیے ایسی خلاصی کی راہ اختیار کرنے کا نام ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہو( المبسوط ،جلد30،صفحہ 210)
چنانچہ بعض نے بھاکنے کو حیلہ قرار دیا ہے :
انما ھو الھرب من الحرام (الاشباہ لابن نجیم وصفحہ 40406)
غرض یہ کہ حیلہ حرام سے بچنے کا نام ہے نہ کہ حرام کا ارتکاب کرنے اور دوسروں کو اور اپنے آپ کو دھوکہ دینے کا۔
اگر کسی کے حق کوباطل کرنا یا باطل کی ملمع سازی مقصود ہوتو پھر وہ جائز نہیں ہے ۔ ( المبسوط ،جلد30،صفحہ210)
مثلاً ایک عورت کسی مرد سے نکاح کی مقر اور مرد منکر ہو تو اس سے طلاق نہیں دلوائی جاسکتی اور وہ دوسرا نکاح بھی نہیں کرسکتی اور گواہ وثبوت بھی اس کے پا س نہیں ہیں ۔تو ایسی صورت میں مرد سے کہلوا لیا جائے کہ اگر میں نے اس سے نکاح کیا ہے تو اس کو طلاق تاکہ عورت کے دوسرے نکاح کا راستہ نکل سکے ۔

ایک سرپھر ے آدمی نے بیوی کو کہہ دیا اگر تم نے ایسی ہانڈی نہ پکائی جس کا نصف حلال اور حرام ہو تو تم پر طلاق ہے ۔ایسی صورت میں وہ وہ شراب کی ہانڈی میں چھلکا سمیت انڈا ڈال دے اس کے چھلکا کی وجہ سے شراب کا اثر اس میں سرائیت نہ کرسکے گا اور وہ ایسی ہانڈی پکا کر طلاق کے وقوع سے بچ جائے گی جس کا نصف حلال اور حرام ہے ۔

حیلہ کی آڑ میں اگر حرام اور معصیت کا ارتکاب کیا تو وہ حرام ہوگا ۔جیسا کہ بنی اسرائیل کا ہفتہ کے روز شکار کا واقعہ قرآن مجید میں ہے ۔واضح رہے کہ حیلہ کا مقصد حرام سے بچنا ہے نہ کہ اس کو حلال وطیب بنانا۔
ghazi abdul rehman qasmi
About the Author: ghazi abdul rehman qasmi Read More Articles by ghazi abdul rehman qasmi: 31 Articles with 260406 views نام:غازی عبدالرحمن قاسمی
تعلیمی قابلیت:فاضل درس نظامی ،الشہادۃ العالمیہ،ایم اے اسلامیات گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان،
ایم فل اسلامیات بہاء الدی
.. View More