کافرستان میں چند دن۔۔۔۔عابد صدیق ...... قسط نمبر 3

رومبور، بریر اور بمبوریت چھوٹی وادیوں کو ملا کر وادی کیلاش کا نام دیا گیا ہے، کالاش ضلع چترال کی وادی کالاش میں آباد ایک قبیلہ ہے جنہیں کیلاش کافر یا اس علاقے کو ”کافرستان“بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے آباواجداد کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں ہیں کہ وہ کہاں سے ٓہجرت کر کے آئے لیکن جو زیادہ شواہد ملتے ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ لوگ یونان سے مختلف ممالک ہوتے ہوئے چترال آئے پھر ریاست چترال کے اس وقت کے حکمرانوں نے انہیں اس ایک جگہ پر اگٹھا کر دیا جس کا نام قبیلے کے نام وجہ سے کیلاش پڑ گیا۔بمبوریت ویلی کے گاؤں آیون سے کیلاش گاؤں کا راستہ کلومیٹر کے حساب سے تو زیادہ نہیں لیکن جیب پر سفر کریں تو کم از کم دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ہم میں سے کوئی بھی پہلے اس جگہ نہیں گیا تھا۔یہ ایک تنگ اور مشکل راستہ ہے پہاڑوں کو مشکل سے کٹائی کر کے بس ایک گاڑی کے گذرنے کی جگہ بنائی گئی کئی کئی کلومیٹر تک کراسنگ کی جگہ نہیں۔جو گاڑیاں روزمرہ اس راستے سے گزرتی ہیں ان کے ڈرائیور جانتے ہیں کہ سامنے سے آنے والی گاڑی کو کہاں رک کر راستہ دینا ہے لیکن جو لوگ پہلی دفعہ یا کبھی کبھار اس راستے پر آتے ہیں انہیں درود شریف کا ورد کرنے کے علاوہ عربی زبان میں جو کچھ یاد ہوتاہے پڑھتے سفر طے کرتے ہیں۔دوران سفر پکے”مومن“ لگتے ہیں لیکن اس طرز عمل کا دورانیہ دو گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتا۔پھر یہ بدل جاتے ہیں۔کسی منزل کی آمد یا دوری کا اندازہ نہ ہو تو سفر بھی تجسس سے گزرتا ہے۔ہم بھی ہر موڑ کے بعد راہ چلتے مسافر سے پوچھتے تھے کہ”کلاش کتنا دور ہے“۔قریباًسب کا ایک ہی جواب تھا کہ”بس تھوڑا سا آگے“۔یہ بنا بنایا جواب ویسے پورے برصغیر میں ایک ہی طرز پر دیا جاتا ہے لیکن کیلاش میں زیادہ اعتماد سے دیا جاتا ہے۔آخر کار ایک جگہ سڑک سے ہٹ کر قدرے ہموار جگہ ایک مکان کے سامنے لان میں بنچ لگے نظر آئے تو ساتھ ایک نوجوان پاؤں کے بل بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ہم نے گاڑی روک کر کچھ دیر ان بنچوں پر بیٹھ کر آرم کرنے کی اجازت مانگی تو وہ خوش دلی سے ہمیں اپنے ساتھ لے گیا۔آفتاب نام کا یہ نوجوان علاقے کا پٹواری تھا اور وہ اس علاقے کو خوب جانتا تھا۔اس کا سارا خاندان لاہور میں آباد تھا صرف وہی اپنی فیملی کے ساتھ یہاں رہتا تھا۔بھائیوں نے اسے اراضی کا رکھوالا بنا رکھا تھا کیوں کہ اس سے بہتر کون رکھوالی کر سکتا ہے۔آفتاب نے اس وادی کے بارے میں اپنی سمجھ کے مطابق کافی کچھ بتایا اور ناشپتی کے علاوہ گرما گرم چائے بھی پلائی۔وہاں سے کوئی تیس منٹ کی مسافت کے بعد ہم کیلاش گاؤں پہنچ گے۔پہلے ہم محکمہ سیاحت پاکستان کے گیسٹ ہاوس گے جو سڑک کے بائیں طرف ایک کشادہ جگہ بنایا گیا تھا۔وہاں بڑی تعداد میں سیاح ٹھرے ہوئے تھے۔ہم نے وہاں سے کچھ بنادی معلومات لی جو کتابی شکل میں تھی۔اسی کے ساتھ تھوڑا آگے ایک میوزیم تھاجس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اس میوزیم سے آپ کو کیلاش قبیلہ کے کلچر،مذہب،رہن سہن سے متعلق پتہ چل جائے گا۔لیکن اتفاق سے اس دن چھوٹی تھی اور یہ میوزیم بند تھا۔اس میوزیم کے بارے میں بتاتے ہیں کئی سال پہلے یونان کا شہری اس علاقے میں آیا تو اس نے یہاں کے کلچر، ثقافت اور دیگر طور طریقوں بشمول عبادت کے طریقہ کار کو قریب سے دیکھا اور انہیں یونان کی تاریغ،کلچر، ثقافت کے قریب پایا تو اسے یقین ہو گیا کہ یہ قبیلہ یونان سے ہی آیا ہے اس طرح اس نے مستقل طور پر یہی پے قیام اختیار کر لیا اور ایک میوزیم بنانے کا فیصلہ کیا تا کہ اس قبیلے کی تاریخ محفوظ کی جا سکے۔اس طرح اس نے ذاتی حیثیت سے اس میوزیم کی تعمیر کروائی اور خود بھی یہی مقیم ہو گیا۔چند سال پہلے طالبان اسے اغواء کر کے افغانستان لے گئے۔بعد ازاں مذاکرات کے بعد اسے رہا تو کر دیا گیا لیکن وہ واپس یونان چلا گیا کلاش نہ آسکا۔

کیلاش قبیلہ قریباًدو سو سال پہلے یہاں آکر آباد ہوا۔ ابتداء میں ان کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی اور یہ چترال کی مختلف حصوں میں آباد تھے۔ان میں سے بہت سارے خاندان اسلام قبول چکے تھے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔بعد میں انہیں ایک ہی وادی میں رکھا گیا جسے ان کے نام کی نسبت سے کیلاش وادی کہا جاتا ہے۔ ان کی تعداد اب کم ہو کر کوئی چار ہزار کے قریب رہ چکی ہے۔اس قبیلے کا باضابطہ کوئی مذہب نہیں ہے۔یہ خدا کو تو مانے ہیں لیکن کسی الہامی کتاب پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کا کوئی نبی ہے۔ان کی عبادت گاہ ہے جہاں عام لوگوں کا داخلہ منع ہے البتہ مہمان خاص وہاں کا دورہ کر سکتے ہیں۔اس عبادت گاہ میں عام دنوں میں خواتین جاتی ہیں اور دستکاری کا کام کرتی ہیں لیکن دسمبر میں وہاں ایک خاص میلہ لگتا ہے جس میں ساری کمیونٹی شریک ہوتی ہے۔ہزاروں کی تعداد میں جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے۔قربانی کے بارے میں ان کا پختہ یقین ہے کہ اس کے دینے سے مصیبت دور ہوتی ہت اور خوشحالی آتی ہے۔کئی شادیاں بھی اسی میلے کے دوران ہوتی ہیں۔اموات کی صورت میں میت کو بھی اسی جگہ رکھا جاتا ہے۔ہم نے اس جگہ کوئی پانچ گھنٹے گذارے جس کے دوران اس کمیونٹی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کی۔کیلاش قبیلے میں خوشی اور غمی ایک ہی طریقے سے منائی جاتی ہے۔ایک بات جو شاید پہلے لکھنا بھول گیا کہ کے پی کے حکومت کی جانب سے کیلاش وادی میں داخل ہونے سے پہلے کئی جگہ یہ بورڈ لگے ہوئے نظر آتے ہیں کہ”کیلاش خاندانوں سے انٹرویو کرنا،تصاویر و ویڈیو بنانا منع ہے“۔ان ہدایات کی وجہ سے ہم ان خاندانوں سے زیادہ بات چیت تو نہ کر سکے لیکن اس قبیلے کے بعض مرد و خواتین نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیلاش قبیلے کے رسم و رواج،ثقافت و کلچر سے آ گاہ کیا۔(جاری ہے)
 

Abid Siddique
About the Author: Abid Siddique Read More Articles by Abid Siddique: 34 Articles with 38411 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.