نیا پاکستان

تحریر :تحریم ڈوگر.
آج صبح جب میں اٹھی تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں میرے گھر کا جھاڑو پوچا ہو چکا تھا برتن دھل کے چمک رہے تھے کپڑے دھو کے استری کر کے سامنے ہی ہینگ کیے ہوئے نظر آ رہے تھے ہمارے نئے پاکستان کے نئے وزیر اعظم خدمت ِ خلق کا ریکارڈ بنا کے مسکراتے ہوئے دبے قدموں سے جا ہی رہے تھے اور میری نظر بچوں پہ پڑی جنہیں وزیر تعلیم صاحب نئی کتابیں اور بستے تھمائے اپنے ساتھ جانے کے لیے رضا مند کر رہے تھے اتنی دیر میں دروازے پہ بہت شور سنائی دیا بچوں کو لینے شیخ رشید صاحب ٹرین لے کے آئے تھے تاکہ گھر گھر سے بچوں کو سواری کی سہولت فراہم کرتے ہوئے سکول و کالج تک پہنچا سکیں سچ میں نیا پاکستان قابلِ رشک ہے میں نے سوچا اور بچوں کی فیس کا خیال آیا تو وزیرتعلیم شفقت محمود صاحب نے میرے کہنے سے پہلے جان لیا اور کہا پرانے پاکستان کو بھول جائیں نئے پاکستان میں آپ کے بچے مفت اور بہترین تعلیم حاصل کریں گے اس وقت تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب جاتے جاتے وزیراعظم صاحب نے میرے ہاتھوں میں رجسٹری کے کاغذات پکڑائے اور وزیر اطلاعات نے فوری اطلاع دی جن گھروں کو دینے کا کپتان صاحب نے وعدہ کیا تھا آج وہ پورا ہوا اب آپ کرائے سے پریشان نہ ہوں یہ گھر آپکا ہوامجھے یوں لگا جیسے میری تمام تر پریشانیاں حل ہو گئی ہوں ابھی میں اس خوشی کو ہضم بھی نہیں کر سکی تھی کہ اتنی دیر میں مجھے ایک اور خوشی کا سندیسہ ملا وزیر اعظم صاحب نے اپنا ایک اور وعدہ پورا کر دکھایا انہوں نے کہا تھا کوئی غریب نہیں رہے گا انہوں نے ایک مہینے تک کیلئے ملک میں گیس اور بجلی کو بھی مفت کرنے کا اعلان کر دیا میں تو ابھی ایک خوشی سے نکلتی نہیں تھی کہ نئے پاکستان میں مجھے دوسری خوشی مل جاتی تھی ابھی میں ایک خوشی سے نکلتی نہیں تھی کہ نیا پاکستان اور خوشیاں عطا کرتا تھا ابھی تو اک خوشی ہضم نہیں ہوتی تھی کہ دوسری خوشی مل رہی تھی اب فہد چوہدری صاحب ہیلی کاپٹر لے کے گھر کے اوپر آئے اور انہوں نے میرے شوہر کو صرف 45 روپے میں تین کلومیٹر کے فاصلے پر ان کی فیکٹری کے پاس اتار دیا اس سے بڑھ کے نئے پاکستان میں کونسی سہولت فراہم کرے ہمارا حکمران جس غریب نے کبھی ہیلی کاپٹرقریب سے دیکھا نہ ہو اس نے 45 روپے میں اس کے اوپر سفر کرلیا مجھے بھی کسی کام سے بازار جانا تھا گھر کے کام تو نمٹ چکے تھے سوچا میں بھی کیوں نہ ہو آؤں میٹرو بس تو پرانے پاکستان کا رواج تھا وہ تو چور اور کرپٹ لوگوں کی بے وقوفی کا منہ بولتا ثبوت ہے.لیکن نئے پاکستان نے نئے حکمرانوں نے جو اورنج لائن ریل گاڑی چلائی میں تو دیکھ کے دنگ رہ گئی وہیں میں نے وزیر ریلوے شیخ رشید صاحب کی طرف سے ایک اشتہار لگا ہوا دیکھا ستر سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے لئیے سال میں چار دفعہ سفر مفت (کھال نوجوانوں کی اتار کے) بریکٹ میں ذاتی رائے ستر سال کے لوگ جب چار دفعہ مفت کے چکر میں سفر کریں گے تو بچے گا کوئی قسمت والا ہی ویسے نیے پاکستان کا منشور غربت ختم کرنا نہیں غریب ختم کرنا ہے تو غریب کو ختم کرنے کے لیے حکمت عملی تو کرنی پڑے گی اب نیا پاکستان نئے پاکستان میں جہاں اتنی سہولیات دی جارہی ہیں وہاں غریب کو ختم کرنے کے لیے حکمت عملی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا نا...میں تو خیر ابھی اسی سوچ میں گم تھی کہ مجھے ایک اور خوشی کا دھچکا لگا جب میں نے اخبار میں خبر پڑھی کہ نیے پاکستان میں ڈیم کی تعمیر مکمل ہو گئی جو کام پرانے پاکستان کے پرانے حکمران اتنے عرصے میں نہیں کر سکے وہ کام اتنے کم عرصے میں نئے حکمرانوں نے کر دکھایا,

نیازی صاحب نے اپنے نام کا تحفہ عوام کو دیتے ہوئے لاہور کے مشہور نیازی اڈے کی تمام تر سواریوں کے کرائیوں میں پچاس فیصد کٹوتی کا اعلان کر دیا, نیے پاکستان کی پولیس کو گلو بٹ جیسے غنڈوں سے آزاد کروایا, نئے پاکستان کو تمام چھوٹے بڑے چوروں اور ڈاکوؤں سے صاف کیا.اپنے باپ کے پیسوں میں سے تقریباً تین سو ارب بڑی کمپنیوں کو معاف کیے,میں خراجِ تحسین دینے ہی والی تھی کہ میرا دیور مٹھائی لئے گھر داخل ہوا اور خوشی سے بولا نئے پاکستان میں ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے کیا تھا وہ پورا کر دکھایا مجھے بغیر سفارش کے نوکری مل گئی میں نے ٹی وی چلایا تو کشمیر کا مسلہ بھی تقریباً حل ہو تا ہوا نظر آیا شیخ رشید صاحب بھارت کو کھلی اور واضح دھمکی دیتے ہوئے آگاہ کر رہے تھے کہ ہمارے پاس پاؤ پاؤ آدھا آدھا کلو کے بم ہیں جو ہم نے اپنے پاس رکھے ہیں ویسے مجھے تشویش تو ہوئی کہ جن بم وغیرہ کا ذکر یہ اتنے دھڑلے سے کر رہے ہیں وہ تو پرانے پاکستان میں پرانے حکمرانوں کی بدولت ہیں یا شائید ہو سکتا پہلے شیخ صاحب بم بنانے کا کام کرتے ہوں تبھی اتنے وثوق سے ہمارے پاس بم ہیں کہہ رہے ہیں خیر جو بھی خوشی تو اس بات کی کہ نئے پاکستان میں کشمیر پہ آواز تو بلند کی گئی, نئے پاکستان کے حکمران پرانوں کی طرح آئی ایم ایف کے پاس بھیک مانگنے تو نہیں گئے سونا غریب سے غریب کی بھی پہنچ تک آ گیا. نئے پاکستان میں روپے کی قیمت اتنی بڑھ گئی کہ ڈالر خود خون کے آنسو رونے لگا بہت سی چیزوں سے ٹیکس ختم کر دیا گیا میں نے خوشی سے جیسے ہی نیا پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تو دھڑام سے بیڈ سے نیچے گری دو منٹ تک تو میں سمجھ ہی نہ سکی کہ ہوا کیا ہے. میں پہلے سو رہی تھی یا اب سو رہی ہوں. گھڑی پہ نظر پڑتے ہی میرے ہوش ٹھکانے آ گئے میں نے فٹافٹ بچوں کے لئے ناشتے کا سوچا انہیں جلدی سے اسکول کے لئے تیار کر رہی تھی کہ گاڑی والے کا فون آگیا, میڈم جی! اپنے بچوں کو خود اپنی ذمہ داری سے اسکول چھوڑ آئیں میرے گھر رات چوری ہوگئی ہے میری گاڑی بھی چور چرا کر لے گئے ہیں نیا پاکستان تو چوروں سے پاک ہے سارے چور تو جیل میں ہیں پھر ڈرائیور کے گھر چوری کس نے کی میں نے سوچتے ہوئے پرانے ڈرائیور کو فون کیا بچوں کو لے جانے کے لیے فون کیا مگر اس نے یہ کہا کہ استفثار کرلیا کہ میڈم جی پٹرول بہت مہنگا ہوگیا ہے میں نے تو اپنا گھر کا خرچ چلانے کے لئے اپنے گاڑی بھی بیچ دی ہے
میں نے اپنے شوہر سے جا کے کہا کہ کام پہ جاتے ہوئے بچوں کو لیتے جانا
اور وہ بولے کس کام پہ جاؤں
کہیں کوئی کام ملے گا تو کروں گا نہ
جیب میری میں پھوٹی کوڑی نہیں

رات امی کی دوائیاں اتنی مہنگی ملی ہیں کی اگر کچھ پیسے بچتے تو میں زہر لے آتا. ایک بچے نے اپنی ڈائری تھما دی جس پر بچوں کی فیس بروقت ادائیگی کا پیغام لکھا تھا. دوسرے بچے نے سکول جانے کے لئے پیسے مانگنے شروع کر دیئے, اس نئے پاکستان کی نء حکومت کے کمالات کی بدولت دال, سبزی بھی اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ میرے پاس بھی پیسے موجود نہ تھے میں نے دو دو تھپڑ بچوں کو لگائے اور بٹھا دیا.

دروازے پر دستک ہوئی گیس و بجلی کے بل آ گئے تھے پچھلے چند روز سے فریج خراب تھی دو بلب اور ایک پنکھے کے استعمال پر بجلی کا بل 10000 اور گیس کا دو ہزار دیکھ کر سر چکرا گیا. سر چکرانے سے گرنے ہی والی تھی دروازے پہ دستک ہوئی جاکر دیکھا تو مالک مکان کرایہ لینے کے لیے آیا کھڑا تھا. کرایہ مانگنے کے ساتھ ہی اس نے نئی حکومت اور مہنگائی کا رونا روتے ہوئے کرایہ بڑھانے کی ڈیمانڈ بھی کردی. ٹی وی چلایا تو پولیس کے کارنامے نے رونے پہ مجبور کر دیا نئے پاکستان کی نئی بھرتی کی ہوئی پولیس چوروں کو پکڑنے کی بجائے شہریوں کو ہی سرِ عام قتل کرنے باپ پہ بچوں کے سامنے تشدد کرنے, ذہنی مریض کو اپنا ہی کارڈ نکالنے پہ دنیا سے ہی نکال دینے اور عزتوں کے رکھوالے ہونے کی بجائے جرم میں برابر کے شریک ہونے اور اپنی ذہنی بھڑاس نکالنے اور دلی تسکین کے لیے ذاتی اڈوں پہ لوگوں کو ٹارچر کر کر کے مارنے میں مصروف ہیں. ہمارے نوجوان شائید اسی تبدیلی کے خواہش مند تھے.

تبھی موبائیل پہ رِنگ ہوئی, دوست کا فون تھا. سلام دعا کے بغیر ہی وہ روتے ہوئے مہنگائی کا رونا رونے لگی بولی جینا غریب کے بس کی بات نہیں شوکت خانم ہسپتال میں بہن کا بچہ داخل تھا مفت علاج والے نئے وزیر اعظم کے نئے پاکستان میں اس کے اپنے مفت ہسپتال میں لاکھوں ڈاکٹرز کی فیس ادا نہ کرنے کی صورت میں اسکا بیٹا زندگی کی بازی ہار گیا اسی لمحے قبروں پر بھی ٹیکس کی ایک خبر نے میرے ذہن کو مفلوج کرکے رکھ دیا.

نئے پاکستان میں مہنگائی نے جتنے تحائف عطا کیے ہیں اس سے تو پاکستان کے چور اور کرپٹ حکمران ہی اچھے تھے اگر وہ کھاتے رہے تھے پھر بھی عوام کو جینے کا حق تو تھا اس نے پاکستان کے نئے حکمرانوں نے جینا تو کیا مرنا بھی دشوار کر دیا. کاش ایک دفعہ نئے حکمران بتا دیں کہ پرانا پاکستان کن لوگوں کو بیچ کر انہوں نے نیا پاکستان خریدا ہے ان لوگوں کی منت سماجت کرکے اپنا پرانا پاکستان ہی واپس لے لوں کیونکہ پاکستان میرے بزرگوں نے بہت بڑی بڑی قربانیاں دے کتنے جانثاروں نے اپنی جانیں اور کتنی کلیوں نے اپنی عزتیں لُٹا کے حاصل کیا تھا جہاں مشکلات تو تھیں مگر غریب کوکم از کم جینے کا حق تو تھا
 

Rasheed Ahmad Naeem
About the Author: Rasheed Ahmad Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmad Naeem: 47 Articles with 40692 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.