فضل الرحمن اور چوہدری جی کوئی حد ہوتی ہے

شاہ صاحب! کیا صدر کا خطاب واقعی تاریخی تھا..؟یا بس یوں ہی..!!

لیجئے جناب! جمعیت عُلماء اِسلام (ف) کے سربراہ مُولانا فضل الرحمن نے تو بڑے وثوق کے ساتھ اپنا سینہ ٹھونک کر اور ہوا میں مُکا لہرا تے ہوئے اپنا سر تان کر اِنتہائی معنی خیز انداز میں میڈیا سے لچھے دار گفتگو کرتے ہوئے یہ کہہ دیا ہے کہ صدر کے چوتھے مشترکہ پارلیمنٹ کے خطاب کے دوران ہم نے اپنے احتجاج اور بائیکاٹ سے وہ تمام سیاسی مقاصد حاصل کرلئے ہیں جو ہم چاہتے تھے مگر اِس کے ساتھ ہی اِن کا یہ بھی کہناا ِنتہائی مضحکہ خیز لگتا ہے کہ کوئی نہیں چاہتا کہ نظام پٹری سے اُترے مگر اِس کے باوجود بھی ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے صدر کے مشترکہ پارلیمنٹ کے چوتھے خطاب کے دوران بائیکاٹ کیا ....یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب کوئی نظام کو پٹری سے اُتارنا ہی نہیں چاہتا ہے تو پھر مُولانا جی! یہ احتجاج اور بائیکاٹ کا سب ڈرامہ کس لئے رچایا گیا تھا .....؟؟کیا فضل الرحمن یا)صدر کے خطاب کے موقع پر احتجاج اور بائیکاٹ کرنے والی اپوزیشن جماعتوں ن لیگ،جماعت اِسلامی ،پی پی شیرپاؤ(ایک پاؤ یا آدھا پاؤ) ق لیگ اور ہم خیال میں سے) کوئی میرے اِس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ ہمارے ملک کی اپوزیشن جماعتوں کے رہنما اپنے اِن اُوچھے ہتھکنڈوں سے عوام کو کیوں...؟؟اور آخر کب تک بیوقوف بناتے رہیں گے....؟؟اِس موقع پر میں صرف یہ کہوں گا کہ مولانا فضل الرحمن اور چوہدری نثارعلی خان (چوہدری جی ) کوئی حد ہوتی ہے....!سیاست چمکانے اور عوام کو بے وقوف بنانے کی اِس میں کوئی شک نہیں کہ صدر کا چوتھا مشترکہ پارلیمنٹ خطاب صدر زرداری اور حکمران جماعت کی کارکردگی کے لحاظ سے ایک بے معنی اور بے مطلب خطاب ضرور تھا جو آئندہ دنوں کے لئے صدر اور اِن کی جماعت کے لئے الارمنگ صُورتِ حال بھی پیدا کرسکتا ہے .....

جبکہ قومی اسمبلی میں پاکستان مُسلم لیگ (ن) کی جانب سے نامزد قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے صدر کے چوتھے پارلیمنٹ کے خطاب کے بعد اپنی ایک پریس کانفرنس میں اِس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے کہ صدر کے مشترکہ پارلیمنٹ کے خطاب سے آئینی تقاضے تو ضرور پورے ہوئے مگر قومی اور عوامی نہیں اِن کا یہ بھی کہنا بجا معلوم دیتا ہے کہ صدر نے اپنے اِس خطاب میں اہم مسائل پر ایک لفظ نہیں کہا اور اِس موقع پر اُنہوں نے اپنی حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صدر نے اپنی تقریر میں قومی اور عوامی نوعیت کے اہم مسائل کو دیدہ اور دانستہ طور پر بالائے طاق رکھنے کے بعد ہمارے صدر خُدا جانے کس پاکستان کا جُھوم جُھوم کر ذکر کرتے رہے جو ہماری سمجھ سے تو بالاتر رہا کہ اور ہم یہ سوچتے رہے کہ صدر نے اپنے خطاب میں کس خُوشحال پاکستان کا ذکر کیا ہے۔

مگر اِن باتوں کے باوجود بھی دوسری طرف حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی پیچھے نہیں رہے اُنہوں نے بھی سیاست کی تمام سرحدیں عبور کرتے ہوئے حد کردی اور اُنہوں نے پارلیمنٹ سے صدر آصف علی زرداری کے خطاب کو اپنی جس خُوشی اور مُسرت کا اظہار کرتے ہوئے اِسے ایک شاندار اور تاریخی خطاب قرار دیا ہے تو میری یہاں اِن سمیت دوسروں سے یہ عرض ہے کہ شاہ جی !صدر کا خطاب اِتنا بھی شاندار اور تاریخی نہیں تھا کہ آپ جیسا سنیئر سیاستدان(اور صدر کے چوتھے خطاب کو وہی سمجھنے والے جو آپ سمجھ رہے اور دوسرے لوگ) صدر کے اِس خطاب کو جس میں سِوائے صدر کی جاذب نظر اور پُراثر شخصیت اور 22مارچ کی تاریخ کے کچھ بھی تاریخی نہیں تھا اِسے آپ تاریخی کہہ رہے ہیں ......!!!اُس خطاب کو جس میں صدر نے ملک کے کسی بھی اہم مسئلے کا ذرا بھی ذکر کرنا اور حل کرنا تو درکنار اُس جانب اشارتاََ بھی کچھ نہیں کہا تو پھر صدر کا یہ خطاب کس طرح شاندار اور تاریخی ہوسکتا ہے....؟اور کس کے لئے یہ تاریخی اہمیت اختیار کر گیا ہے ....؟ اور کیا صرف آپ کی اپنی اکیلی ذات کے لئے.....؟؟ جِسے آپ شاندار اور تاریخی کہہ رہے ہیں آپ ذرا کہنے سے پہلے یہ بھی واضح کردیتے تاکہ بات آئینے کی طرح صاف وشفاف ہوکر عوام کے سامنے آجاتی کہ شاہ جی! نے صدر کے خطاب کو کس نکتہ نِگاہ سے ایک شاندار اور تاریخی خطاب قرار دیا ہے تو بہت اچھا ہوتا.....

اور سُنیں بات یہیں ختم نہیں ہوگئی ہے صدر زرداری کے خطاب کی تعریف تو عالمی دہشت گرد عزت مآب جنابِ مُحترم ریمنڈ ڈیوس کے ملک امریکا سے تعلق رکھنے والے پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون سی منٹر نے بھی کی ہے اُنہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اِجلاس سے صدر زرداری کی تقریر کو فنِ خطابت کا ایک اعلیٰ شاہکار قرار دیا ہے .....ہاں بھئی! یہ صدر زرداری کی تقریر کو فن خطابت کا ایک عظیم شاہکار قرار نہیں دیں گے تو پھر کون دے گا....؟؟ یہ وہی زرداری تو ہیں جنہوں نے اپنے دو پاکستانیوں کے قتل میں ملوث اِن کے قاتل شہری ریمنڈ ڈیوس کو رہائی دِلوانے میں اہم رول ادا کیا ہے اور ممکن ہے کہ اِنہوں نے ہی کچھ قومی خزانے اور کچھ اپنی جمع پونجی سے ریمنڈ کی رہائی کے لئے دیت کی رقم بھی ادا کی ہو... تاکہ اِن کی اِس کرم نوازی سے امریکا اِن سے خُوش ہو اور آئندہ بھی اِنہیں اقتدار کا منصب سونپ دے ۔

بہرکیف! صدر کے چوتھے پارلیمنٹ کے اجلاس سے کچھ دن اور گھنٹوں قبل حکومت پر اپوزیشن کی جماعتوں کی طرف سے بدنظمی پھیلانے اور ہلڑبازی مچانے کا جو ایک خُوف اور لرزہ طاری تھا وہ اُس وقت ختم ہوا جب حکومت نے یہ دیکھ لیا کہ مصالحت پسند اپوزیشن کی جماعتوں کے احتجاجی غبارے سے ہوا نکل گئی ہے اور اپوزیشن جماعتیں دبک کر ایک کونے میں بیٹھ کر کبھی دھیمے دھیمے اور کبھی فلک شگاف انداز سے نعرے بازی کرتی رہی ہیں اور قوم کو یہ باور کرا رہی ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں نے صدر کے خطاب کے دوران اپنا جمہوری حق ادا کرتے ہوئے اپنا احتجاج جاری رکھا ہے پھر دوسرے ہی لمحے صدر زرداری نے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے کئے گئے اِس ہلکے پھلکے احتجاج کی پرواہ کئے بغیر انتہائی اطمینان اور اعتماد کے ساتھ اپنا خطاب اپنے روائتی لب و لہجے سے شروع کیا اور اپنے اُسی مخصوص انداز سے اِسے ختم بھی کیا جیسا یہ عموماََ کیا کرتے ہیں گو کہ صدر کا یہ خطاب قومی زبان اردو کے بجائے فرنگیوں کی زبان(انگریزی) میں تھا جِسے سُن کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے صدر اپنا یہ خطاب اپنوں سے زیادہ اُن فرنگیوں کو سُنانا چاہتے تھے جِنہوں نے اِنہیں صدر بنایا تھا۔

اگرچہ اِس حقیقت سے صدر بھی شائد انکار نہیں کرسکتے کہ اِن کا پارلیمنٹ سے کیا جانے والا یہ چوتھا خطاب اِن کی اُن ہی پرانی اور روائتی تقریروں کے اقتباسات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے کوئی خاص تاثر نہ چھوڑ سکا اِس کی کی اوجہ تھی یہ صدر بھی خُوب جانتے ہیں تو وزیراعظم سمیت حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت بھی اِس سے واقف ہوگی کہ صدر مملکت کا چوتھا خطاب تین بار پہلے کئے گئے خطابات جیسا تھا جس کی وجہ سے صدر زرداری اور حکمران جماعت والے اَب خود بھی پریشان نظر آتے ہیں۔

اِس کے علاوہ اپوزیشن کی جانب سے صدرکے مشترکہ خطاب کے موقع پر حکومت کو ملنے والی زبردست احتجاجوں کی دھمکی سے جہاں حکومت پریشان ہوئی تو وہیں عوام بھی یہ سمجھنے لگے تھے کہ ممکن ہے کہ اپوزیشن اِس روز کوئی بڑا کارنامہ کرجائے گی مگر حکومتی حکمتِ عملی کے سامنے اپوزیشن جماعتوں کی ایک نہ چلی اِن کا احتجاجی پروگرام دَھرا دَھرا رہ گیا اور صدر اپنا خطاب کر گئے۔ حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کے اِس دُہرے معیار کو دیکھ کر یہ شعر پیش خدمت ہے کہ
مُناظروں کا مباحث کا تذکرہ کیجئے یہی ہے حُکم سیاست مُباہلہ کیجئے
اگر ہو حزبِ مُخالف کو اعتراض اُس پر تو ملک وقوم کی خاطر مُجادلہ کیجئے

اور اِسی طرح حُکومت اور حزب ِ مُخالف کے دوستانہ رویوں پر یہ شعر حاضر ِ ہے کہ
ارضِ وطن سے کوئی بھی مُخلص نہیں ہے آج ہر دردمَنددل میں یہی اِضطراب ہے
وہ حزبِ اِختلاف ہو کہ حزبِ اِقتدار سچ پوچھئے تو دونوں کی نیت خراب ہے

اِس کے ساتھ ہی میں اپنے آج کے کالم کا اختتام اِس سوالات پر کر رہا ہوں کہ کیا ملک اور عوام کے مسائل حل کرنے سے زیادہ اہم حکومت کو اپنی مدت پوری کرنا ضروری ہے.....؟یا موجودہ حکومت کا اقتدار میں آنے کے بعد ملک اور عوام کے لئے حقیقی معنوں میں کچھ بہتر کر دیکھانا زیادہ اہم ہے.....؟؟اور اِسی طرح اپوزیشن کے ایسے بے مقصد احتجاجوں اور بائیکاٹوں کا کیا فائدہ جن سے نہ تو عوام کو کوئی فائدہ حاصل سکے اور نہ ہی ملک کی زبوحالی میں کوئی کمی یا بہتری آسکے ....؟؟اِیسے میں عوام یہ سمجھتے ہیں کہ اِن کے لئے نہ تو ایسے حکمرانوں کی ہی کوئی ضرورت ہے جو اپنے مفادات کے لئے ملک کو داؤ پر لگا دیں اور نہ ہی کسی ایسی حزب اختلاف کی جو محض اِس وجہ سے اپنا غیر ضروری سیاسی مشن جاری رکھے جس سے یہ واضح ہو رہا ہو کہ یہ بظاہر تو اپوزیشن ہے مگر پسِ پردہ یہ بھی اپنے ذاتی مفادات کے شکنجوں میں جکڑی ہوئی وہ فرینڈلی اپوزیشن ہے جس کا کام وہ نہیں ہے جو دِکھا دیتا ہے بلکہ وہ ہے جو یہ حکومت سے پہلے ہی ڈیل کر کے کرتی ہے اور وہ کچھ حاصل کرلیتی ہے جو عوام کو تو نظر نہیں آتا مگر اپوزیشن مزے لے رہی ہوتی ہے جیسا اِن دنوں ہمارے یہاں ہو رہا ہے۔(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 896332 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.