آٹے بحران سے گزری قوم کے لئے خُوشخبری

اَب کی بار......خدا کرے ملک کو گندم کی پیداواری ہدف حاصل ہوجائے....

ہمارے ملک میں گزشتہ سے پیوستہ سالوں سے حکمران طبقے نے دانستہ طور پر گندم اور آٹے کا مصنوعی بحران جس طرح پیدا کیا تھا اِسے دیکھ کر یہ ا ندازہ ہوتا تھا کہ اگر اِسے خُود حکمرانوں نے کنٹرول نہ کیا تو ممکن ہے کہ کہیں یہ آٹے کا مصنوعی بحران آہستہ آہستہ کسی حقیقی بحران کا رنگ نہ بھر لے اور ملک میں ایسے اِنقلابی حالات پیدا کردیئے جائیں جو حکمرانوں کے کنٹرول سے بھی باہر ہوجائیں مگر شائد حکمرانوں کو اِس بات کا احساس جب ہوا تو اُنہوں نے پھر خود ہی ملک سے گندم اور آٹے کے مصنوعی بحران کے خاتمے کا حل نکال لیا اور اِس کے بعد اِنہوں نے چینی کا ایسا خودساختہ بحران پیدا کردیا کہ اِس کے بعد یہ اپنے اُس مِشن سے ایک قدم بھی پیچھے کو نہیں ہٹے کہ جس کی وجہ سے ملک سے چینی کا بحران ختم ہوتا اور شائد یہی بحرانی کیفیت ہی ہے کہ آج ملک میں چینی کی قیمت آسمان کی بلند ترین سطح پر پہنچ کر ملک کے غریب عوام کو منہ چِڑھا رہی ہے ۔

بہرکیف !میرا آج کا موضوع آٹا اور اِس کا ماضی میں آنے والا وہ مصنوعی بحران ہے جس نے عوام کو کسی خاص سمت میں ملک میں اِنقلاب جیسی تبدیلی کے لئے اُکسانا تو ضرور چاہا مگر شائد ہمارے حکمرانوں کی طر ح ہمارے عوام میں بھی مصالحت پسندی کے جرثومے پیدا ہوگئے ہیں وہ اُس وقت کسی اِنقلاب کے لئے تو نہیں نکلی اور ایک مصالحت پسندانہ خاموشی اپنائے وہ تمام حکومتی مظالم سہتی رہی جتنا یہ برداشت کرسکتی تھی۔

مگر آج اگر ہم پچھلے سالوں کا جائزہ لیں تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گزشتہ سالوں میں ہمارے ملک میں گندم اور آٹے کا جو مصنوعی بحران پیدا کیا گیا تھا اِس میں ایک ایسی حکومتی سازش بھی شامل تھی جس کے تحت حکمران طبقہ عوام کا صَبر کا پیمانہ جانچنا چاہتے تھے اور جب یہ عوامی درعمل اور صَبروبرداشت کو پرکھ چکے تو پھر اِس نے ملک میں دیگر دوسرے بحرانوں کا منصوبہ بنایا آج جس میں چینی اور توانائی کے بحران سرِ فہرست ہیں ....اور اَب مختصر یہ کہ آٹے کے مصنوعی بحران سے گزری پاکستانی قوم کے لئے ایک خُوشخبری یہ ہے کہ زرعی ماہرین نے اپنے اپنے سینے ٹھونک کر یہ کہا ہے کہ رواں سال پاکستان میں بروقت بارشوں سے گندم کی فضل پر اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں ہمیں جس سے گندم کا مقرر کردہ ہدف حاصل ہوجائے گا اور اِب اِن کے مطابق آٹا فی کلو زائد قیمت کے عوض وصول کرنے والی پاکستانی قوم کو اُمید کرلینی چاہئے کہ حکومت کو سال 2010-11میں ربیع سیزن کے لئے 90لاکھ 45ہزارایکٹر اراضی پر گندم کی کاشت سے 2کروڑ50لاکھ ٹن گندم کی پیداوار کا ہدف بڑی آسانی سے حاصل ہوجائے گا جس کے بعد قوم کو اپنے ہی ملک میں پیدا ہونے والی معیاری گندم سے اچھا اور سستا آٹا مہیا ہوسکے گا۔ مجھ سمیت ساری پاکستانی قوم کی بس یہ ایک دُعا ہے کہ اَب کی بار خدا کرے ہمارے ملک کو اپنے ہی ملک میں پیدا ہونے والی گندم کی پیداواری ہدف حاصل ہوجائے اور ہم کو گندم اور آٹا واقعی معیاری اور سستے داموں ملنے لگے اِس موقع پر مجھے یہ شعر یاد آرہا ہے جس میں شاعر نے کہا ہے کہ:-
اپنے ویرانوں میں بھی بادِ بہار آجائے اے خُدا اپنے مقدر کا بھی غنچہ کِھل جائے
عید اُس کی ہے ،خُوشی اُس کی ہے، روزے اُس کے اِس بُرے دور میں جس شخص کو روزی مِل جائے

اور اِس کے علاوہ ہمارے زرعی ماہرین نے قوم کو اِس بات کا بھی یقین ایک جامع اور مُفصل رپورٹ کی روشنی میں دلاتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب میں ایک کروڑ92لاکھ ٹن،سندھ میں36لاکھ 82ہزار ٹن، لیبر پختونخواہ میں12لاکھ10ہزارٹن اور بلوچستان میں 9لاکھ ٹن گندم کی پیداوار کا ہدف رکھا ہوا ہے اور یہ امر زرعات کے شعبے سے وابستہ افراد سمیت ساری پاکستانی قوم کے لئے بھی اِنتہائی حُوصلہ افزاء ہے کہ پاکستان کے پاس اِس وقت 4.3ملین ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں اور اِس کے ساتھ ہی ہمارے ماہرین زراعات نے یہ اُمید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارچ کا مہینہ گندم کی فصل کے لئے اِنتہائی اہم ترین مہینہ قرار پاتا ہے اِس لئے کہ اِس ماہ کے دوران درجہ حرارت30ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز نہ کرے تو گندم کی پیداوار اچھی ہوتی ہے اور رواں ماہ گزشتہ سال کی نسبت گندم کی پیداوار کے لئے درجہ حرارت قدرے کم ہے جو ہمارے ملک میں گندم کی پیداور کے لئے بہت اچھی نشانی ہے اُنہوں نے اِس موقع پر گزشتہ سال کا موازنہ کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا کہ پچھلے سال ریبع سیزن میں گندم کی پیداوار حکومتی مقرر کردہ ہد ف سے یوں کم رہی کہ اُس سال ملک میں بارشیں بروقت نہیں ہوئیں تھیں اور مارچ 2010میں گرمی کی شدت میں ہونے والا اضافہ اور آبپاشی کے لئے دستیاب پانی میں کمی تھی جس کی وجہ سے گزشتہ سال ہمیں گندم کا مقرر کردہ ہدف حاصل نہ ہوسکا تھا جِسے پورا کرنے کے لئے حکومت نے بیرونِ ممالک سے گندم منگوا کر اپنی ضرورتوں کو پورا کیا مگر اِس سال نہ صرف حکومت کو ہی نہیں بلکہ زرعات کے شعبوں سے وابستہ افراد اور عوام کو بھی یہ اُمید ضرور کرنی چاہئے کہ ہمارے ملک میں مقررہ کردہ ہدف کے مطابق گندم کی پیداوار حاصل ہوجائے گی اور جس سے ملک سے گندم اور آٹے کا مصنوعی بحران حکمران پیدا نہیں کرپائیں گے۔

اِس موقع پر میرا یہ کہنا ہے کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہم دنیا کی وہ قوم ہیں جس کا تعلق ایک زرعی ملک سے ہے اور ایک ایسا زرعی ملک جس میں پیدا ہونے والے اجناس نہ صرف اپنے ہی ملک کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں بلکہ عالمی منڈی میں بھی اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے بدقسمتی سے اِس زرعی ملک کے باسیوں کو آٹے جیسی بنیادی ضرورت کی شے کے بحرانوں سے کچھ اِس طرح سے گزرنا پڑا ہے قوم گندم کے ایک ایک دانے کو ترس گئی اور قوم میں ایک ایسی انقلابی کیفیت پیدا ہوگئی تھی ۔جو بعد میں ہمارے شاطر حکمرانوں کے سیاسی بیانات اور معمولی نوعیت کے چند ایک اقدامات کے بعد تُرنت ختم ہوگئی گو کہ اِس دوران ہمارے ملک کا ہر ایک فرد خواہ وہ امیر ہو کہ غریب آٹے کے حصول کے لئے ایسا پریشان نظر آیا کہ وہ اُن دنوں نفسیاتی مریض بن کر رہ گیا تھا جو دولت مند تھے اُنہوں نے تو آٹے کی زائد قیمت دے کر بھی اِسے وصول کرلیا تھا اور جو اِس قابل نہ تھا اُسے بھی آٹا تو ملا ..... مگر آٹے کی ایک دس کلو کی بوری کے لئے اُسے صُبح سے دوپہر اور شام تک گھنٹوں گھنٹوں دھوپ ، بارش،سردی اور گرمی میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے اور ڈنڈے کھانے پڑے اور اِس خُونی کیفیت سے گزرنے کے بعد جو خُوش قسمتی سے زندہ بچا تب کہیں جاکر اُس کے ہاتھ میں آٹے کی صرف ایک بوری آئی اور جِسے بھاگ دوڑ کے رَن کے بعد آٹا ملا... اَب اِس کی حفاظت کا مسئلہ بھی اِسے درپیش رہا وہ اِسے(میدانِ رَن سے) اپنے گھر تک ایسے چھپا کر لاتا کہ کوئی اِس سے زبردستی چھین نہ لے اِس طرح وہ آٹا لے کر بھی اپنے ہی گھر میں روٹی ڈر....ڈر کر کھاتا رہا یعنی اِسے وہ آزادی بھی حاصل نہ تھی جو دنیا کے کسی بھی آزاد ملک کے کسی بھی آزادی شہری کو اپنے ملک ، اپنے شہر، اپنے محلے اور اپنے گھر میں حاصل ہوتی ہے اِس طرح وہ آزادی سے ٹھیک طرح سے روٹی بھی نہ کھا سکا ۔یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ملک کے طولُ ارض سے اِنقلاب ....اِنقلاب کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں کیا واقعی ملک میں کسی اِنقلاب کے لئے سیاسی جماعتوں اور عوام نے اپنا اپنا ہوم ورک مکمل کرلیاہے یا خیالی پلاؤ کی طرح اِنقلاب ...اِنقلاب کا ڈھول پیٹا جارہا ہے۔

کیوں کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں آٹے جیسی اشیائے ضرورت کے بحران کے باوجود بھی جب ہماری قوم میں انقلاب کی کوئی تحریک پیدا نہ ہوسکی تو پھر اَب اِس سے زیادہ اور کیا کوئی ایسی بدترین صُورتِ حال سے ہمارا ملک اور قوم دوچار ہوگی جس کی وجہ سے ہم یہ یقین کرلیں کہ اِس سے ہماری قوم میں کوئی انقلابی کیفیت بیدار ہوگی ۔اور ہمارے ملک میں کوئی اِنقلاب کسی بھی صُوبے سے نمودار ہوکر سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ہم چیخ اُٹھیں گے کہ آہ ....آہ ! ہمارے ملک میں بھی کسی مثبت تبدیلی کے خاطر اِنقلاب آگیا ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 896810 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.