تحفظ ناموس رسالت محاذ پر جدوجہد اور شاندار کامیابی

حالیہ تحریک تحفظ ناموس رسالت کی شاندار کامیابی اور وطن عزیز کے غیور مسلمانوں کو جو فتح مبین نصیب ہوئی اس پر اللہ رب العز ت کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہے۔اس تحریک کی کامیابی پر پاکستان کی پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے بالخصوص عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اورتحریک ناموس رسالت کے قائدین وکارکنان اور اس تحریک میں شامل تمام جماعتیں ،ان جماعتوں کے قائدین وکارکنان ،اس تحریک میں انفرادی ،اجتماعی اور جماعتی حیثیت سے حصہ لینے والے تمام عاشقان مصطفیٰ لائق صد تحسین ہیں جن کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں وطن عزیز ایک بڑے بحران سے بچ گیا اور حکومت کو ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم نہ کرنے کا اعلان کرنا پڑا ۔ اگر اس موقع پر حکومت بالخصوص وزیرا عظم سید یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان کے کردار کی تعریف نہ کی جائے تو یقیناً سراسر ناانصا فی ہو گی جنہوں نے عوامی اضطراب کو محسو س کرتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا جس سے وطن عزیز کے مستقبل پر یقینا مثبت اور دوررس اثرات مرتب ہوں گے ۔

حالیہ تحریک ناموس رسالت کا آغاز ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ کی ایک خاتون آسیہ مسح کی طر ف سے شان اقدس میں گستاخی کے بعد ہوا ۔آسیہ مسیح نے شان اقدس میں جو رہزہ سرائی کی اسے نوک قلم پر نہیں لایا جا سکتا ۔اس نے گاؤں کی پنچایت او ر پھر سیشن جج کی عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کیا جس کے نتیجے میں اسے سزا سنا دی گئی تھی۔ اس کے ورثا کو اگر اس فیصلے پر اطمینان نہیں تھا تو ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ ہائی کورٹ کی طرف رجوع کیا جاتا اگر ہائی کورٹ بھی یہ فیصلہ برقرار رکھتی تو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جاتی اور اگر سپریم کورٹ سے بھی موت کی سز ا سنا دی جاتی تب صدر مملکت سے معافی درخواست کی جاتی لیکن سابق گورنر پنجاب نے اس عدالتی پراسس کو ہائی جیک کرتے ہوئے ،درمیان سے ہی اس معاملے کو اچک لیا اور وہ جیل جا پہنچے جہاں آسیہ مسیح کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا اور اس کی سزا معاف کروانے کے عزم کا اظہار کیا۔بعد میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے انسداد ِ توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون قرار دیا جس کی وجہ سے عوامی اشتعال میں مزید اضافہ ہوا ۔اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض نام نہاد این جی اوز نے ناموس رسالت کے قانون کے خلاف مہم جوئی شروع کر دی ،بعض لبرل فاشست اور لبرل انتہا پسند میدان میں کو د پڑے اور انہوں نے ٹی وی مباحثوں ،اخباری کالموں اور دیگر مقامات پر اس قانون کو ہدف تنقید بنا نا شروع کر دیا ۔انسداد توہین ِرسالت کے قانون کے خلاف پانچ ستارہ ہوٹلوں میں سیمینارز منعقد ہونے لگے ،آسیہ مسیح کی رہائی کے لیے این جی اوز کی خواتین کے چھوٹے موٹے مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا اور اس گروہ کی پشت پناہی کرنے والے بعض میڈیا گروپوں نے ان مظاہروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر نا شروع کر دیا ۔اسی دوران معلوم ہوا کہ ایک حکومتی خاتون رکن اسمبلی نے اس بل میں ترمیم کے لیے ایک بل تیار کر لیا ہے اور وہ اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے لیے پَر تول رہی ہیں ،اسی اثناء میں وفاقی وزیر اقلیتی امور کی سربراہی میں انسداد توہین رسالت کے قانون میں ترامیم وغیرہ تجویز کرنے کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کا شوشہ چھوڑا گیا ۔

یہ صورتحال ہمارے لیے خاصی تشویشناک تھی ۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں انسداد توہین رسالت قانون کی موجودگی از حد ضروری ہے کیونکہ اس قانون نے بہت سے فساد اور قتل وغارتگری کا دروازہ بند کر رکھا ہے ۔اس لیے نہ صرف یہ کہ پاکستان کی سطح پر اس قانون کی ہر قسم کی قطع وبرید سے حفاظت کرنا ضروری ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک ایسے قانون کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جارہی جس سے تمام قابل احترام مذہبی شخصیات بالخصوص حضرات انبیاء کرام کی عزت وناموس کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے ۔

جبکہ دوسری طرف اس دنیا بالخصو ص پاکستان میں فساد وانتشار پھیلانے کی خواہاں قوتوں کی دیرینہ خواہش رہی ہے کہ وہ انسداد توہین رسالت قانون ختم یا غیر موثر قرار دینے میں کامیاب ہو جائیں ۔ ایسی قوتوں کے لیے آسیہ مسیح سونے کی چڑیا ثابت ہوئی اور سابق گورنرپنجاب کی طرف سے پھینکے گئے پہلے پتھر کے بعد ایسی قوتیں حرکت میں آگئیں اور ہمیں بخوبی اندازہ ہو گیا کہ یہ مخصوص لابی اپنے دیرینہ ایجنڈے کی تکمیل اور اس قانون کے خاتمے کے لیے اس وقت کس حد تک جا سکتی ہے ۔کیونکہ اس لابی کے خیال میں اس قانون پر آخری اور کاری ضرب لگانے کے لیے یہ ایک آئیڈیل موقع تھا اور وہ اس طرح کہ ایک طرف پنجاب میں سب سے اہم آئینی عہدہ سلمان تاثیر کے پاس تھا جو اس لابی کے پرانے مہربان بلکہ رہنماء سمجھے جاتے تھے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی اور اس پارٹی سے ہمیشہ سیکولر انتہا پسند بہت سی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں،اُدھر عالمی سطح پر بھی اس معاملے میں پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دلآزار ،شرا نگیز اور توہین آمیز خاکے بنانے والے گروہ نے عالمی طاقتوں اور رائے عامہ کو اس بری طرح یرغمال بنا رکھا ہے ان کی طرف سے بھی مسلسل ناموسِ رسالت کے خلاف غوغا آرائی جاری تھی۔اس کے ساتھ ساتھ مسیحی برادری کو اس قانون سے ڈرا کر باقاعدہ فریق بنا لیا گیا تھا اور اس معاملے کو مسلم مسیحی محاذ آرائی کا رنگ دینے کی کوشش کی جانے لگی تھی۔ آزادی اظہار رائے اور حقوق نسواں کے خوشنما نعروں کی آڑ میں اس قانون کے خلاف معرکہ آرائی جاری تھی ۔ اس لیے ہم نے بھی اس معاملے کو بگاڑ کی طرف جانے سے بچانے کے لیے مجبوراً میدان عمل میں نکلنے کا ارادہ کیا ۔چنانچہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنما ؤں سے گزارش کی کہ ناموس رسالت کے معاملے میں آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہیے وہ ذرا گو مگو کی کیفیت میں تھے اور انہیں یہ فکر لاحق تھی کہ آل پارٹیز کانفرنس کی کامیابی کیسے یقینی بنائی جائے گی لیکن جب انہیں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی اور کانفرنس کی کامیابی کی ذمہ داری لی تو یہ طے پایا کہ 15دسمبر کو اسلام آباد میں آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔اس کانفرنس کی کامیابی کے لیے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنماؤں سے مل کر بھرپور جدوجہد کی۔ اس کانفرنس سے دو روز قبل جمعیت علماء پاکستان کے زیر اہتمام ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ہم نے بھر پور شرکت کی ،اس موقع پر یہ طے پایا کہ آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان 15دسمبر کی مرکزی کانفرنس میں کیا جائے گا ۔

15دسمبر کو منعقد ہونے والی کانفرنس ایک یادگار کانفرنس تھی جس میں ملک بھر کی تمام اہم مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے بھرپور انداز سے شرکت کی ۔راقم الحروف کو آل پارٹیز کانفرنس کی نقابت ونظامت کی ذمہ داری سونپی گئی ۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آل پارٹیز کانفرنس بہت کامیاب رہی ۔اس موقع پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ 24دسمبر کو ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے ،31دسمبر کو پورے ملک میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہو گی ،9 جنوری کو کراچی میں عظیم الشان ریلی ہو گی اور پھر اگلے پروگرام کا کراچی میں اعلان کیا جائے گا ۔چنانچہ 24دسمبر کو ملک بھر میں بھرپور مظاہرے ہوئے ۔31دسمبر کو تاریخ ساز شٹر ڈاؤن ہڑتا ل ہوئی یہ ہڑتا ل ایک ریفرنڈم کی شکل اختیار کر گئی مگر اس کے باوجود حکمرانوں کی آنکھیں نہ کھلیں پھر 7جنوری کو کراچی میں عظیم الشان ریلی کا انعقاد کیا گیا ۔کراچی کی تحفظ ناموس رسالت ریلی کیا تھی؟انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا.... اس موقع پر 30جنوری کو لاہور میں عظیم الشان ریلی کا اعلان کیا گیا چنانچہ 30جنوری کو لاہور میں عظیم الشان ریلی نکالی گئی جس میں تاحد نگاہ انسانوں کا ہجوم تھا۔ اس موقع پر اگلے مرحلے میں پشاور اور پھر کوئٹہ میں بھی ریلیاں منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا۔اس تحریک کے دوران مسلمانان پاکستان اور تحریک تحفظ ناموس رسالت کے قائدین وکارکنان کے تین بڑے مطالبات تھے ۔

1....پہلا مطالبہ یہ تھا کہ حکومت انسدادِ توہین رسالت قانون میں ہر قسم کی ترمیم وتحریف سے باز رہے ۔ وزیر اعظم اسمبلی فلور پر پالیسی بیان دیں اور باضابطہ طور پر یہ اعلان کیا جائے کہ اس قانون میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جارہی ۔

2....دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ حکومتی خاتون رکن اسمبلی کی طرف سے تیار کیا گیا ترمیمی بل غیر مشروط طور پر واپس لیا جائے ۔

3 ....اور تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کی سربراہی میں بننے والی اس مبینہ کمیٹی کو تحلیل کیا جائے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کمیٹی ناموس رسالت قانون کا جائز ہ لے کر اس میں ترامیم وتبدیلیاں تجویز کرے گی یا اس کے طریقہ استعمال کی ”اصلاح“ کرے گی ۔

ان تینوں مطالبات کو منوانے کے لیے عوامی سطح پر احتجاجی تحریک جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ہم نے مختلف محاذوں پر کام جاری رکھا ۔ا س تحریک کے دوران جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی وہ یہ کہ مختلف مکاتب فکر کے رہنماؤں کے مابین اتحاد واتفاق کی فضا برقرار رہے اور ناموسِ رسالت قانون کے خاتمے کے لیے سرگرمِ عمل اندرون وبیرون ملک میں موجود قوتوں کو یہ بتا یا جائے کہ ناموس رسالت کے معاملے میں تمام لوگ متحد ومتفق ہیں ۔اس حوالے سے ہم نے ایثار سے بھی کام لیا اور احتیاط سے بھی۔ جہاں کہیں دو مکاتب فکر یا دو جماعتوں کے درمیان کسی قسم کی دوریوں یا غلط فہمی کی اطلاع ملی اس کے تدارک کی کوشش بھی کی اور صلح صفائی کا اہتمام بھی کیا ۔اس کے ساتھ ساتھ میڈیا مہم میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،رائے عامہ پر اثر انداز ہو نے والی اہم شخصیات سے انفرادی اور اجتماعی ملاقاتیں کر کے انہیں اس معاملے کی حساسیت ونزاکت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی اور قرآن وسنت کی روشنی میں ان کی ذہن سازی کا اہتمام بھی کیا ۔وفاق المدارس کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے مدارس کے اساتذہ وطلباء، وفاق المدارس کے فضلاء اور ائمہ وخطباء نے ملک بھر میں منعقد ہونے والی ریلیوں ،کانفرنسوں ،جلسوں اور مظاہروں کی بھرپور کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ۔وفاق المدارس کی قیادت نے اربابِ مدارس کے نام خطوط لکھ کر انہیں اس اہم ترین معاملے میں فعال کردار ادا کرنے کی تاکید کی۔ جس پر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ملک بھر کے ارباب مدارس نے ایمانی جوش وخروش سے اپنا پورا وزن اس تحریک کے پلڑے میں ڈالا ۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم محاذ جسے ہمارے اکابر کبھی بھی نظر انداز نہیں کرتے تھے اس پر بھی ٹوٹی پھوٹی محنت کی کوشش کی ۔اور وہ تھا اہم حکومتی شخصیات ،پالیسی سازوں اور اراکین پارلیمنٹ وسینٹ کے ساتھ رابطہ کاری کا محاذ .... وزیر اعظم پاکستان سمیت ملک کے اہم اور کلیدی عہدوں پر فائز شخصیات کے ساتھ اس تحریک کے دوران مسلسل رابطہ رہا اور انہیں اس اہم ترین معاملے میں قرآن وسنت ،دلائل ومنطق اور ملکی مفادات وترجیحا ت کی روشنی میں درست فیصلے اور صحیح نتیجے تک پہنچانے کے لیے اپنی بسا ط کے مطابق کوششیں جاری رکھیں ۔یوں تو ہر اہم شخصیت اور جماعت نے اس مبارک تحریک میں بھرپور انداز سے حصہ لیا مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہاں خصوصیت کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کی کاوشوں کا ذکر نہ کرنا یقیناً ناانصافی ہو گی ۔انہوں نے اس تحریک میں بہت ہی فعال ،موثر اور نتیجہ خیز کردار ادا کیا ۔اپنے کئی بیرونی اسفا ر ملتوی کیے ۔حکومت کے ساتھ محاذ آرائی ،جدائی اور ڈیڈ لاک کے باوجود وہ ناموس رسالت کے معاملے میں اہم حکومتی شخصیات کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے اور انہیں قائل کرنے اور صحیح فیصلہ کرنے پر آمادہ کرنے میں بالشبہ مولانا نے کلیدی کردار ادا کیا ۔

تین ماہ کی انتھک جدوجہد کے بعد بالآخر حکومت کی طرف سے پوری قوم بالخصوص تحریک ناموس رسالت کے قائدین کے مطالبات کی روشنی میں مبنی برحقیقت موقف کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔اس کی سبیل کچھ یوں بنی کہ قانون ناموس رسالت کے حوالے سے شروع ہونے والے جملہ امور کے سلسلے میں حکومت نے وفاقی وزارتِ قانون سے مشاورت طلب کی ۔وفاقی وزارت قانون کی طرف سے ناموس رسالت کے معاملے میں قرآن وسنت ،تاریخی حوالوں ،عالمی قوانین وغیرہ کی روشنی میں ایک جامع ،پرمغز ، دلائل سے مزین اور مبنی بر حق سفارشات پر مشتمل دستاویز وزیر اعظم اور دیگر ارباب حل وعقد کی خدمت میں پیش کی گئی۔(جس دستاویز پر اگلے کالم میں گفتگو کی جائے گی انشااللہ ) اس کی روشنی میں عزت مآب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جو تحریری آرڈر جاری کیا۔اس کے بارے میں انہوں نے نہ صرف یہ کہ فون کر کے راقم الحروف کو آگاہ کیا بلکہ فوری طور پر اس آرڈر کی کاپی فیکس بھی کروائی جس میں لکھا گیا تھا کہ ”وزیر اعظم پاکستان نے وزیر قانون و انصاف وپارلیمانی امور کی تجاویز کی بخوشی منظوری دے دی ہے .... تمام متعلقہ وزارتوں کو ضروری اقدامات کی ہدایت کی جاتی ہے ....منطور شدہ تجاویز کی کاپی الگ سے ارسال ہے“۔

اس کے بعد وزیر اعظم نے نہ صرف یہ کہ اسمبلی فلور پر پالیسی بیان میں اعلان کیا کہ حکومت ناموسِ رسالت قانون میں کسی قسم کی ترمیم وتحریف کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی بلکہ انہوں نے اپنی پارٹی کی خاتون رکن کو بھی اس قانون کے حوالے سے ترمیمی بل واپس لینے کا حکم دے دیا جس پر مذکورہ خاتون نے اپنا بل واپس لے لیا اور وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کے بارے میں بتایا کہ ایسی کسی کمیٹی کا اول تو کوئی نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں ہوا اور اگر بالفرض ایسی کوئی کمیٹی موجود بھی ہے تو وہ تحلیل کی جاتی ہے ۔

یوں اللہ رب العزت کے فضل وکرم سے وطن عزیز ایک بہت بڑے بحران سے محفوظ ہو گیا اور اسلامیان پاکستان اور تحریک ختم نبوت کے قائدین اور کارکنان کو اللہ رب العزت نے فتح مبین عطا فرما دی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اعجاز ملاحظہ کیجیے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رہنماء قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو اللہ تعالی ٰ نے مسئلہ ختم نبوت کو حل کرنے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قادیانیوں کو کافر قرار دلانے کا اعزاز عطا فرمایا اور انہی کی پارٹی کے دور اقتدار میں ناموس رسالت کے معاملے پر مہر تصدیق وتائیدثبت کروائی ....فللہ الحمد علی ٰ ذالک
Molana Qari Muhammad Hanif Jalahndri
About the Author: Molana Qari Muhammad Hanif Jalahndri Read More Articles by Molana Qari Muhammad Hanif Jalahndri: 35 Articles with 60603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.