ہمارا رخ کس طرف ہے؟

مولانا محمد منصور احمد
جاپان کے بھیانک زلزلے کی تفصیلات آپ پڑھ اور سن رہے ہوں گے۔ وہ قوم جس کی مادّی ترقی کو پوری دنیا میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور جہاں کی تیار کردہ اشیا کو لوگ آنکھیں بند کر کے منہ بولی قیمت پر خرید لیا کرتے تھے، آج جب قدرتِ الٰہی کی زد میں آیا ہے تو صاف پتہ چل رہا ہے کہ وہاں ہونے والا جانی و مالی نقصان کسی طرح بھی پاکستان میں ۵۰۰۲ میں آنے والے زلزلے سے کم نہیں۔

ہم نے بھی لوگوں سے بارہا سنا اور اخبارات میں بار بار پڑھا کہ جاپان نے زلزلہ سے محفوظ ایسی عمارتیں بنا لیں ہیں جن پر اب کوئی حادثہ یا آسمانی آفت اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ اس زلزلے نے دنیا کو بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے ٹیکنالوجی کی کوئی حقیقت نہیں اور انسان چاہے جتنا بھی ترقی کر جائے، قدرتِ الٰہی کے سامنے اُس کی حیثیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں۔ سورۂ رحمن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا۔ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ ۔﴿الرحمٰن:۳۳﴾
ترجمہ ﴿ اے گروہ جن و انس اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان و زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ اور زور کے سوا تم نکل سکنے ہی کے نہیں﴾

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں گزشتہ ادوار کی ترقی یافتہ قوموں کا بہت تفصیلی ذکر فرمایا ہے اور انسانوں کو یہ بتایا ہے کہ وہ لوگ تم سے کہیں زیادہ مضبوط اور ذہین تھے۔ انہوں نے پہاڑوں کو تراش کر اپنے لیے گھر بنا رکھے تھے اور اپنی عمارتیں اتنی شاندار بناتے تھے کہ گویا انہوں نے ہمیشہ اسی دنیا میں رہنا ہے اور کبھی موت کا منہ نہیں دیکھنا۔ اپنی اسی ترقی کے زعم میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کو جھٹلایا، احکامِ الٰہی سے بغاوت کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والی ہر صدا کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔

تب اُن کا انجام کیا ہوا؟ کسی کو زبردست طوفان اور سیلاب سے ہلاک کر دیا گیا، کسی کیلئے فرشتے کی ایک خوفناک چیخ ہی کافی ہوگئی، کسی کو زمین میں دھنسا دیا گیا۔ قومِ لوط کی بستی کو تو فرشتوں نے زمین سے بلند کر کے اُلٹا کر کے زمین پر پٹخ دیا، آسمان سے پتھروں کی بارش برسائی گئی اور بہت سے حضرات کی رائے کے مطابق بحرِ مردار آج اُسی جگہ واقع ہے جہاں کبھی یہ ترقی یافتہ اور عظیم الشان قوم بستی تھی۔

اردو زبان میں ان قرآنی واقعات پر مستقل کتابیں لکھی گئیں ہیں جن میں سب سے زیادہ نمایاں ’’قصص القرآن‘‘ ہے جو دارالعلوم دیوبند کے عظیم فرزند اور جمعیت علمائِ ہند کے جلیل القدر راہنما حضرت مولانا محمد حفظ الرحمن سیوہاروی(رح) نے بڑی محنت، تحقیق اور جستجو سے لکھی ہے۔ ہمارے پڑھے لکھے طبقے کے اکثر گھروں میں کچھ نہ کچھ کتابیں ہوتی ہیں، اگر مستند علما کرام سے پوچھ کر گھر میں دینی کتابیں بھی اہتمام سے لاکر رکھی جائیں اور پھر سلیقے سے اُن کے مطالعہ کی ترغیب دی جائے تو یقیناً لادینیت کے اُس سیلاب سے بچا جاسکتا ہے جس نے آج ہر گھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اگر ہم اس نیک کام کا آغاز آج ہی ’’قصص القرآن‘‘ سے کردیں تو کیا ہی بابرکت اور بہترین افتتاح ہوگا۔

بہرحال ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کی قدرتِ الٰہی کے سامنے شکست و ریخت آج کوئی نئی بات نہیں۔ کئی لوگ تو ترقی یافتہ ممالک کی ظاہری چکا چوند کو دیکھ کر اتنا مرعوب ہوتے ہیں کہ ایمان کی دولت کو کم تر اور حقیر سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسے روشن خیال حضرات تو ایسے مواقع پر ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جن سے انسان کا ایمان ہی ختم ہو جاتا ہے۔ پھر ظاہر ہے کہ جب یہ ظاہری اور فانی ترقی ہی سب کچھ قرار پائی تو اس کے لیے اپنے دین و ایمان کا سودا کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ہمارے آقا ﷺ نے اس صورت حال کو ان الفاظ میں بہت پہلے ہی بتا دیا تھا: ’’عنقریب ایسے فتنے ہوں گے جیسے گہری اندھیری رات کے حصّے۔ ایک شخص صبح کے وقت صاحبِ ایمان ہوگا تو شام ہوتے ہی کافر ہو چکا ہوگا۔ اسی طرح ایک شخص شام کو مؤمن ہوگا تو صبح ہونے تک کافر ہو چکا ہوگا۔ وہ اپنے دین کو دنیا کے معمولی معمولی سامان کے بدلے میں بیچ ڈالے گا۔‘‘

آج اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور ارد گر دپھیلے ہوئے مناظر کو دیکھیں تو ہر سمت اس حدیث پاک کی صداقت دن کے سورج سے زیادہ واضح نظر آتی ہے۔ کوئی حکمران اور صاحبِ اقتدار ہے تو اربوں کھربوں کے بدلے اپنے ایمان اور قوم کا سودا کر رہا ہے اور اگر کوئی گوالا ہے تو وہ پانچ دس روپے کی خاطر دودھ میں پانی ملا کر اپنا ایمان تباہ کر رہا ہے۔ پھر ان دونوں کے درمیان بے شمار درجات ہیں، جس کا جہاں اور جتنا بس چل رہا ہے وہ اپنے ایمان کی اُتنی ہی قیمت لگا رہا ہے۔

اب تو ذرائع ابلاغ کی ترقی کی وجہ سے انسان براہِ راست حادثات کے مناطر دیکھ رہا ہے لیکن عبرت حاصل کرنے کو کوئی تیار نہیں، حالانکہ:
یہ سرائے دھر مسافرو! بخدا کسی کا مکان نہیں
جو مکیں اس میں تھے کل، کہیں آج اُن کا نام و نشاں نہیں
اور
جگہ جی لگانے کی یہ دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

اس کائنات کے سب سے زیادہ سمجھدار لوگ حضراتِ انبیا علیہم السلام ہیں اور انہوں نے دنیا کو مادّی طریقے سکھانے کی بجائے، ایمان اور اعمالِ صالحہ کا درس دیا۔ اُن کو دنیا میں بھیجا ہی اس لیے جاتا تھا کہ وہ مخلوق کو خالقِ کائنات سے جوڑ دیں اور دربدر بھٹکنے والے انسانوں کو ایک در پر لے آئیں۔ یہ نہیں کہ اُنہوں نے دنیا کو بالکل بے کار بتایا ہو یا اُسے عضوِ معطل بنا کر چھوڑ دیا ہو لیکن انہوں نے اس دنیا سے وہ ہی کچھ لیا جو ایمان کے لیے نفع مند تھا اور اُس کے ذریعے نیک کام سرانجام دینے کی قوت حاصل ہوتی تھی۔ اُن کی محنتوں کا اصل محور اور مقصد ایمان تھا، مادّی ترقی نہ تھی۔ اس لیے ان کی سعی پیہم کے نتیجے میں جو ماحول بنا وہ اخلاق و کردار کا ایک مثالی نمونہ تھا۔

اس کے برخلاف دنیا کے معروف لوگ جنہوں نے اپنی زندگیاں صرف مادی ایجادات میں کھپا دیں اور اپنی ساری تگ و دو کا مقصد صرف ظاہری راحت اور آسائش کو ہی رکھا، وہ دوسروں کو تو کیا سکونِ دل کی دولت دیتے، خود بھی اس نعمت سے محروم رہے۔ بھلا ایمان کے بغیر یہ نعمت ملتی بھی تو کیسے ملتی؟ گزشتہ دنوں ایک کتاب میں نظر سے گزرا کہ معروف مغربی فلاسفر ’’کارل ڈینگی‘‘ جس نے انسانی نفسیات پر بڑی تحقیق کی ہے اور وہ زندگی بھر لوگوں کو پرسکون اور کامیاب زندگی گزارنے کے طرقے سکھاتا رہا، خود اُس نے خود کشی سے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ آج ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں اُس کی کتابیں بہت مقبول ہیں اور دنیا کی کئی زبانوں میں اُن کے تراجم شائع ہو چکے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ خود ایمان کی دولت سے محروم ہونے کی بنا پر کتنا مضطرب اور پریشان تھا۔

آج بات جاپان سے شروع ہوئی اورایمان کی قدرو قیمت پر ختم ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کی زندگی میں ایسے لمحات اور ایسے موڑ ضرور آتے ہیں جہاں ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ہم مادّی ترقی، اضافی تنخواہ، بینک بیلنس اور دنیا کے کروفر کو اختیار کر کے ایمان اور اعمالِ صالحہ سے ہاتھ دھونا چاہتے ہیں یا اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے بارگاہِ الٰہی میں یہ عرض کر دیتے ہیں:
سپردیم بتو، مایۂ خویش را
تو دانی حسابِ کم و بیش را

﴿اے اللہ! میں اپنے آپ کو آپ کے ہی حوالے کرتا ہوں۔ آپ ہی میری ہر غلطی اور ہر نیکی سے آگاہ ہیں۔﴾

دنیا بھر میں آنے والے زلزلے، طوفان اور حادثات سے ہمیں یہی سبق دے رہے ہیں کہ ہم دنیا کے خزانوں پر ٹوٹ پڑنے کے بجائے اُسی نعمت کو اختیار کریں جو سدا کام آنے والی ہے۔ ورنہ زندگی کی کسی بھی صبح یا شام سب کچھ یہاں ہی دھرا کا دھرا رہ جائے گا اور ہم حسرت و ندامت سے ہاتھ ملتے ہوئے خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔ ایسا وقت آنے سے پہلے ہم سب کو سوچ لینا چاہیے کہ ہمارا رُخ کس طرف ہے؟
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 195787 views A Simple Person, Nothing Special.. View More